- امریکا نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کی قرارداد ویٹو کردی
- وزیراعظم کا اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے ملک گیر مہم تیز کرنے کا حکم
- جی-7 وزرائے خارجہ کا اجلاس؛ غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ
- پنڈی اسٹیڈیم میں بارش؛ بھارت نے چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی پر سوال اٹھادیا
- اس سال ہم بھی حج کی نگرانی کرینگے شکایت ملی تو حکام کو نہیں چھوڑیں گے، اسلام آباد ہائیکورٹ
- بشریٰ بی بی کو کھانے میں ٹائلٹ کلینر ملا کر دیا گیا، عمران خان
- عمران خان اور بشریٰ بی بی کی درخواستیں منظور، طبی معائنہ کروانے کا حکم
- حملے میں کوئی نقصان نہیں ہوا، تمام ڈرونز مار گرائے؛ ایران
- 25 برس مکمل، علیم ڈار دنیائے کرکٹ کے پہلے امپائر بن گئے
- قومی اسمبلی: جمشید دستی اور اقبال خان کے ایوان میں داخلے پر پابندی
- کراچی میں غیرملکیوں کی گاڑی پر حملہ، خودکش بمبار کی شناخت
- مولانا فضل الرحمٰن کو احتجاج کرنا ہے تو کے پی میں کریں ، بلاول بھٹو زرداری
- کراٹے کمبیٹ 45؛ شاہ زیب رند نے ’’بھارتی کپتان‘‘ کو تھپڑ دے مارا
- بلوچستان کابینہ کے 14 وزراء نے حلف اٹھا لیا
- کینیا؛ ہیلی کاپٹر حادثے میں آرمی چیف سمیت 10 افسران ہلاک
- قومی و صوبائی اسمبلی کی 21 نشستوں کیلیے ضمنی انتخابات21 اپریل کو ہوں گے
- انٹرنیٹ بندش کا اتنا نقصان نہیں ہوتا مگر واویلا مچا دیا جاتا ہے، وزیر مملکت
- پی ٹی آئی کی لیاقت باغ میں جلسہ کی درخواست مسترد
- پشاور میں صحت کارڈ پر دوائیں نہ ملنے کا معاملہ؛ 15 ڈاکٹرز معطل
- پہلا ٹی20؛ عماد کو پلئینگ الیون میں کیوں شامل نہیں کیا؟ سابق کرکٹرز کی تنقید
لوہاری منڈی لاہور میں مسجد پٹولیاں
مسجد پٹولیاں لوہاری دروازے کے اندر لوہاری منڈی میں موجود ہے۔ اس مسجد کا درست سنِ تعمیر نہیں معلوم لیکن 1882 میں شائع شدہ کنہیا لال کی کتاب میں اتنا لکھا ہے کہ یہ مسجد ’’پہلے بھی کئی سو برس سے بنی ہوئی ہے۔ 1282ہجری میں میاں عمرو دین اوورسیر محکمہ ہارک ماسٹری نے بہت سا روپیہ صرف کرکے اپنے دادا کے نام پر اس کی تجدید کی۔‘‘
اس معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسجد کافی قدیم ہے اور 1865 میں اس کی دوبارہ تعمیر ہوئی۔ نقوش ’’لاہور نمبر‘‘ میں درج ہے کہ اس ’’مسجد کے درمیانی دروازے پر سنگ مرمر کی ایک سل نصب ہے جس پر اشعار لکھے ہوئے ہیں،‘‘ لیکن مجھے ایسی کوئی سل مسجد میں نظر نہیں آئی۔ البتہ مسجد کے داخلی دروازے پر ایک تختی موجود تھی جس پر 1903 لکھا ہوا تھا۔
میں جب مسجد پہنچا تو مسجد بند تھی۔ معلوم ہوا کہ نماز کے وقت مسجد کھلے گی۔ اتفاقاً وہاں پر مسجد کے امام صاحب کے صاحبزادے سے ملاقات ہوگئی۔ ان سے درخواست کی کہ مسجد دیکھنا چاہتا ہوں تو انہوں دروازہ کھول دیا۔ مسجد تو اب جدید طرز پر دوبارہ تعمیر کی گئی ہے۔ پرانی عمارت اب موجود نہیں۔
اس مسجد کی مغربی جانب مہاراجہ کھڑک سنگھ کا محل تھا۔ کھڑک سنگھ کی حویلی کے ایک طرف کونے میں مسجد تھی۔ کھڑک سنگھ نے اپنی حویلی کی عمارت میں خم ڈال لیا مگر مسجد کو نہ گرایا۔ جب تک زندہ رہا امام مسجد کےلیے دس روپے ماہوار اعزازیہ مقرر کیے رکھا۔ 1846 میں انگریزی فوج کو یہاں ٹھہرایا گیا۔ بعد ازاں انگریز سرکار نے اس حویلی کو گرا کر اینٹیں اور پتھر فروخت کر ڈالے۔
مسجد کے قریب تاریخی کوچہ محلے داراں ہے جس میں ایک قدیم عمارت کے آثار موجود ہیں۔ اہل محلہ سے میں نے بہت پوچھا مگر کسی کو اس عمارت کے متعلق کچھ علم نہیں تھا۔ البتہ لوگوں نے معروف لوگوں کے گھروں کی نشاندہی کی جو یہاں کسی زمانے میں رہائش پذیر تھے۔ حاجی امیر الدین المعروف عینکوں والے، غلام غوث، حکیموں کی حویلی اور حاجی عبدالسلام صاحب کا گھر کوچہ محلے داراں میں تھا۔ کوچہ محلے داراں میں بھی ایک مسجد موجود ہے۔
کوچہ محلے داراں پہلے کوچہ بیلی رام سے جا کر ملتا تھا مگر اب خاصے عرصے سے یہ راستہ بند ہے۔ کوچہ محلے داراں کے رہائشی بہت خوش اخلاق ہیں۔ میں نے جس سے بھی کچھ پوچھنا چاہا اس نے میری یوں رہنمائی کی جیسے کہ اس کا فرض ہو۔ اہل محلہ کے برتاؤ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں۔ یہاں کے لوگ اب بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔