دولت مشترکہ، یورپی مبصرین اور فافن نے الیکشن شفاف قرار دیدیے

نمائندگان ایکسپریس  ہفتہ 28 جولائی 2018
نتائج میں تاخیرکے علاوہ کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا،فافن رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

نتائج میں تاخیرکے علاوہ کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا،فافن رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

 اسلام آباد: دولت مشترکہ، یورپی یونین اور فافن کے مبصرین نے پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات 2018 کو شفاف قرار دیا ہے۔

گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے دولت مشترکہ گروپ کے چیف مبصرعبدالسلام ابوبکر نے کہا ہے کہ عام انتخابات کے دوران ہمارے مشاہدے کے مطابق الیکشن کمیشن کو مزید خودمختاری اور بہتری کی گنجائش ہے۔

سیکیورٹی فورسز کی موجودگی میں انتخابی عمل متاثر نہیں ہوا، فوج کی موجودگی میں لوگوں نے زیادہ آزادنہ طریقے سے ووٹ دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم  نے6 شہروں اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، ملتان، فیصل آباد اور حیدرآباد کے100 سے زائد پولنگ اسٹیشنوں کا دورہ کیا، ہمارے مبصرین 23 جولائی کو مختلف علاقوں میں تعینات کیے گئے، انتخابات کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں امیدواروں کو بھی نشانہ بنایا گیا، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے، انتخابات میں تمام فریقین کا کردار بہت مثبت تھا۔

عبدالسلام ابوبکر نے کہا 2018 کے انتخابات پاکستان کی جمہوری تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں،انتخابی عمل متاثر نہیں ہوا، الیکشن کمیشن کی تیاری بہتر تھی لیکن کئی جگہوں پر ووٹروں کو اپنے پولنگ اسٹیشن کا علم نہیں تھا۔ انھوں نے وزارت خارجہ، سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن سمیت دیگر فریقین کا شکریہ ادا کیا۔

اس سے قبل یورپی یونین کے مبصر مشن کے سربراہ مائیکل گیلر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا انتخابات کے دوران 12 مبصرین نے پاکستان کے 113 حلقوں کے 582 پولنگ اسٹیشنوں کے دورے کیے، یورپی یونین کے مبصر مشن کو پولنگ اسٹیشنوں پر بہت تاخیر سے تعینات کیا گیا، اس سے قبل اس طرح کی تاخیر نہیں کی گئی۔

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک فافن کی الیکشن 2018 کی ابتدائی رپورٹ جاری کردی گئی جس کے مطابق فافن کے 19 ہزار سے زائد مبصرین نے الیکشن مانیٹر کیے، پولنگ سٹیشن پر طویل قطاریں ثابت کرتی ہیں کہ لوگوں کا انتخابی عمل پراعتماد بڑھ رہا ہے۔

الیکشن کے دن ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 50.3 فیصد رہا، نتائج کے اعلان میں تاخیرکے علاوہ کوئی قابل ذکر واقعہ سامنے نہیں آیا،کسی سیاسی جماعت نے انتخابی عمل کے دوران سیکیورٹی فورسز کے کام کے طریقہ پرسوالات نہیں اٹھائے،انتخابی عمل میں نمایاں بہتری سے لوگوں کا انتخابی عمل پر اعتماد بڑھا ہے، پنجاب میں ووٹر ٹرن آؤٹ 59 فیصد، اسلام آباد میں 58.2 فیصد ،سندھ میں 47.7 فیصد، خیبر پختوانخوا میں 43.6 فیصد، بلوچستان میں 39.6 فیصد رہا۔مردوں کا ٹرن آؤٹ 58.3 فیصداور خواتین کا 47 فیصد رہا، 4 کروڑ 90 لاکھ سے زائد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔

رپورٹ کے مطابق انتخابی نتائج میں تاخیر اورگنتی کے عمل میں غیرشفافیت کی شکایات کے علاوہ انتخابات کادن نسبتاً پرامن اور کسی بڑے تنازعے سے پاک رہا، نصف سے زائد رجسٹرڈ ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ دہشت گردی کے چند بڑے واقعات اور سیاسی تقسیم کا اثر انتخابی مہم پر نمایاں نظر آیا۔

الیکشن کے دن ڈیوٹی کرنے والے سرکاری اہلکاروں کی تعداد ماضی کے انتخابات کی نسبت زیادہ رہی، صوابی میں سیاسی جماعتوں کے جھگڑے کے علاوہ پولنگ مجموعی طور پر پرامن رہا۔قومی اسمبلی کے 35 حلقوں میں جیتنے والے اور دوسرے نمبر پررہنے والے امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کا فرق ان حلقوں میں مسترد کردہ ووٹوں کے فرق سے کم ہے، ان حلقوں میں پنجاب کے 24، خیبرپختونخوا کے 6، سندھ کے 4 اور بلوچستان کا ایک حلقہ شامل ہے۔

این اے 10 شانگلہ اور این اے 48 شمالی وزیرستان کے حلقوں میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آوٹ 10 فیصد رہا، الیکشن ایکٹ2017 کے تحت جن حلقوں میں خواتین کا ٹرن آؤٹ10فیصد سے کم رہاہو وہاں الیکشن کمیشن انتخابات کو کالعدم قرار دے سکتاہے۔

ادھر بی بی سی کے مطابق یورپی یونین کے مبصرین نے پریس کانفرنس میں کہا کہ حالیہ انتخابات 2013 کے انتخابات سے کسی طور پر بھی بہتر نہیں ہیں، کچھ غیر جمہوری قوتوں نے انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔

مائیکل گیلر نے کہا سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو پولنگ اسٹیشنوں کے اندر تعینات کرنا ناقابل فہم عمل ہے، الیکشن ایکٹ میں ایسی کوئی تجویز نہیں ہے، پوسٹل بیلٹنگ کسی طور پر محفوظ نہیں، اس سے دھاندلی کا خطرہ بھی موجود رہتا ہے، تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے کے لیے یکساں مواقع فراہم نہیں کیے گئے۔

فافن رپورٹ میں کہا گیا ہے پولنگ اسٹیشنوں پر سیکیورٹی اہلکار خلاف ضابطہ کارروائیوں میں متحرک رہے، 1571 پولنگ اسٹیشنوں کے اندر ووٹرزکومخصوص امیدوار کے لیے راغب کیا گیا اور غیرمجاز افراد دندناتے رہے، 163 پولنگ اسٹیشنوں پر یہ افراد پولنگ عملے پر اثرانداز ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔