گدھا، میرا پسندیدہ

وقاص ارشد چیمہ  منگل 17 جولائی 2018
وطن عزیز میں قدردان گدھے کو نہ صرف رکن اسمبلی منتخب کرتے ہیں بلکہ متعدد بار اس کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہونے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وطن عزیز میں قدردان گدھے کو نہ صرف رکن اسمبلی منتخب کرتے ہیں بلکہ متعدد بار اس کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہونے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پچھلے کچھ دنوں سے وطن عزیز کی سیاست میں گدھا ایک مرتبہ پھر موضوع بحث ہے۔ شریف النفس، شریف الطبع، مسکین صورت، صبر و استقامت کا استعارہ، لاکھوں گھروں کا سہارا، عجز و انکساری کی علامت، جفاکشی میں اپنی مثال آپ، ہر حال میں شاکر، دنیا اور اس میں موجود رنگینیوں سے بے نیاز، اپنے حال میں مست، ہمہ وقت غور و فکر میں غوطہ زن، درویشانہ صفات کا حامل گدھا ہمیشہ سے میرا پسندیدہ رہا ہے۔

بچپن سے ہی مجھے اس میں ایک خاص کشش محسوس ہوئی ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ گلی میں سے سر تسلیم خم کیے گزرتے کسی گدھے نے میری توجہ اپنی جانب کھینچی نہ ہو۔ یاروں کو شاید اس کشش اور خصوصی دلچسپی کی وجہ یہ لگے کہ میں بھی کہیں نہ کہیں، کسی موقع پر، انجانے میں گدھا خوری کا مرتکب ہوچکا ہوں۔ اس پہلو پر میں نے بھی غور کیا اور دل کو ٹٹولا تو معلوم یہ ہوا کہ نہیں، یہ محبت تو اس رواج کے رائج ہونے سے برسوں پہلے کی ہے۔

سڑکوں اور گلیوں میں، بادی النظر میں کسی کو محض یہ وزن سے لدی دو پہیوں کی گاڑی کھینچتا لگے لیکن مجھ سے کوئی پوچھے تو میرے تصور میں یہ اس سے آگے، درحقیقت اپنے مالک کی زندگی کی گاڑی کھینچتا نظر آتا ہے۔ انتھک محنت اور زندگی کے مصائب سے نبرد آزما ہونا میں نے گدھے سے ہی سیکھا ہے۔ یہ کبھی ہار نہیں مانتا۔ ہاں! وزن کی زیادتی کے سبب بعض اوقات یہ ہوا میں معلق ہوجاتا ہے، اور یہی وہ واحد موقع ہوتا ہے جب یہ لاچاری اور بے کسی کی تصویر بنا نظر آتا ہے۔

یاروں کو یہ شکایت رہی ہے کہ وطن عزیز میں گدھے کو وہ مقام اور مرتبہ نہیں مل سکا جو اسے امریکا میں حاصل ہے؛ اور اس کی دلیل میں وہ امریکی سیاست کی ڈیموکریٹک پارٹی کو مثال بناتے ہیں کہ جس کا انتخابی نشان گدھا ہے۔ میرا زاویہ نظر ان سے اختلافی ہے۔ امریکیوں نے گدھے کو محض ایک انتخابی نشان تک محدود کر رکھا ہے جبکہ وطن عزیز میں قدردان اسے نہ صرف رکن اسمبلی منتخب کرتے ہیں بلکہ متعدد بار اس کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہونے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔

میں اس شخصیت کا نام نہیں لوں گا کہ میرے حلقہ احباب میں سے بعض لوگ اعتراض اٹھاتے ہیں۔ حالانکہ اس شخصیت سے منسوب کیے جانے پر سب سے زیادہ اعتراض خود گدھے کو ہونا چاہیے۔ بحالت مجبوری اگر کسی جانور کو باپ بنانے کی نوبت آجائے تو ہمارے یہاں گدھے کو دوسرے تمام جانوروں پر فوقیت حاصل ہے۔ اہالیان وطن اس سے بڑھ کر ان سے محبت کا ثبوت اور کیا دیں؟

اکیسویں صدی آ گئی۔ حضرت انسان چاند سے آگے نکل کر مریخ تک کمند ڈال چکا لیکن گدھے کی اہمیت و ضرورت آج بھی اتنی ہی اٹل ہے جتنی ہزاروں سال پہلے تھی۔ کہیں اسے حضرت عیسٰی علیہ السلام سمیت بہت سے پیغمبروں کی سواری ہونے کا شرف حاصل رہا ہے تو کہیں اس نے مجرمان رُوسیاہ کو پیٹھ پر لاد کر قریہ قریہ گھمانے کا فریضہ بھی انجام دیا ہے۔ یہ فقط عروج و زوال کی اس طرح کی داستانوں ہی کی زینت نہیں رہا بلکہ دور جدید میں یہ حسیناؤں کی زینت کو بھی چار چاند لگانے کے کام آرہا ہے۔ اس کے اجزائے جسمانی سے تیار کردہ ’’لپ اسٹک‘‘ لبوں پر سجائے کوئی حسینہ مسکرائے تو عاشق بیتاب کے دل پر اس تبسم کے نقش ہوتے کے ساتھ ہی یہ خود بھی امر ہوجاتا ہے۔ اب تو گھروں میں مہمانوں اور ریستورانوں میں گاہکوں کی تواضع کرنے میں بھی اس کی خدمات قابل قدر ہیں۔

قصہ مختصر کہ مخلوقات خدا میں سے انسان کی جتنی خدمت گدھے نے کی ہے، شاید ہی کسی اور نے کی ہو۔ ازل سے لے کر آج تک یہ انسان کے سرد و گرم کا ساتھی رہا ہے۔ اس لحاظ سے بلاشبہ ہمارا یہ – ہمدمِ دیرینہ – ہماری محبت اور خراج تحسین کا مستحق ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔