فیفا ورلڈکپ؛ تنازعات کی کہانی

مرزا ظفر بیگ  اتوار 15 جولائی 2018
روس میں منعقد ہونے والا فٹبال کا میلہ تنازعوں اور الزامات کی زد میں رہا۔ فوٹو : فائل

روس میں منعقد ہونے والا فٹبال کا میلہ تنازعوں اور الزامات کی زد میں رہا۔ فوٹو : فائل

فیفا ورلڈ کپ کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ یہ عالمی ٹورنامینٹس اقوام عالم کے درمیان بھائی چارے، مضبوط اقتصادی اور معاشی تعلقات کے فروغ کے لیے شروع کیے گئے تھے اور ان کا مقصد ایک ایسی عالمی برادری کا قیام تھا جس میں شامل ہر برادری دوسری برادری سے محبت بھی کرے، اس کی فلاح و بہبود بھی چاہے اور پوری دنیا کو ایک مشترکہ اور متفقہ و متحد برادری کی شکل میں ڈھال دے، تاکہ ساری دنیا صرف ایک برادری دکھائی دے اور ان ملکوں اور برادریوں کے درمیان نہ نسلی امتیاز ہو اور نہ کسی رنگ یا فرقے کا کوئی فرق دکھائی دے۔ کیا ایسا ہوسکا؟ شاید نہیں، کیوں کہ ورلڈ کپ فٹ بال کے وہ مقابلے جو عالمی بھائی چارے کے فروغ کے لیے شروع کیے گئے تھے، وہ بعض دفعہ قوموں اور ملکوں کے درمیان باہمی نفرتوں اور دشمنیوں کا سبب بننے لگے اور ان کے درمیان نسل پرستی نے بھی ڈیرے ڈال لیے۔

فیفا ورلڈ کپ 2018 اپنی ساری دھوم دھام کے ساتھ آج اختتام کو پہنچے گا۔ اس دوران کئی انوکھے تنازعات نے جنم لیا اور بے شمار مسائل پیش آئے۔ اس کے ساتھ آنے والے دور میں کئی تنازعات اٹھنے کا خدشہ ہے۔ ماہرین ابھی سے ان مسائل سے نمٹنے کی پلاننگ بھی کررہے ہیں۔ ہر ایک اپنے اپنے حساب سے اس ضمن میں کوشش کررہا ہے اور ان کے حل تلاش کررہا ہے۔ یہاں ہم اپنے قارئین کو یہ بتادیں کہ ورلڈکپ 2018 کے آغاز سے پہلے ہی اس فیصلے کو چیلینج کیا گیا تھا کہ فٹ بال کے ان عالمی مقابلوں کا میزبان روس ہوگا۔ پھر روسی فٹ بال کے کھیل میں نسل پرستی کی بلند سطح بھی زیربحث رہی۔ یہ بھی ایک متنازع موضوع تھا جس پر ساری دنیا میں ہی بحث و مباحثہ جاری تھا اور خاص طور سے مغربی ملک اور مغربی اقوام پرجوش انداز سے بحث کررہی تھیں۔ اس صورت حال کے باعث ساری دنیا ہی الجھن کا شکار تھی۔

دنیا کے متعدد ملکوں اور وہاں کے لوگوں نے یوکرائن میں جاری جنگ اور فساد میں روس کی شرکت کو بھی اس حوالے سے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ اس ٹورنامنٹ کو روس سے ہٹاکر کہیں اور کسی دوسرے ملک میں منتقل کیا جائے، تاکہ لوگوں کو سکون اور چین مل سکے۔ خاص طور یہ بھی کہا گیا کہ کریمیا کے الحاق اور مشرقی یوکرائن میں فوجی مداخلت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسا کوئی قابل قبول فیصلہ کیا جائے جو تمام افراد کی پسند اور مرضی کے مطابق ہو اور جسے وسیع پیمانے پر عام لوگوں کی رضامندی حاصل ہو۔ ایسا نہ ہو کہ دنیا کی آبادی کے ایک بڑے حصے کی خواہش کو نظرانداز کیا جائے۔ لیکن اس وقت کے فیفا کے صدر Sepp Blatter نے اپنا حق استعمال کرتے ہوئے ٹورنامنٹ کا مقام منتقل کرنے کی تمام درخواستیں مسترد کردیں، کیوں کہ وہ یہ ٹورنامنٹ روس میں ہی کرانے کے حق میں تھے اور ان کی خواہش تھی کہ روس ہی اس کے تمام انتظام کرے اور اس ضمن میں پیش رفت بھی کرے۔

2015 کے کرپشن کے الزامات اور مجرمانہ کاموں کی تحقیقات جن میں ایک سوئس انکوائری بھی شامل تھی جو 2018کے ورلڈ کپ میں bidding process یا بولیوں اور پیش کشوں کے مراحل کے حوالے سے تھی، ان سب چیزوں نے عوام کو ایک زبردست اور پرجوش بحث کے لیے پلیٹ فارم بھی فراہم کردیا۔ یہ بات عام طور سے بلکہ خاصے پُرزور انداز سے کہی جانے لگی کہ روس عالمی کپ کے انعقاد کے لیے مناسب جگہ نہیں ہے اور یہ کہ اس کی جگہ کسی اور ملک کا انتخاب کیا جائے۔ پھر تو یہ مطالبہ زور پکڑنے لگا۔

مئی 2015کے اواخر میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے تو یہ تک کہہ دیا کہ امریکا کی جانب سے کرپشن کی تحقیقات کو وہ Sepp Blatter کو فیفا کی صدارت سے محروم کرنے کی ایک کوشش یا سازش کے طور پر دیکھ رہے ہیں، کیوں کہ Sepp Blatter نے روس کے لیے  2018  کے ورلڈ کپ کی میزبانی کی حمایت کی تھی۔

٭روس میں نسل پرستی: فٹ بال ایسوسی ایشن کےYaya Touré کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر روس میں نسل پرستی اسی طرح جاری رہی تو سیاہ فام فٹ بالرز اس ٹورنامنٹ کا بائیکاٹ کرسکتے ہیں۔ یہ ان کا روسی حکومت اور اس کی جانب سے کی جانے والی نسل پرستی سے بیزاری کا اعلان تھا۔

جب یہ اعلان کیا گیا کہ روس 2018 کے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کرے گا تو UEFA FARE مانیٹرنگ سینٹر کے سربراہ  Dr Rafal Pankowski نے رشین فٹ بال یونین پر یہ الزام لگایا کہ اس کے بھیجے ہوئے لوگ فٹ بال کے اسٹیدیمز میں نسل پرستی کے حوالے سے خوب نعرے بازی کرتے ہیں۔ یہ کوئی محض زبانی دعویٰ نہیں تھا، بلکہ اس کا عملی مظاہرہ بھی مسلسل دیکھنے میں آرہا تھا۔

اکتوبر 2013 میں جب رشین کلب ماسکو کے آئیورین فٹ بالر Yaya Touré کے خلاف نسل پرستی پر مبنی نعرے لگائے تو Yaya Touré نے یہ بیان دیا تھا کہ اس ناخوشگوار صورت حال میں سیاہ فام کھلاڑی 2018 میں روس میں منعقد ہونے والے ورلڈ کپ فٹ بال کا اس وقت تک بائیکاٹ کرسکتے ہیں جب تک روس فٹ بال کے مقابلوں سے اس نسل پرستی والے رجحان کو ختم نہیں کردیتا۔

پھر 13جولائی2014کو جب ورلڈ کپ برازیل نے روس کے حوالے کیا تھا تو روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اپنے بیان میں کہا تھا:’’فیفا کے صدر Sepp Blatter نے اپنی ذاتی کوششوں سے ان تمام سماجی مسائل پر توجہ دے کر انہیں ختم کرنے کی کوشش کی ہے اور ہمیں امید ہے کہ روس میں ورلڈ کپ فٹ بال کے انعقاد کے لیے تیاری اور کوششیں جاری رہیں گی اور یہ روس میں ہی منعقد ہوگا۔ پھر ہمارا ملک روس خود بھی ان مسائل کے خلاف جدوجہد کرے گا جیسے ہم منشیات کے خلاف جنگ لڑیں گے، ہم نسل پرستی کے خلاف بھی جدوجہد کریں گے اور ان تمام مسائل سے نمٹنے کی پلاننگ کریں گے۔‘‘

مارچ 2015میں رشیئن فٹ بال یونین کے جنرل سیکریٹری Anatoly Vorobyov نے کہا کہ یہاں ہر چیز عمدگی سے نہیں چل رہی ہے اور روسی فٹ بال میں سے نسل پرستی کا جرثومہ ختم نہیں ہورہا ہے۔ بعد میں فیفا کے سابق نائب صدرVyacheslav Koloskov نے یہ بھی کہا کہ روس میں سے نسل پرسی کے خاتمے کے لیے کوششیں جاری ہیں، مگر ابھی تک اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ہے۔

٭برطانوی میڈیا کی منفی رپورٹنگ : دوسری جانب اس موقع پر برٹش نیوز میڈیا نے بڑی منفی انداز کی رپورٹنگ کی اور بار بار انگلش فٹ بال کے پرستاروں کو یہ کہہ کہہ کر ڈراتا رہا کہ انگلش فٹ بالرز روس کا دورہ نہ کریں کیوں کہ وہاں تشدد کا خطرہ بھی ہے اور نسلی امتیاز کے باعث بھی گڑبڑ کا اندیشہ ہے۔

لیکن انگلستان کے پرستار جو پہلے ہی روس کے دورے پر جاچکے تھے، ان کا روس میں بڑی گرم جوشی سے خیرمقدم کیا گیا اور وہاں کے لوگوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا، جس نے برطانوی میڈیا کا پھیلایا گیا تاثر غلط ثابت کردیا۔

اس کے علاوہ روسی اشتہارات بھی اس ضمن میں حیرت انگیز کردار ادا کرتے رہے۔ یوکرائن اور کریمیا میں تو فوجی تنازعات نے الگ مسائل کھڑے کردیے تھے۔

امریکا کے سینیٹر  Dan Coats نے Sepp Blatter کو ایک خط لکھا جس میں یہ درخواست کی کہ چوں کہ روس نے کریمیا کے معاملے میں اپنی مرضی کی ہے تو اس لیے 2018 کے ورلڈکپ کی میزبانی سے روس کو روکا جائے۔2014 میں کریمیا کے روسی جمہوریہ کے ساتھ الحاق کے باعث متعدد امریکی سیاست دانوں نے فیفا سے یہ زبردست مطالبہ کیا کہ وہ اپنے روس میں فٹ بال ورلڈ کے انعقاد کے فیصلے کو فوری طور پر بدل دے۔

ادھر برطانیہ کے ایک وزیر Andy Burnham نے تو یہاں تک مطالبہ کرڈالا کہ فٹ بال کی گورننگ باڈی کے بارے میں دوبارہ غور و خوض کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی دو امریکی ری پبلکن سینیٹرز Dan Coats اور Mark Kirk نے فیفا کے صدر Sepp Blatter  کو ایک مشترکہ خط لکھا جس میں یہ مطالبہ کیا کہ روس کو نہ صرف مذکورہ ورلڈ کپ کی میزبانی نہ دی جائے بلکہ اسے اس ورلڈ کپ میں حصہ لینے سے بھی روکا جائے اور اس پر مکمل پابندی عاید کی جائے۔

اس کے علاوہ جولائی 2014 میں ملائیشیا کے ایر لائن فلائٹ 17کے کریش کے بعد ایک بار پھر مغربی راہ نماؤں نے اس کا سارا الزام روس پر ڈالتے ہوئے اپنا یہ مطالبہ پھر دہرایا کہ اس ورلڈکپ کے میزبان ملک کو بدلا جائے۔ ساتھ ہی جرمنی کے پارلیمنٹیرینز نے یہ مطالبہ بھی کردیا کہ اس حوالے سے روس پر مزید اور زیادہ سخت پابندیاں لگائی جائیں۔

دوسری جانب برطانیہ کے اس وقت کے ڈپٹی پرائم منسٹر Nick Clegg نے تو یہ بھی کہا کہ ملائیشیائی طیارے کے حادثے کے بعد روس کو ورلڈ کپ میں حصہ لینے سے رو ک دیا جائے۔اس موقع پر برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے کسی بھی خیال کا اظہار نہیں کیا۔اس کے ساتھ ساتھ فیفا کے صدر Sepp Blatter  نے یہ بھی کہا کہ یہ ٹورنامنٹ کسی اچھے کام کے لیے ایک اہم قوت کے طور پر استعمال ہونا چاہیے۔اس کے بعد مشرقی یوکرائن میں براہ راست فوجی مداخلت کے بعد تو ہر طرف شور مچ گیا۔

٭کرپشن کے الزامات: 2014میں انگلینڈ کی فٹ بال ایسوسی ایشن کے چیئرمین David Bernsteinنے یونین آف یورپین فٹبال ایسوسی ایشن ( UEFA) کے تمام رُکن ممالک سے کہا کہ وہ کرپشن کے الزامات کے پیش نظر 2018 اور 2022 کے ورلڈکپ کا بائیکاٹ کریں۔

ادھر انگلش فٹبال فیڈریشن جو روس کے خلاف اس ٹورنامنٹ کی میزبانی کے لیے تیار تھی، وہ بھی 42 صفحات کی اس سمری سے مطمئن نہ تھی جو فیفا نے نومبر 2014 میں جاری کی تھی۔ اس رپورٹ میں روس اور قطر دونوں کو کرپشن کے حوالے سے کلیئر کردیا گیا تھا۔

FA Chairman Greg Dyke نے دوبارہ تفتیش کا مطالبہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ David Bernstein نے UEFA nations سے دونوں ٹورنامنٹس کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔دوسرے ملکوں اور اقوام نے بھی یہ مطالبات کیے۔

کچھ اور ملکوں اور اقوام نے زیادہ سخت اقدامات کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ بہرحال یہ تنازعات اپنی جگہ مگر ورلڈکپ فٹ بال 2018کا انعقاد امیدوبیم کی کیفیات میں ہزاروں مخالفتوں کے باوجود پہلے سے طے شدہ ملک روس میں منعقد ہوکر رہا۔ تاہم ان خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ کیا آئندہ دنیا بھر کی اقوام اور دنیا بھر کے ممالک اس ورلڈ کپ کے انعقاد کے حوالے سے کسی ایک ملک کی میزبانی پر متفق ہوسکیں گے اور کیا آئندہ بھی یہ ٹورنامینٹس عالمی برادری کے درمیان مضبوط معاشی اور اقتصادی تعلقات کے فروغ کا ذریعہ بن سکیں گے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔