الیکشن 2018: چیف کا مقابلہ چیف سے تو نہیں؟

صادق مصطفوی  ہفتہ 2 جون 2018
کیا نگران وزیراعظم جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک اور جسٹس ثاقب نثار میں تصادم کے بغیر الیکشن ممکن ہوں گے؟ (فوٹو: فائل)

کیا نگران وزیراعظم جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک اور جسٹس ثاقب نثار میں تصادم کے بغیر الیکشن ممکن ہوں گے؟ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں الیکشن 2018 سے پہلے نگران حکومت کےلیے حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے متفقہ طور پر نگراں وزیراعظم کےلیے سابقہ چیف جسٹس ریٹائر ناصر الملک کے نام پر اتفاق کیا گیا۔ خیبر پختونخوا کے علاقے سوات سے تعلق رکھنے والے جسٹس ناصر الملک کی اس وقت عمر 68 سال ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں کے وزارائے اعلی کا انتخاب بھی اسی طرح 65 سال سے زائد عمر کے افراد سے ہی کیا جائے گا۔ خیبر پختونخوا سے ہی تعلق رکھنے والے، ایبٹ آباد سے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ریٹائر) سردار رضا خان ہیں۔ ان کی عمر بھی 73 سال ہے۔

یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ الیکشن کی انتہائی اہم ذمہ داری پاکستان کے ان عمر رسیدہ افراد کے کندھوں پر ڈالی جا رہی ہے۔ کیا پاکستان کے آئندہ 5 سال کی حکومت منتخب کرنے کےلیے شفاف الیکشن ان ریٹائر بزرگوں سے ممکن ہوسکے گا؟

جسٹس ناصر الملک کا بطور چیف جسٹس نعرہ تھا کہ انصاف ہونا چاہیے، چاہے آسمان ہی کیوں نہ گرپڑے۔ جبکہ ان کے فیصلے ان کے نعرے سے یکسر مختلف نظر آتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان ہوتے ہوئے الیکشن 2013 میں دھاندلی کے کیس میں سپریم کورٹ کے بنچ کے سربراہ کے طور جسٹس ناصر الملک نے کئی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی اور اس بات کا اعتراف کیا کہ الیکشن 2013 میں الیکشن کمیشن ناکام رہا، الیکشن شفاف نہیں ہوئے لیکن کیوں کہ ’’منظم دھاندلی‘‘ نہیں ہوئی اس لیے الیکشن 2013 کے کیس کو خارج کردیا۔ ان کی منظم دھاندلی والی اصطلاح کو سوشل میڈیا پر بہت تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح جسٹس ناصر الملک نے نواز شریف کو نااہل قرار دینے کےلیے دائر کی گئی درخواستوں کو بھی ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردیا۔ لاپتا افراد کیس کو بھی عدالتی تاریخوں اور فائلوں کی نذر کردیا گیا۔

26 اپریل 2012 کو یوسف رضا گیلانی کو سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی وجہ سے وزیراعظم کے عہدے سے فارغ کیا گیا۔ وہ اصول ان کے بعد آنے والے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کےلیے نرم کردیا گیا۔ انصاف کا نعرہ لگانے والے جسٹس ناصر الملک نے بطور چیف جسٹس کوئی سوموٹو ایکشن نہیں لیا حالانکہ ان کے دور میں سانحہ ماڈل جیسا حکومتی دہشت گردی کا واقعہ بھی پیش آیا۔ اگر ناصر الملک اپنی ذمہ داری ادا کرتے تو 2014 میں ڈاکٹر طاہرالقادری کو طویل دھرنا نہ دینا پڑتا۔

موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار جن سے اس وقت پاکستانی عوام بہت سی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں، عوام کے بنیادی حقوق پر کئی ایکشن لے چکے ہیں۔ نواز شریف کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ بھی ان کے دور میں کیا گیا۔ کسی بھی طرح کے مارشل لاء کا انکار کرتے ہوئے شفاف الیکشن کا وعدہ بھی عوام سے چیف جسٹس ثاقب نثار کرچکے ہیں۔ سابق اور موجودہ چیف جسٹس کے فیصلے میں بہت واضح فرق نظر آتا ہے۔ ایک طرف ثاقب نثار بطور چیف جسٹس اور جسٹس جاوید اقبال بطور چیئرمین نیب (NAB) کرپشن کے خلاف متحرک ہیں تو دوسری طرف جسٹس (ریٹائر) ناصر الملک جن کے نزدیک دھاندلی صرف منظم ہو تو اس کو دھاندلی کہیں گے، جنہوں نے نواز شریف کے خلاف درخواست سننے سے ہی انکار کیا اور ان کو ناقابل سماعت کہہ کر مسترد کرتے رہے۔

ایسی صورت حال میں نگران وزیراعظم کے طور پر ناصر الملک اور ثاقب نثار کے درمیان ٹکراؤ کے بغیر الیکشن ممکن ہوں گے؟ کیا ثاقب نثار کا شفاف الیکشن کا وعدہ ناصر الملک پورا کرنے میں معاون ثابت ہوں گے؟ پاکستان اس وقت عالمی سطح پر جن مشکلات کا شکار ہے ایسے میں شفاف الیکشن پاکستان کےلیے بہت ضروری ہیں۔ آزاد، منصفانہ الیکشن 2018 سے ہی مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھی جائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔