ہم شرمندہ ہیں

زاہدہ حنا  بدھ 6 جون 2018
zahedahina@gmail.com

[email protected]

بنگالیوں کے سیاسی اور سماجی شعور کی میں ہمیشہ سے قائل رہی ہوں، شاید اس لیے کہ میں نے کم عمری سے بنگال کے بارے میں بہت کچھ سنا، پھر ان کی لکھی ہوئی کہانیاں پڑھیں۔ کلپنا بردھان نے بنگلہ کہانیوں کا ایک مجموعہ مرتب کیا، جس میں رابندر ناتھ ٹیگور، مہاشویتوا ادیوی، حسن عزیزالحق، تارا شنکر اور مانک باندیو پادھیائے کی کہانیاں ہیں۔یہ کہانیاں اردو میں مسعود اشعر نے ترجمہ کیں۔ ’عورتیں اور دھتکارے ہوئے لوگ‘  کے نام سے یہ کہانیاں شایع ہوئیں۔ دل کے ٹکڑے کرنے اور رگوں میں خون سرد کردینے والی کہانیاں۔ ایسی ہی ایک کہانی چالیس برس بعد ہمارے یہاںگردش کر رہی ہے۔ یہ جھرنا باسک کی کہانی ہے۔

اس جھرنا کی جو پاکستانی فلم اسکرین پر شبنم کے نام سے نمودار ہوئی اور اپنی معصومیت اور بے ساختہ اداکاری سے دیکھنے والوں کے دل جیت لے گئی۔ اس وقت کیسی بھولی بسری باتیں یاد آرہی ہیں۔ جھرنا، شبنم بنی اور اس نے ہمیں چندا، تلاش، سمندر، آخری اسٹیشن، عندلیب اور ’آئینہ‘ ایسی فلمیں دیں، یہ وہ فلمیں تھیں جنھوں نے شبنم کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا۔ انھوں نے ڈیڑھ سو سے زیادہ اردو فلموں میں کام کیا۔ چند پنجابی فلموں میں بھی وہ اسکرین پر آئیں۔ ان کے ساتھی اداکاروں اور اداکاراؤں کے دل میں ان کا احترام تھا اور ان کے چاہنے والے انھیں سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ وہ مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئیں، وہیں پلی بڑھیں، ان کا خاندان وہیں رہتا تھا۔

1970 اور 1971 کے درمیان وہاں رہنے والوں کے سر سے خون کے دریا گزر گئے۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ شبنم اور ان کے شوہر روبن گھوش اپنی جنم بھومی کا رخ کریں گے لیکن ان دونوں نے پاکستان سے اپنا ناتا نہیں توڑا۔ شبنم کے بوڑھے اور بیمار ماں باپ بنگلہ دیش میں تھے، وہ ان سے ملنے کے لیے جانا چاہتی تھیں، لیکن بنگلہ دیش کا ویزا ملنا، ان کے لیے ہفت خواں سر کرنے کے برابر تھا۔ ان دنوں شبنم اور روبن گھوش، اپنے بیٹے رونی گھوش کے ساتھ لاہور میں رہتے تھے۔ فروری 1978 میں خبر آئی کہ ان کے گھر ڈاکا پڑا ہے۔ ان کے فلمی ساتھی اور ان کے مداح، سب ہی صدمے کی حالت میں تھے۔ شبنم اور روبن نے بنگلہ دیش بن جانے کے باوجود پاکستان کی شہریت نہیں ترک کی تھی۔ اس تناظر میں لوگ اس جوڑے کے احسان مند تھے، ایسے میں یہ ڈکیتی ان کے لیے دکھ کا سبب تھی۔ لوگوں کو اس کا وہم وگمان بھی نہ تھا کہ اس ’ڈکیتی‘ کے پردے میں دراصل کیسا اندوہ ناک واقعہ ہوا ہے۔ شبنم بنگالی تھیں اور اپنے اندر یہ حوصلہ رکھتی تھیں کہ خود پر گزرنے والے ستم کے بارے میں پرچا کٹوا سکیں۔

پرچا کٹا تو ڈکیتی اس کی ضمنی شق تھی۔ اصل واقعہ تو یہ تھا کہ 4 بگڑے دل رئیس زادوں نے اسلحے کے زور پر روبن گھوش اور رونی گھوش کو رسیوں سے باندھ کر ایک طرف ڈالا اور اس کے بعد ملک کی صفِ اول کی اداکارہ کی اجتماعی بے حرمتی کی اور پھر قہقہے لگاتے ہوئے چلے گئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے فارغ التحصیل شہزادے، ان میں سے ایک کسی اعلیٰ بیوروکریٹ کا سگا بھانجا تھا۔ ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ان کی اس فتح کا پرچا کٹے گا۔ اس سے پہلے لاہور کی کئی اور اداکاراؤں کے ساتھ یہی کچھ ہوا تھا لیکن انھوں نے خاموش رہنے میں عافیت جانی تھی۔ انھیں یقین تھا کہ اتنے بااثر افراد کے بیٹوں، بھانجوں اور بھتیجوں کے خلاف کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ وہ پرچا کاٹے۔

شبنم کے ساتھ ہونے والے ظلم کی خبر جب تھانے سے ہوتی ہوئی لاہور کے نگارخانوں تک پہنچی تو جیسے زلزلہ آگیا۔ ان کے مداحوں کے یہاں صف ماتم بچھ گئی۔ وہ بدھسٹ اداکارہ جو پیدایشی بنگالی تھی، جس نے بنگلہ دیش کا رخ نہیں کیا تھا، جو خوشامدیں کرکے اپنی جنم بھومی کا ویزا لیتی تھی کہ اپنے بیمار والدین کی چند ہفتوں کے لیے خدمت کر آئے، اس کی توہین لوگوں کے نزدیک ان کی اپنی توہین تھی۔ اتنا شور مچا کہ جنرل ضیاء الحق نے اس مقدمے میں ذاتی دلچسپی لی، اسپیشل ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلا اور ارتکاب جرم کرنے والے چاروں مجرموں کو سزائے موت سنادی گئی۔

اس موقعے پر ملک کے نہایت معزز قانون دان بیرسٹر ایس ایم ظفر نے فوجی حکمران سے درخواست کی کہ وہ سزائے موت کو عمرقید سے بدل دیں۔ ان کی منطق یہ تھی کہ چاروںافراد معزز گھرانوں کے بیٹے ہیں۔ شریف خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے انھیں سدھرنے کا موقع دیا جائے۔ جنرل ضیاء نے یہ منطق قبول کی اور وہ چاروں پھانسی گھاٹ کے بجائے جیل بھیج دیے گئے۔ اس دوران شبنم اور روبن بدترین ذہنی اذیتوں سے گزرے۔ دھمکی دی گئی کہ اکلوتا بیٹا رونی قتل کردیا جائے گا لیکن شبنم اور روبن نے پسپائی اختیار نہیں کی۔ فلم انڈسٹری کی اکثریت شبنم کی پشت پر تھی۔

اس مقدمے کی روداد بیان کرتے ہوئے ہمارے نوجوان صحافی طاہر سرور میر نے لکھا ہے کہ ایک اخبار نے شبنم کی عدالتی پیشی کا آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کیا کہ ’’شبنم فیروزی رنگ کی پھولدار ساڑی میں ملبوس اور سفید چادر اوڑھے ہوئی تھیں، وہ اگرچہ اداس دکھائی دے رہی تھیں لیکن جاذب نظر اور پُروقار لگ رہی تھیں، عدالت کے باہر اپنی پسندیدہ اداکارہ سے اظہار یکجہتی کرنے والوں کا ہجوم تھا۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ ملزمان کو پہچانتی ہیں؟ سوال سن کر کٹہرے میں کھڑی شبنم نے سر جھکا لیا اور اس کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے، اگرچہ اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی، لیکن عدالت میں پھیلی خاموشی میں سب اس کی سسکیاں سن رہے تھے، اس بار عدالت نے سخت لہجے میں کہا اپنے آپ کو سنبھالیں، یہاں آپ کو قانون کے مطابق شہادت دینی ہے۔‘‘

ہمیں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی امینہ سید کا شکر گزار ہونا چاہیے جنھوں نے 2017 کے آکسفورڈ لٹریری فیسٹیول میں ان کی میزبانی کی۔ کراچی ائیرپورٹ پر فروری 2017 کی وہ تصویر ہے جس میں شبنم، امینہ سیدکے ساتھ کھڑی مسکرا رہی ہیں اور ان کے بالوں میں لگے ہوئے سفید پھولوں کی خوشبو ہم تک آرہی ہے۔ 2017 کے اس فیسٹیول میں کراچی والوں نے جس طرح ان کی پذیرائی کی، وہ دیدنی تھی۔ اس محفل میں ان سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ ان کی آنکھوں میں ہلکی سی سرخی کے ساتھ ہی نمی رہتی تھی اور وہ مسکراتی بھی رہتی تھیں۔ ان سے اپنی دو ملاقاتوں کا ذکر ہماری صف اول کی لیکھک نورالہدیٰ شاہ نے اس طرح کیا ہے کہ دل خراش واقعے کے بعد اور پاکستان چھوڑنے سے کچھ پہلے شبنم سے ایک محفل میں ملاقات ہوئی۔ وہ جتنی دیر بیٹھی رہی آنکھوں میں آنسو اُمڈے آرہے تھے، کہنے لگی میرے بیٹے کو نوکری دینے سے انکار کردیا گیا ہے کہ تم بنگلہ دیشی ہو۔

میں بنگلہ دیشی صرف اس لیے ہوں کہ اپنی بیمار ماں کو دیکھنے ڈھاکا جاتی ہوں۔ میں نے عمر یہاں ضایع کردی، دو سال پہلے جب شبنم پاکستان آئی اور چند گھنٹے ہم مل بیٹھے تو میں نے وہ ملاقات یاد دلائی۔ ایک دم سے نم آنکھوں کے ساتھ اس نے انکار میں یوں سر ہلا دیا جیسے کہتی ہو کہ اس موضوع پر بات مت کرو چپ رہو، حالانکہ میں صرف یہ کہنا چاہتی تھی کہ اب بہت سوں کو لگتا ہے کہ انھوں نے عمر ضایع کردی، مگر تمہیں مبارک ہوکہ تم اپنے آزاد ملک میں ہو۔ اس نے ان درندوں کو شاید اس لیے معاف کردیا تھا کہ وہ اپنے نوجوان اکلوتے اور ذہین بیٹے کے ساتھ اس ملک میں سکون سے رہ سکے، جو امریکا سے پی ایچ ڈی کر کے آیا تھا، مگر حکومت پاکستان نے اس کربناک واقعے کے بدلے معافی نہ دی اور اسے بنگلہ دیشی قرار دے کر روانہ کردیا۔

’آدھی گواہی‘ کی ہماری شاعرہ نسیم سید نے بھی اس اندوہ ناک واقعے پر اپنے دلی جذبات کا کھل کر اظہار کیا اور ڈاکٹر فوزیہ نے بھی خوب خوب لکھا۔ سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے والوں کا سیلاب اُمڈ آیا۔ ان میں دو چار ایسے بھی تھے جو شبنم کو غدار کہہ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ غدار نہ ہوتی تو پاکستان سے بنگلہ دیش کیوں جاتی اور یہ واقعہ بیان کرکے ہماری رسوائی کا سبب کیوں بنتی۔ واقعی ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے۔

سوشل میڈیا خوش رہے جس نے اپنی قوت کا مظاہرہ کیا اور یہ دکھادیا کہ گھروں میں اپنے کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھ کر بھی مزاحمت کی جاسکتی ہے۔ یہ ہماری تمام سیاسی پارٹیوں کے لیے بھی سبق ہے کہ وہ انتخابات سے ذرا پہلے دوسری پارٹیوں سے آنے والوں کو آندھی کا آم سمجھ کر اپنے دامن میں نہ سمیٹیں۔ شبنم کے ساتھ جو ظلم ہوا، اس پر ہم جس قدر بھی مذمت کا اظہار کریں وہ کم ہے، لیکن ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہم ’’مظلوم‘‘ کو کب تک خاموش رہنے کا سبق سکھائیں گے؟ یہ خاموشی ظالموں کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے۔ اس وقت مجھے اپنی وہ مرحوم اداکارہ یاد آرہی ہے جو بندوق کی نوک پر اٹھائی گئی تھی شہنشاہ ایران اور جنرل ایوب خان کا دل بہلانے کے لیے اور واپسی پر جس نے خودکشی کی کوشش کی تھی۔ کاش سوشل میڈیا اس دور میں بھی ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔