ہم ووٹ کس کو دیں
ہمارے ملک میں بجلی کی کمی اور لوڈشیڈنگ کا مسئلہ عشروں سے چل رہا ہے
انتخابات میں اب ایک مہینے سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے، عوام سخت کنفیوژن کا شکار ہیں کہ کس کو ووٹ دیں، کیونکہ ہماری سیاست منشور اور پارٹی پروگرام کے بجائے الزام اور جوابی الزام پر چل رہی ہے اور الزامات بھی اخلاق سے گرے ہوئے۔ میرے پاس پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا سے ہمارے قارئین کے فون آرہے ہیں، قارئین کالم پوچھ رہے ہیں کہ ہم ووٹ کس کو دیں؟ یہ بڑا مشکل سوال ہے کیونکہ ہماری سیاست میں کوئی ایسا رہنما کوئی ایسی پارٹی موجود نہیں جو قومی مسائل کا ادراک رکھتی ہو، بین الاقوامی سیاست کے نشیب و فراز کو سمجھتی ہو، عوام کے مسائل سے جانکاری رکھتی ہو اور انھیں حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہو، ایسی صورتحال میں کوئی کسی کو کیا مشورہ دے سکتا ہے، لیکن کچھ حقائق ایسے ہیں جن کو پیش نظر رکھا جائے تو شاید فیصلے کرنے میں آسانی ہو۔
اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں کون کون سی پارٹیاں برسر اقتدار آئیں اور کتنی بار آئیں، اپنے دور حکومت میں ان برسر اقتدار آنے والی پارٹیوں نے عوام کے کون سے مسئلے حل کیے، ایک بڑا مسئلہ جو ہمارے عوام کا اجتماعی مسئلہ ہے وہ ہے غربت۔ سوال یہ ہے کہ اس قومی مسئلے کو حل کرنے میں برسر اقتدار آنے والی پارٹیوں نے کیا کیا۔ غربت کے علاوہ ملک میں بے روزگاری ہے، مہنگائی ہے، یہ دونوں مسئلے ایسے ہیں جنھیں سیاسی پارٹیوں کے ایجنڈے میں سرفہرست ہونا چاہیے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مسائل ہماری سیاسی پارٹیوں کے ایجنڈے اور منشور کا حصہ ہی نہیں ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ یہ کوئی زیادہ پیچیدہ سوال نہیں 70 سال سے جو لوگ حکمرانی کر رہے ہیں ان کا تعلق اشرافیہ سے ہے اور اشرافیہ کے ایجنڈے میں کبھی عوامی مسائل شامل رہتے ہی نہیں، کیونکہ ان کا واحد ایجنڈا کم سے کم مدت میں زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنا ہوتا ہے۔ اگر حکمران طبقہ عوام سے مخلص ہو تو عوامی مسائل کا حل کوئی مشکل بات نہیں۔ آج ہر لیڈر ہمیشہ کی طرح عوام کو سبز باغ دکھا رہا ہے، لیکن سبز باغ دکھانے والے اور سبز باغ دیکھنے والے دونوں جانتے ہیں کہ سبز باغ سبز باغ یعنی دھوکا اور فریب ہوتے ہیں، ان پر عمل کرنے کا اشرافیہ سوچ بھی نہیں سکتی، کیونکہ لوٹ مار اور عوامی مسائل کا حل ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
ہمارے ملک میں بجلی کی کمی اور لوڈشیڈنگ کا مسئلہ عشروں سے چل رہا ہے۔ 1988 سے ملک پر دو ہی سیاسی جماعتیں حکومت کر رہی ہیں، ایک مسلم لیگ(ن) ہے دوسری پیپلز پارٹی۔ درمیان میں غیر جمہوری حکومت کے دس سال رہے ہیں جن میں عوامی مسائل حل ہوتے رہے ہیں۔ بلاشبہ جمہوریت اور غیر جمہوری حکومت دو متضاد حکومتیں ہیں اور ملک کے عوام اور خواص دونوں غیر جمہوری حکومتوں کو پسند نہیں کرتے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے ملک میں غیر جمہوری حکومتیں رہی ہیں، یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی غیر جمہوری حکومت ایسی رہی ہے جس میں سیاستدان شامل نہ رہے ہوں اور وزارتوں پر فائز نہ رہے ہوں، اگر صورتحال یہی ہے تو غیر جمہوری حکومتیں کہاں رہیں؟
ہم نے ایک اہم عوامی مسئلے کا ذکر کیا تھا، بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر موجودہ حکومت یہ احمقانہ بہانہ پیش کرتی ہے کہ یہ مسئلہ ہمیں وراثت میں ملا ہے اور اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ دو ہی جماعتیں جب برسر اقتدار رہی ہیں تو ان میں سے کوئی جماعت بھی وراثت کا ذکر کرتی ہے تو یہ ایک کھلی دھوکا بازی ہے۔ کیا ان دونوں جماعتوں کے علاوہ کوئی اور سیاسی جماعت مرکز میں برسر اقتدار رہی ہے اور ملک کے مسائل حل کرنے کی ذمے داری ہر جگہ مرکزی حکومت ہی پر عائد ہوتی ہے، اس کھلی حقیقت کے پیش نظر یہ کہنا کہ کوئی مسئلہ وراثت میں ملا ہے کھلی بددیانتی ہے، اس حوالے سے اصل بات یہ ہے کہ عوامی مسائل حل کرنے سے حکومتوں کو کبھی دلچسپی رہی ہی نہیں۔
مجھے لکھتے ہوئے اب لگ بھگ 45 سال ہو رہے ہیں، ایکسپریس میں بھی لکھتے ہوئے پندرہ سال ہو رہے ہیں، مجھے فخر ہے کہ اس طویل عرصے میں آپ کو ایک کالم بھی ایسا نہیں ملے گا خواہ وہ قومی مسائل پر لکھا گیا ہو یا عالمی مسائل جس میں عوامی مسائل اور اس فراڈ اشرافیائی حکومت کا پوسٹ مارٹم نہ کیا گیا ہو، یہ میرا کسی پر احسان نہیں بلکہ نظریاتی ذمے داری ہے لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ اب تک اشرافیائی جمہوریت کی جگہ عوامی جمہوریت نہ آسکی۔ عوامی جمہوریت آسمان سے نہیں ٹپکتی، عوام ہی کی کوششوں سے آتی ہے، لیکن اشرافیہ اس قدر مضبوط اور عوامی شعور اس قدر کند ہے کہ عوام اشرافیائی حکومت سے جان نہ چھڑا سکے۔
دنیا بھر کی جمہوری حکومتوں میں تعلیم اور علاج مفت ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں یہ دونوں بنیادی ضرورتیں عوام کی پہنچ سے دور ہیں بلکہ مڈل کلاس بھی ان دو سہولتوں سے محروم ہیں، پرائیویٹ اسپتال دراصل ایک منافع بخش صنعت بن گئے ہیں، عوام کے مسائل حل کرنے کی دعویدار حکومتوں نے کیا ان دو بنیادی ضرورتوں کو پورا کیا ہے؟ اس بددیانتی کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اہل سیاست کی اولین ترجیح کم سے کم عرصے میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانا ہے آج میڈیا عوامی نمایندوں کی ملکیتیں نقد اور اربوں کھربوں کے اثاثوں کی تفصیل سے بھرا ہوا ہے۔ کیا اربوں کھربوں کے مالک عوام کے مسائل حل کرسکتے ہیں؟ عوام پوچھتے ہیں کہ ہم ووٹ کس کو دیں؟ ہمارے پاس اور تو کوئی آپشن نہیں، عوام ان جماعتوں کو ترجیح دیں جو اب تک اقتدار میں نہیں آئیں۔
قارئین کرام ایک عرصے سے ہماری صحت خراب ہے، ایک ساتھ کئی بیماریوں نے ہمیں دبوچ لیا ہے، ہماری اشرافیہ نزلہ زکام کے علاج کے لیے مغربی ملکوں کے اسپتالوں میں جاتی ہے اور عوام تو بے چارے کیا کریں، مڈل کلاس کے معروف لوگ بھی اس شہر کے پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج نہیں کراسکتے، ہم بھی آج اسی صورتحال سے دوچار ہیں اور یہ ہمارے نظام میں کوئی انہونی بات نہیں، بہرحال ہماری قارئین سے اور عوام سے درخواست ہے کہ وہ دعا کریں ہماری مشکلات حل ہوجائیں، بیماریوں سے نجات ملے۔