اہل سیاست مزدور اور کسان

مزدور ہماری صنعتی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن وہ صنعتی غلاموں کی حیثیت سے زندہ رہتا ہے۔


Zaheer Akhter Bedari June 19, 2018
[email protected]

ویسے تو پاکستان میں قیام پاکستان کے ساتھ ہی مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کی جد وجہد شروع ہوچکی تھی۔ سندھ میں حیدر بخش جتوئی، پنجاب میں چوہدری فتح محمد اور سی او اسلم کسانوں کے لیے جد وجہد کرتے رہے۔ اس حوالے سے کسان کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا رہا جب کہ خیبر پختونخوا میں میجر اسحاق کی تحریک کسانوں کی تحریک میں ایک نمایاں باب کی حیثیت رکھتی ہے۔

2005 میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقد ہونے والی کسان کانفرنس کسانوں کی جد وجہد میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے، اس کے بعد اگرچہ کسانوں کے حوالے سے مختلف کوششیں ہوتی رہیں لیکن سیاسی سطح پر مرحوم ذوالفقارعلی بھٹو نے مزدور کسان راج کا مطالبہ کرکے مزدوروں،کسانوں کی اہمیت اجاگرکی تھی لیکن یہ ایک سیاسی نعرہ تھا، کوئی سنجیدہ بات نہ تھی لیکن اس نعرے کی وجہ سے یہ حقیقت نمایاں ہوئی کہ ملک میں دو طبقات مزدور اور کسان ایسے ہیں جن کو نظر انداز کیا جاتا رہا۔

آج مزدوروں خاص طور پر کسانوں کی بات اس لیے کی جارہی ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما کسانوں کی بات مسلسل کررہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما بلاول بھٹو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کسان جب تک معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوگا اس کے مسائل حل نہیں ہوںگے۔ دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی کسانوں کے مسائل کا ذکر کرنا شروع کردیا ہے۔ایم ایم اے نے اپنے منشور میں کسانوں کے مسائل کو شامل کیا ہے یہ ایک نیا ٹرینڈ ہے۔

اسے اتفاق کہیے یا حسن اتفاق کہ کسانوں کے مسائل پر ہم نے لگاتارکئی کالم لکھے حالانکہ اس سے قبل ہم تسلسل کے ساتھ زرعی اصلاحات کے لیے لکھتے رہے لیکن پچھلے دنوں ہم نے مزدوروں، کسانوں کے حوالے سے قانون ساز اداروں میں طبقاتی نمائندگی کے مطالبے کو بار بار زیر بحث لایا اس کے بعد ہی ہمارے سیاست دانوں کو کسانوں کا خیال آیا اور اپنی تقاریر میں اس کا ذکر ہونے لگا اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی آبادی کے اس بڑے حصے کو سیاسی طور پر ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا اگر ان طبقات کا کبھی ذکر ہوا تو محض سیاسی ضرورتوں اور سیاسی مفادات کے لیے ہوتا رہا کسی سیاسی رہنما نے سنجیدگی سے کسانوں اور مزدوروں کو زیر بحث لانے کی کوشش نہیں کی۔

ہمارے سیاست دانوں کی طرف سے جمہوریت کی بات اگرچہ قدم قدم پر اس زور کی جاتی ہے کہ کانوں کے پردے متاثر ہوجاتے ہیں لیکن جمہوری قدروں کو ہمیشہ پاؤں تلے روندا جاتا رہا ہے یہ بات ہم نے بارہا کہی ہے کہ مزدوروں کی تعداد ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ بتائی جاتی ہے اور کسان ہماری دیہی آبادی کا لگ بھگ 60 فی صد حصہ ہیں۔ ہماری جمہوریت کی عمارت کو اکثریت کی بنیادوں پر کھڑا کیا گیا ہے۔ اس ڈرامے کا پردہ اس وقت فاش ہوجاتا ہے جب ساڑھے چھ کروڑ مزدوروں اور دیہی آبادی کے 60 فی صد حصے کسانوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے کیا جمہوریت میں اکثریت کے ساتھ یہ سلوک جمہوریت کی توہین نہیں؟

دنیا بھر میں جاگیردارانہ نظام ختم ہوگیا لیکن پاکستان واحد ملک ہے جہاں ابھی تک جاگیردارانہ نظام باقی ہے اور وڈیرے اور جاگیردار کسانوں اور ہاریوں کے بادشاہ بنے بیٹھے ہیں کسی کسان یا ہاری کی یہ ہمت نہیں کہ وہ وڈیرے کے سامنے سر اٹھاکر اور آنکھیں ملاکر بات کر سکیں۔ آپ یقین کریںگے کہ اگر کسی ہاری یا کسان کو وڈیروں کی بارگاہ میں حاضری کا موقع ملتا ہے تواسے اوطاق کے دروازے پر ہی جوتے اتارنا پڑتا ہے اور جب وہ وڈیرے کی خدمت میں باریابی کی سعادت حاصل کرتا ہے تو اسے الٹے پاؤں واپس جانا پڑتا ہے۔ وڈیروں کے ہاریوں کسانوں پر کیے جانے والے مظالم میڈیا میں بھی رپورٹ ہوتے ہیں اس حوالے سے کسانوں، ہاریوں کی بیویوں، بیٹیوں کے برہنہ جلوس نکالنا ایک عام بات رہی ہے۔

مزدور ہماری صنعتی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن وہ صنعتی غلاموں کی حیثیت سے زندہ رہتا ہے۔ مزدوروں کو ایک طویل جد وجہد اور قربانیوں کے بعد کچھ قانونی حقوق دیے گئے جن میں انجمن سازی سودے کاری اور ہڑتال کا حق شامل ہیں لیکن اس حوالے سے مزدوروں کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ اگر کوئی مزدور ٹریڈ یونین کا رکن بننے کی کوشش کرتا ہے تو اسے کان پکڑ کر گیٹ کے باہر کردیا جاتا ہے ایسے ماحول میں سوائے چند مخصوص یونینوں کے کسی یونین کی یہ ہمت نہیں کہ وہ سودے کاری کے حق کا مطالبہ کرے۔

مزدور ہماری صنعتی معیشت میں محور کا کام کرتا ہے۔ صبح سے شام تک انتھک کام کرکے ملک کی گاڑی کو چلانے والے مزدورکی معاشرے میں اہمیت اور عزت کیا ہے یہی سرمایہ دارانہ نظام کی فطرت ہے کہ اس نظام میں دن رات محنت کرنے والا ذلیل و خوار رہتا ہے اور ہاتھ پیر ہلائے بغیر حرام خوری کرنے والا بادشاہ بنا رہتا ہے۔ سب سے پہلے مزدورکی عزت و وقار کا تعین ہونا چاہیے اور اس حوالے سے محنت کرنے والے اور حرام خوری کرنے والے میں فرق کا تعین ہونا چاہیے۔ صنعت کار اور سرمایہ دارا کا اپر ہینڈ اور بالادستی کی بنیادی وجہ سرمایہ ہے اور سرمایہ موروثی بھی ہوتا ہے اور بینکوں سے قرض کی شکل میں بھی حاصل کیا جاتا ہے، بینکوں سے قرض کی شکل میں حاصل کیے جانے والے سرمائے کو کس طرح ہڑپ کرلیا جاتا ہے اس کا مشاہدہ آج پوری قوم کررہی ہے۔

اخباری خبر کے مطابق 222 کمپنیوں کے 54ارب کے قرضے غیر قانونی طور پر معاف کرائے، اس حوالے سے چیف جسٹس نے نوٹس دے دیا ہے کہ اگر ایک ہفتے میں قرض کلی معافی کے حوالے سے تفصیلی جواب جمع نہ کرایا گیا تو یکطرفہ فیصلہ کردیا جائے گا یہ ہے ان صنعت کاروں کے کارنامے۔ جو لاکھوں مزدوروں کی قسمت کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ اصل مسئلہ محض اجرتوں میں اضافے کا نہیں بلکہ صنعتی پیداوار میں فریقین کی کارکردگی کا ہے، یہی صورتحال کسان اور وڈیرے کے مالک وڈیرے اور جاگیردار بادشاہ بنے بیٹھے ہیں اور کسان اور ہاری غلام بنے ہوئے ہیں، کیا سیاستدان اس ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھائیں گے؟

مقبول خبریں