تحریک انصاف بمقابلہ تحریک انصاف

احتشام بشیر  ہفتہ 16 جون 2018
سیاسی حلقوں میں یہی بات چل رہی ہے کہ تحریک انصاف کو تحریک انصاف ہی شکست دے سکتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سیاسی حلقوں میں یہی بات چل رہی ہے کہ تحریک انصاف کو تحریک انصاف ہی شکست دے سکتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تحریک انصاف اس وقت ایک سیاسی قوت بن کر سامنے آگئی ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی کے بعد مسلم لیگ ن کا مقابلہ کرنے والی کوئی سیاسی جماعت ہے تو وہ تحریک انصاف ہے۔ سندھ کی بات کی جائے تو وہاں بھی پیپلز پارٹی کے مقابلے میں تحریک انصاف سامنے آگئی ہے۔ خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کے بعد ظاہری بات ہے کہ پی ٹی آئی صف اول میں شامل ہوگئی ہے لیکن بلوچستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں۔ چاروں صوبوں کی سیاسی صورتحال دیکھتے ہوئے آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آرہی ہے اور تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باعث وہ سیاست دان جو اپنے سیاسی ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں، اب تحریک انصاف میں جگہ بنارہے ہیں۔ 2013 کے الیکشن میں تحریک انصاف کے سونامی جلسوں کو دیکھتے ہوئے سیاسی حلقوں میں یہ پیش گوئیاں کی جارہی تھیں کہ پی ٹی آئی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجائے گی اور سیاسی تجزیہ کاروں نے اس وقت پی ٹی آئی حکومت کی کابینہ کو بھی حتمی شکل دیدی تھی۔

اس وقت کے تجزیئے اب بھی کیے جارہے ہیں اور سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی پوری کابینہ تشکیل دیدی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر عمران خان کو وزیراعظم، اسد عمر کو فنانس منسٹر، فواد چوہدری کو اطلاعات، شفقت محمود کو دفاع، مراد سعید کو آئی ٹی، فیصل جاوید کو انرجی اور پرویز خٹک کو تجارت کے قلم دان تک سونپ دیئے گئے ہیں۔ اور تو اور شاہ محمود قریشی کو پنجاب، اسد قیصر کو خیبرپختونخوا کا وزیراعلی بھی چن لیا گیا ہے اور ایک لمبی بحث اس موضوع پر جاری ہے۔ لیکن اس وقت تحریک انصاف کو بڑا چیلنج ٹکٹوں کی تقسیم کا ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد بڑے باغی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔

تحریک انصاف کی مقبولیت کو دیکھتے ہیں ہواؤں کا رخ دیکھنے والے سیاستدانوں نے تحریک انصاف میں شمولیت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ماضی کی طرح اس بار بھی تاریخ کو دوہرایا جارہا ہے۔ مسلم لیگ ن حکومت کی کشتی کے سوار ایک ایک کرکے جانے لگے، جانے والوں کی اکثریت نے تحریک انصاف کو اپنا اگلا ٹھکانہ بنایا۔ خیبرپختونخوا میں بھی کئی لوگ پیپلزپارٹی، اے این پی اور دوسری پارٹیوں کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہونے لگے۔

1999ء میں جب پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا خاتمہ کیا تو ن لیگ کو توڑنے کےلیے ہم خیال مسلم لیگ اور پھر ق لیگ تشکیل دی گئی تو اس وقت بھی سیاسی پنچھیوں نے اپنا ٹھکانہ بدل کر ق لیگ کو اپنا مسکن بنالیا۔ ٹکٹوں کے مفاد میں بہت سے سیاسی پنچھی اب ن لیگ سے پی ٹی آئی میں شامل ہورہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی سے ٹکٹ ملا تو ایم پی اے یا ایم این اے تو بن ہی جائیں گے۔

دوسری سیاسی جماعتوں سے پی ٹی آئی ميں شمولیت کا سلسلہ دھڑادھڑ جاری رہا اور ٹکٹوں کی تقسیم سے قبل اس خدشے کا اظہارکیا جارہا تھا کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ پی ٹی آئی کا پرانا ورکر اسی خوش فہمی میں رہا کہ ٹکٹ تو اسے ہی ملے گا، ٹکٹ کے حصول کے لیے تعلقات کو بھی استعمال کیا گیا سفارشی پرچی بھی چلی لیکن ہوا وہی جو عمران خان کو قائل کرگیا۔

خیبرپختونخوا میں ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے امیدواروں کی فہرست آنے کے بعد نئے اور پرانے ساتھیوں کےلیے حیرانی ضروری تھی۔ گزشتہ الیکشن میں قومی اسمبلی کی چاروں نشستوں پر پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کی لیکن این اے ون، جس پر عمران خان نے کامیابی حاصل کر کے بعد میں سیٹ چھوڑ دی تھی، اس پر ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔ اس بار پشاور میں قومی اسمبلی کی چاروں نشستوں پر پی ٹی آئی نئے امیدواروں کو سامنے لے کر آئی ہے اور چاروں امیدوار دوسری پارٹیاں چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں۔ این اے 27 پر پیپلز پارٹی سے شامل ہونے والے نور عالم، این اے 28 پر اے این پی چھوڑ کر آنے والے ارباب عامر ایوب کو اور این اے 31 کا ٹکٹ پیپلز پارٹی سے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے شوکت علی کو دیا گیا ہے۔

باقی حلقوں میں بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے پرانے ورکرز پیراشوٹ سے آنے والوں کو ٹکٹ دینے پر خفگی کا اظہار کررہے ہیں۔ کئی حلقوں پر پی ٹی آئی کے پرانے ورکرز آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔

ٹکٹوں کی تقسیم کےلیے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سربراہی میں بننے والے پارلیمانی بورڈ میں ٹکٹ اسی کو ملا جس پر متعلقہ صوبے کے ممبران عمران خان کو قائل کرگئے۔

سابق وزیراعلی پرویزخٹک سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر مانے جاتے ہیں اور انہوں نے پہلے سے ہی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے کام شروع کردیا تھا۔ اپنی ٹیم بنانے کے لیے انہوں نے دوسری پارٹیوں سے ایسے لوگوں کو چنا جو اپنی سیٹ جیتنے اور جیتنے کےلیے پیسے لگانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ چونکہ عمران خان کی سربراہی میں پارلیمانی بورڈ کی جانب سے کسی کو ٹکٹ ملنے کا انحصار عمران خان کے قائل ہونے پر تھا، اور اپنے لوگوں کو ٹکٹ دلانے کےلیے پرویزخٹک پوری تیاری کے ساتھ گئے تھے اس لیے وہ کامیاب ٹھہرے۔

مگر ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد اب اس کے اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں جس پر عمران خان نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم سے وہ 90 فیصد مطمئن ہیں، باقی دس فیصد پر وہ نظرثانی کررہے ہیں اور اس سلسلے میں وہ دو روز میں نظر ثانی کےلیے اجلاس بلارہے ہیں۔ لیکن اب وقت گزر گیا ہے اور جہاں سے پی ٹی آئی کے ورکرز آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے وہاں کسی حد تک پی ٹی آئی کا ووٹ تقسیم ہوگا۔

پی ٹی آئی پر جہاں پیرا شوٹ سے آنے والوں کو ٹکٹ دینے کے الزامات لگ رہے ہیں وہیں نوجوانوں کو نظرانداز بھی کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے امیدواروں کی جو فہرست جاری کی گئی اس میں نوجوان اِکا دُکا ہی نظر آرہے ہیں۔ ٹکٹ لینے والوں میں زیادہ تعداد پچاس سال سے زیادہ عمر والوں کی ہے۔ خیبرپختونخوا میں بہت ہی کم ایسے امیدوار ہیں جو چالیس سے 45 سال کے ہیں۔ بہت سے ایسے نوجوان ٹکٹ کے حصول میں رہ گئے ہیں جنہیں ٹکٹ دینے کے وعدے کیے گئے تھے لیکن انہیں ٹکٹ نہ مل سکے۔

آنے والے الیکشن میں اگر پی ٹی آئی کو نقصان پہنچے گا تو وہ کسی اور سے نہیں بلکہ اپنے ہی ٹھکرائے گئے ورکرز سے ہوسکتا ہے۔ اسی لیے سیاسی حلقوں میں یہی بات چل رہی ہے کہ تحریک انصاف کو تحریک انصاف ہی شکست دے سکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔