فیصل آباد کا انتخابی سیاسی پارہ

محمد عتیق  ہفتہ 21 جولائی 2018
فیصل آباد کے قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات کافی اہمیت کے حامل سمجھے جارہے ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

فیصل آباد کے قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات کافی اہمیت کے حامل سمجھے جارہے ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

مانچسٹر آف پاکستان کہلائے جانے والا شہرِ بے مثال جس کا نام سعودی فرماں رواں شاہ فیصل مرحوم کے نام پر 1979ء میں فیصل آباد رکھا گیا۔ سو سال سے زائد تاریخ کا حامل یہ شہر ایک عرصہ تک ایشیاء کا سب سے بڑا گاؤں سمجھا جاتا رہا۔ گورنر پنجاب سر جیمز براڈ ووڈ لائل کے نام سے آخری لفظ لائل کو لے کر سنسکرت کے لفظ پور (شہر) کو ساتھ ملا کر لائل پور نام رکھا گیا۔ گھنٹہ گھر کا ڈیزائن ڈسمنڈنگ نے تخلیق کیا جس میں گنگا رام کا بھی حصہ تھا جنہوں نے جڑانوالہ کے نواح میں گنگاپور نامی شہر آباد کیا تھا۔ یہ وہی مشہور گاؤں ہے جہاں کچھ سال قبل تک مشہور زمانہ گھوڑا ٹرین چلتی رہی ہے۔

گھنٹہ گھر کے گرد بنے 8 بازاروں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ برطانوی پرچم کو سامنے رکھتے ہوئے بنائے گئے تھے جو آج بھی اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ صنعتی ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ جگت بازی میں سب سے زیادہ پہچان رکھنے والے اس شہر نے بین الاقوامی سطح پر بھی مختلف شخصیات متعارف کرواکر اپنی پگڑی کو اونچا رکھا ہے۔ مشہور شخصیات میں صوفی برکت علی، ماسٹر سندر سنگھ لائلپوری، حسن نثار، نصرت فتح علی خاں، بھگت سنگھ، امانت علی، ہری سنگھ دربار، رمیز راجہ، سعید اجمل اور قریبی گاؤں رام دیوالی میں پیدا ہونے والی ارفع کریم (کم عمر آئی ٹی ماہر، 17 سال کی عمر میں انتقال) کا شہر فیصل آباد ہی ہے۔

نئی حلقہ بندیوں میں اب فیصل آباد کی قومی اسمبلی کی ایک سیٹ کم ہوکر 10 رہ گئی ہیں۔ پہلے این اے 75 سے شروع ہوکر این اے 85 تک حلقہ بندیاں تھیں جبکہ اب این اے 101 سے لے کر 110 تک جاتی ہیں۔

فیصل آباد کے قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات کافی اہمیت کے حامل سمجھے جارہے ہیں۔ تحریک انصاف نے ظفر ذوالقرنین ساہی، ملک نواب شیر وسیر، محمد سعد اللہ، سردار دلدار احمد چیمہ، رضا نصراللہ، چوہدری ڈاکٹر نثار، خرم شہزاد، فرخ حبیب، فیض اللہ اور راجہ ریاض احمد کو میدان میں اتارا ہے۔ مسلم لیگ ن نے طلال چوہدری، علی گوہر خاں، شہباز بابر، میاں محمد فاروق، رانا ثناء اللہ، اکرم انصاری، عابد شیرعلی، میاں عبدالمنان اور افضل خان کوانتخابی معرکے میں اتارا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے طارق محمود باجوہ، محمد شاہ جہاں، شہادت علی خان، رانا فاروق سعید، محمد اعجاز چوہدری، سعید اقبال، سردار محمد، اصغر علی قیصر، حاجی محمد افضل اور یونس سلیمان کو ٹکٹ دیا ہے۔ اللہ اکبر تحریک جسے ملی مسلم لیگ (جو ابھی تک رجسٹرڈ نہیں ہوسکی) کی ملک بھر میں حمایت حاصل ہے نے امدادعلی، کاشف الطاف بٹ، محمد صدیق ایڈووکیٹ، عبدالخالق، نواز احمد چیمہ، رابعہ مختار شیخ، رانا ابوخبیب الرحمن خاں، شیخ فیاض احمد اور چوہدری شبیر اصغر کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔

دوسری مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے افتخار علی، سید طیب رضا، رائے اعجاز حسین، فہد غفار، ابرار حسین، بشارت علی، محمد ذیشان، شہباز علی گلزار، محمد اسد اقبال اور حافظ عمر فاروق کو سیاسی اکھاڑے میں اتارا ہے۔ این اے 101 میں ساہی برادران کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد مسلم لیگ ن اپنا امیدوار لانے میں ایک طرح سے ناکام نظر آئی۔ مسلم لیگ ن کے صوبائی اسمبلی سے امیدوار آزاد علی تبسم آزاد کے بعض اشتہارات میں قومی اسمبلی کے آزاد امیدوار عاصم نذیر کے ساتھ تصویر دیکھنے کو ملی جس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ ن عاصم نذیر کی حمایت کررہی ہے۔ دوسری جانب اسی حلقہ میں صوبائی اسمبلی کے آزاد امیدوار اجمل چیمہ بھی عاصم نذیر کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ اس حلقہ میں  اک عجیب سی گومگوں کیفیت میں مسلم لیگ ن کا ووٹر نظر آرہا ہے۔ ملک کی 3 بڑی جماعتوں نے ضلع فیصل آباد میں کسی بھی خاتون کو ٹکٹ نہیں دیا جبکہ ملی مسلم لیگ کی حمایت یافتہ اللہ اکبر تحریک نے رابعہ مختار شیخ کو مسلم لیگ ن کے اکرم انصاری اور تحریک انصاف کے شیخ خرم شہزاد کے مقابلے میں لاکر مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔

ملی مسلم لیگ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ابھی تک رجسٹرڈ نہ ہونے کے باوجود سرحد کے پار بھی مشہور ہوچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق رانا ثناء اللہ کے مقابلے میں مختلف جماعتوں کا خاموش الائنس ہے اور انتخابات والے دن یہی خاموش الائنس رانا ثناء اللہ کو ہرانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

فیصل آباد میں اگر حلقہ کے حساب سے ووٹروں کی تعداد دیکھی جائے تو این اے 101 میں 4,59,268، این اے 102 میں 4,99,195، این اے 103 میں 4,34,931، این اے 104 میں 4,93,818، این اے 105 میں 4,40,419، این اے 106 میں 4,15,496، این اے 107 میں 4,33, 402، این اے 108 میں 4,34,583، این اے 109 میں 4,20, 767 اور این اے 110 میں 4,45,459 ووٹرز کی تعداد موجود ہے۔ مسلم لیگ ن نے گذشتہ الیکشن میں فیصل آباد کی 11 میں سے 10 قومی اسمبلی کی سیٹیں حاصل کی تھیں لیکن اس بار مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جانے والا یہ ضلع دلچسپ صورت حال سے دوچار نظر آرہا ہے۔

مسلم لیگ ن و تحریک انصاف کے اندر سے ہی بعض ناراض و باغی افراد آزاد امیدوار کی حیثیت سے بھی مدمقابل ہیں۔ برادریوں، دھڑے بندیوں اور مسلکی بنیادوں پر بٹا یہ ضلع اپنی اک خاص اہمیت کے پیش نظر سب کی نظروں میں ہے۔ یہاں اکثروبیشتر برادری ازم کو دیکھتے ہوئے ووٹ کاسٹ کرنے کی روایت دیکھنے کو ملتی ہے۔ مذہبی ووٹ اب مسلم لیگ ن کے شیر پر مہر لگانے کی بجائے کرسی، کرین یا کتاب پر مہر ثبت کرے گا۔ تحریک انصاف بھی اس بار پوری تنظیم وہمت سے مسلم لیگ ن کے مقابلے میں موجود ہے۔

جماعۃ الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید کا بنفس نفیس ضلع فیصل آباد کا ایک ماہ میں دوبار طوفانی دورہ کرنا جس میں اندرون وبیرون شہر ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ امیدواران کی کمپیئن میں حصہ لینا اللہ اکبر تحریک کے امیدواران کے ووٹ بینک میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ اپنی کمپین کو دیکھتے ہوئے ضلع فیصل آباد کی اک یا دو نشستیں جیتنے کی خواہش پروان چڑھائے بیٹھے ہیں تو یہ کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث کی مرکزی قیادت کے فیصلوں کی وجہ سے مکتب اہل حدیث کا ووٹ دو تین حصوں میں تقیسم ہوکر اللہ اکبر تحریک، متحدہ مجلس عمل اور مسلم لیگ ن کو پڑے گا۔

اس وقت مسلم لیگ ن سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدواران کو حلقوں میں مزاحمت کا سامنا ہے۔ فیصل آباد کے کئی حلقوں میں مسلم لیگ ن کے امیدواران سے ووٹرز نے سوالات کرکے اس کا ناطقہ بند کردیا تھا۔ کچھ جگہوں پر تو امیدوار کا صبر والا پیمانہ لبریز ہوکر ووٹر پر چھلک پڑا۔ سوالات کی بوچھاڑ ظاہر کرتی ہے کہ ووٹر کو شعور مل چکا ہے اور وہ امیدوار کی سابقہ خدمات کو پرکھ کر ہی ووٹ دے گا۔

مسلم لیگ ن کی قیادت کو اس وقت عدالتی کارروائیوں کا سامنا ہے جس سے ان کا امیدوار سخت ذہنی کوفت میں مبتلا ہوچکا ہے۔ مرکزی و صوبائی حکومت پاس ہونے کی وجہ سے بھی ان کی کارکردگی کو اہلیانِ حلقہ مزید گہرائی سے دیکھ رہے ہیں۔ ختم نبوتﷺ والا معاملہ بھی مسلم لیگ ن کے کھاتے میں موجود ہے جس کی وجہ سے بھی امیدوار کو مزاحمت کا سامنا ہے؛ اور اقرار ختم نبوتﷺ کا سلسلہ بھی سننے میں آیا ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف نے پرانے سیاسی کھلاڑیوں کو اپنے پرانے کارکنان پر فوقیت دے کر کارکن کو ناراض کردیا ہے۔

صوبائی اسمبلی کے حلقہ 97 میں اپنے پرانے ورکر اجمل چیمہ کو ایک طرف کرکے ساہی برادران کو تحریک انصاف کی طرف سے ٹکٹ دیے گئے جس کی وجہ سے حلقے کا انصافین ووٹر ناراض ہے اور انتخابات سے قبل اگر عمران خان نے ٹکٹ نہ دینے کی وجوہات عام نہ کیں تو ملک بھر کی طرح فیصل آباد سے بھی جیتی نشستیں کھوئی جاسکتی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی ضلع فیصل آباد میں ماضی کی طرح متحرک نظر نہیں آرہی۔ لیکن ہوسکتا ہے انتخابات والے دن مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی باہمی لڑائی میں ضلع فیصل آباد کی کوئی ایک آدھ سیٹ مفتے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی گود میں جاگرے۔ اللہ اکبر تحریک کو ملی مسلم لیگ کی حمایت حاصل ہوجانے کے بعد اس کا یہ پہلا الیکشن ہوگا جس میں اس نے بھرپور طریقے سے شرکت کی ہے۔ اکثر وبیشتر نئے امیدوار سامنے لاکر مضبوط ومستحکم منشور سامنے رکھا ہے جس میں کشمیر، پانی، بیروزگاری ودیگر مسائل پر زور دیا گیا ہے۔ فیصل آباد سطح پر جس طرح سے یہ انتخابی مہم چلا رہے ہیں جلد یا بدیر بڑی جماعتوں کے لیے سر درد بن سکتے ہیں۔

امیر جماعۃ الدعوہ پروفیسر حافظ محمد سعید کا ان کے اسٹیج پر آنا ان کے لیے ایک ایسا پلس پوائنٹ ہوسکتا ہے جو انہیں قومی وصوبائی اسمبلیوں میں پہنچا سکتا ہے، کیونکہ حافظ محمد سعید کی فالوؤنگ ملک بھر میں خاصی موجود ہے۔ خدمت انسانیت کے حوالے سے جانی پہچانی شخصیات کو اللہ اکبر تحریک نے سامنے لا کر ثابت کیا ہے کہ عملی خدمت کے لیے حکومت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عتیق

محمد عتیق

بلاگر عتیق الرحمٰن کا تعلق فیصل آباد سے ہے ، اور تعلیم ماسٹرز ان اسلامک اسٹڈیز ہے ۔ پاکستان کے مختلف اخبارات میں زنجیر عدل کے عنوان سے عتیق الر حمن کالم شائع ہوتے رہتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔