اس بار عوام ’’اسٹیٹس کو‘‘ توڑیں گے

عوام دشمن کارنامے ہمیشہ اشرافیائی حکومتوں کے دوران دیکھے جاتے رہے ہیں۔


Zaheer Akhter Bedari May 31, 2018
[email protected]

انتخابات دو ماہ کی دوری پر رہ گئے ہیں، سیاسی پارٹیوںکے اکابرین نئے نئے وعدوںاور پرفریب دعوؤں کے ساتھ شہر شہرگھوم رہے ہیں ، بھاری سرمایہ لگا کر بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں، ہنگامی بنیادوں پر اسپتال اور تعلیمی ادارے بنا رہے ہیں، اقتدار میں آنے کے بعد عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینے کے وعدے کر رہے ہیں ۔

سود کے بغیر قرض فیس کے بغیر تعلیم دینے کی پرفریب باتیں کر رہے ہیں، یہ پہلا موقع نہیں کہ عوام سے اس قسم کے وعدے کیے جارہے ہوں یہ پرفریب سلسلہ 70 سال سے جاری ہے عام آدمی کے مسائل میں کمی نہیں اضافہ ہی ہورہا ہے اور دھوکے پر دھوکا کھانے کے باوجود عوام پھر ایک بہار دھوکہ کھاتے دکھائی دے رہے ہیں، البتہ اس بار عوام کے پاس ایک چوائس ہے ایک نعم البدل ہے، کیا عوام اس چوائس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 70 سال پر محیط اس تباہ کن اسٹیٹس کو کو توڑنے کی کوشش کریںگے؟

اشرافیائی حکمران نئی نئی سڑکیں بنا رہے ہیں اوور ہیڈ برج بنا رہے ہیں ، انڈر پاس بنا رہے ہیں ، نئے نئے ایئرپورٹ بنا رہے ہیں ۔ 10،10 نئی ایئر کنڈیشن بسیں چلاکر بڑے بڑے کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ اسپتالوں میں سٹی اسکین مشینیں مہیا کرکے سینہ پھلارہے ہیں اور ان کارناموں کی دن رات پبلسٹی کرکے عوام کو متاثر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ترقیاتی کام الیکشن کے سامنے ہی کیوں کیے جا رہے ہیں؟ پانچ سال کے دوران یہ ترقیاتی کام کیوں نہیں کیے گئے؟ اس لیے نہیں کیے گئے کہ یہ لوٹ مار میں مصروف تھے۔

یہ مہربان چار چار پانچ پانچ بار حکومت کرتے رہے ہیں لیکن خدا نے شاید ان کو توفیق ہی نہیں دی کہ وہ عوامی مسائل کی طرف توجہ دیں فوجی ڈکٹیٹروں کو صبح شام گالیاں دینے والوں کو یہ احساس نہیں کہ عوام کی بنیادی ضرورتیں فوجی حکومتوں کے دوران ہی بہتر طریقے سے پوری ہوتی رہی ہیں۔ مثلاً جنرل (ر) مشرف کے دور میں آٹا 16 روپے کلو ملتا تھا، چاول 30 روپے کلو ملتے تھے دالیں 35،30 روپے کلو، تیل گھی 60،50 روپے کلو، چینی 20 روپے کلو، گوشت ڈیڑھ دو سو روپے کلو، سبزیاں15،10 روپے کلو، دودھ 60،50 روپے کلو دستیاب تھے اور عوام آسانی سے اپنی ضروریات زندگی پوری کرلیتے تھے اور آج آٹا 50 روپے کلو چاول150 روپے کلو، دالیں200،150 روپے کلو دودھ سو روپے کلو، دہی 140 روپے کلو، سبزیاں 100روپے کلو، چینی 65 روپے کلو یہ ہے جمہوریت کی سوغات۔

کوئی عاقل و بالغ شخص غیر منتخب حکومتوں کی حمایت نہیں کرتا لیکن جب وہ غیر منتخب حکومتوں کے دور کا موازنہ سول حکومتوں کے دور سے کرتا ہے تو اس کے دماغ کی چولیں ہل جاتی ہیں اور وہ ایک سرد آہ کے ساتھ غیر منتخب حکومتوں کو یاد کرنے لگ جاتے ہیں۔

یہ عوام دشمن کارنامے ہمیشہ اشرافیائی حکومتوں کے دوران دیکھے جاتے رہے ہیں اس لیے اب عوام کا اعتماد جمہوری حکومتوں اور اشرافیائی سیاست دانوں سے اٹھ گیا ہے لیکن ان کے پاس کوئی چوائس نہیں تھی وہ ایک یا دوسرے لٹیرے کو ووٹ دینے پر مجبور تھے۔ آج کی سیاست میں جو بونچھال آرہے ہیں جو طوفان اٹھ رہے ہیں اس کی صرف ایک وجہ نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسٹیٹس کو ٹوٹنے اور 70 سالہ شاہی جمہوریت ختم ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

بے شک جمہوریت جدید دنیا کا ایک بہتر نظم حکومت ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں کامیابی سے یہ نظام چل رہا ہے کیونکہ ان ملکوں میں جمہوریت کے تھوڑے بہت ثمرات عوام تک پہنچ رہے ہیں لیکن پسماندہ ملکوں میں جمہوریت کے نام پر اشرافیہ نے لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا ہے چھوٹی موٹی لوٹ مار نہیں اربوں کھربوں روپوں کی لوٹ مار جاری ہے اس لوٹ مار کی داستانوں سے میڈیا بھرا ہوا ہے سرمایہ دارانہ جمہوریت اپنے اصلی روپ میں نظر آرہی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 70 سالوں سے اشرافیہ سیاست اور اقتدار پر کیوں قابض ہے۔ اشرافیہ بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ کا ایک تیکون اس قدر مضبوط تھا کہ اشرافیہ کے علاوہ سیاست میں کسی اور طبقے کا داخلہ ممنوع تھا یہ سازش نہیں تھی بلکہ اس کے ڈانڈے تحریک پاکستان کے دور سے ملتے ہیں۔ وہ علاقے جو پاکستان میں شامل ہونے والے تھے ان علاقوں میں قبائلی اور جاگیردارانہ نظام رائج تھا۔

تقسیم کے روشن احکامات دیکھ کر پاکستان کے جاگیردار اور وڈیرے مسلم لیگ میں شامل ہوگئے نہ صرف شامل ہوگئے بلکہ صف اول میں جگہ بنالی ،1947 میں جب ملک تقسیم ہوا تو پاکستان میں جاگیردار اور بیورو کریسی اقتدار میں گھس گئی اور اس مضبوطی سے اپنے پنجے گاڑھے کہ اقتدار ان کے جوتوں تلے آگیا، ضیا الحق نے اپنے مفادات کے لیے صنعتی بیوروکریسی کو اقتدار میں گھسیٹ دیا یوں زمینی اور صنعتی اشرافیہ اس قدر طاقتور ہوگئی کہ کوئی اس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ رہا۔

یہ گٹھ جوڑ وقت کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ 1988 سے آج تک یہ گٹھ جوڑ بڑی کامیابی سے چل رہا ہے باری باری کیے اس کھیل میں ایک مڈل کلاس نے ایسی کھنڈت ڈال دی ہے کہ اب اس کھیل کا جاری رہنا مشکل نظر آرہا ہے اسی لیے ہر روز ایک نیا ترقیاتی کام شروع ہو رہا ہے ، مقصد صرف یہ ہے کہ اقتدار ہاتھوں سے نہ نکل پائے، اسی مقصد کے حصول کے لیے جو ترقیاتی کام کیے جا رہے ہیں ۔ اس کے دو مقاصد نظر آتے ہیں ایک یہ کہ عوام کو یہ باور کرانا کہ لمبی لمبی سڑکیں بن رہی ہیں ہوائی اڈے تعمیر ہورہے ہیں، اسکول اور اسپتال بن رہے ہیں اور انڈر پاس بن رہے ہیں یہ بھی اس لیے ہورہا ہے کہ ایک مڈل کلاس سیاست دان نے اشرافیہ کی ناک میں دم کردیا ہے۔

عوام ہر انتخابات کی طرح کنفیوژڈ ہوسکتے ہیں کہ کس کو ووٹ دیں کیونکہ میدان انتخابات میں ہر طرف پرانے پاپی ہی موجود ہوتے تھے لہٰذا ووٹ بہر حال اشرافیہ ہی کو جاتا تھا۔ اس بار عوام کے سامنے چوائس ہے ایک ایسا متبادل ہے جو کچھ اور کرے نہ کرے 70 سالہ اسٹیٹس کو کو بہر حال توڑسکتا ہے۔ چار چار، پانچ پانچ بار اقتدار میں آکر عوام کو دھول چٹانے والے اربوں روپوں کے سرمائے سے ہر روز کروڑوں کے خرچ سے بڑے بڑے جلسے کرکے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں لیکن ایسا نہیں ہے اس بار عوام یقینی طور پر اسٹیٹس کو توڑیںگے اور ایک مثبت راستے پر چل کر اشرافیہ کی سازشوں کو ناکام بنادیںگے۔

مقبول خبریں