پاکستان میں خون عطیہ کرنے کا طریقہ وضع نہیں، ماہرین طب

 اتوار 29 جولائی 2018
تمام بلڈ بینکس کو رابطے میں رہنا چاہیے تاکہ خون ضائع نہ ہو سکے، ڈاکٹر زاہد انصاری۔ فوٹو: ایکسپریس

تمام بلڈ بینکس کو رابطے میں رہنا چاہیے تاکہ خون ضائع نہ ہو سکے، ڈاکٹر زاہد انصاری۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی: مقامی ہوٹل میں ایکسپریس میڈیا گروپ، این آئی بی ڈی اور عمیر ثنا فاؤنڈیشن کے زیراہتمام ’’سیف بلڈ ٹرانسفیوژن‘‘ کے موضوع پرسیمینار میں مقررین اور طبی ماہرین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں خون عطیہ کرنے کا طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا، بیرون ممالک میں رائج ایس اوپی کو نظرانداز کیا جارہا ہے جس کے باعث خون کے عطیات ضائع بھی ہوجاتے ہیں، پاکستان میں بدقسمتی سے بلڈ بینک کو کاروبار سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ 

ایکسپریس میڈیا گروپ کے زہر اہتمام سیمینار میں ڈاکٹر در ناز، ڈاکٹرثاقب انصاری، ڈاکٹر صبا جمال، ڈاکٹر طاہر شمسی، ڈاکٹر زاہد انصاری، بریگیڈیئر نصرت اور پروگرام کے مہمان خصوصی صوبائی سیکریٹری ہیلتھ عثمان چاچڑ نے شرکت کی۔

ڈاکٹر در ناز نے کہا کہ جو لوگ خون کا عطیہ دے رہے ہیں ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں، خاص کر تھیلیسیمیا کے مریض جن کو خون کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، ہمارے مشن کا مقصد جو بیماریاں خون کے ذریعے پیدا ہوتی ہیں ان کو روکنا ہے، خون لگوانے سے پہلے اس بات کو دھیان رکھنا چاہیے کہ اس خون میں بیماریاں تو نہیں،1997 میں خون کی منتقلی کیلیے قانون سازی شروع ہوئی،2017 میں حکومت سندھ کی جانب سے بلڈ ٹرانسفیوژن ایکٹ منظور ہوا،ہمیں عوام کو آگاہی دینی ہے اس بات کی کہ جو خون وہ لگوانے جارہے ہیں وہ محفوظ بھی ہے یا نہیں، ہمارے کام مکمل نہ ہونے کا سب سے بڑا سبب وسائل کی کمی کا ہونا ہے، یہ ہمارے کام کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ ہے، تھیلیسیمیا یا حادثے کا شکار مریض جسے فوری طور پر خون کی ضرورت ہوتی ہے، ان کو خون آسانی سے مل سکے۔

ڈاکٹر ثاقب انصاری نے ایکسپریس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے ساتھ مل کر یہ سیمینار منعقد کرنے پر میں ایکسپریس میڈیا گروپ کا شکرگزار ہوں۔ انھوں نے کہا کہ خون کا عطیہ یا بلڈ بینکنگ یہ ایک کاروبار نہیں اس میں زندگی وقف کردینی پڑتی ہے، 70 فیصد سے زائد کام کا بوجھ کراچی کے این جی اوز نے اٹھایا ہوا ہے۔

ڈاکٹر صبح جمال نے کہاکہ خون میں مختلف بیماریاں ہوتی ہیں اس لیے خون کی ٹیسٹنگ کا عمل بہت ضروری ہے،ٹیسٹنگ صحیح ہونی چاہیے،خون کی تھیلی کو ٹھنڈی جگہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے،ہماری کارکردگی گزشتہ 4 سال میں بہتر ہوتی رہی ہے، ہم نے بہاولپور اور ملتان میں بلڈ سینٹرز بنائے ہیں، اگر کہیں مریض کو لے کر جائیں تو ٹیسٹنگ کا عمل بہت خاص ہے اس غفلت کے باعث موت بھی واقع ہوسکتی ہے اس لیے اس کا خاص خیال رکھا جائے، کراچی سے مختلف علاقوں، اضلاع،تحصیلوں میں انڈس اسپتال خون فراہم کر رہا ہے۔

ڈاکٹر طاہر شمسی نے کہاکہ پاکستان آنے کے بعد میں نے اسپتالوں کے بلڈ بینک کے لیے سامان خریدنے کا تہیہ کیا،کراچی میں خون کے عطیہ کے حوالے سے آگاہی دینے کے حوالے سے کام کیا،باقاعدگی سے جو لوگ خون کا عطیہ دیتے ہیں اس خون میں بیماریوں یا ایکسپائر ہونے کا خدشہ بہت کم ہوتا ہے، پاکستان میں 7 سے 8 ملین خون کی بوتلوں کی اشد ضرورت ہے،ہمیں ڈونرز کی تعداد کو بڑھانا ہوگا، انفرااسٹرکچر تیار کرنا ہے،ہمیں خون کا عطیہ دینے والے افراد تک پہنچنا ہے ڈونرز کو ہم تک نہیں، 12 سے 13 سال میں بلڈ پراڈکٹس کی سیفٹی کو بہتر بنانا ہے۔

ڈاکٹر زاہد انصاری نے کہا کہ کراچی کے کئی اسپتالوں میں جاتے ہیں تو وہاں ایکسپائر بلڈ رکھا ہوا ہوتا ہے، تمام بلڈ بینکس کو رابطے میں رہنا چاہیے تاکہ خون کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے، کراچی، حیدرآباد، نواب شاہ اور سکھر میں ریجنل بلڈ سینٹر قائم کیے ہیں، کراچی، جام شورو اور سکھر میں ہم نے بلڈ بینک کا افتتاح کیا، بدین، دادو، کھیرپور، لاڑکانہ، قمبر شہداد کوٹ، میں ہم نے بلڈ سینٹرز کا دورہ کیا،خون کی منتقلی کا سائیکل چلنا اگر شروع ہوجائے تو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا، ہم رضاکارانہ طور پر نہیں دے رہے اگر خون کاعطیہ پابندی سے دینا شروع کردیں تو ایسا نہیں ہوگا۔

مہمان خصوصی سیکریٹری ہیلتھ عثمان چاچڑ نے کہاکہ یہ ایک بڑا ڈپارٹمنٹ ہے، پہلے سے چیزیں اور ٹیکنالوجی بدل گئی ہے، مجھے امید ہے ہم اس سسٹم کو مزید بہتر اور منظم کرنے کے لیے کام کریں گے،اس عمل کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کرنا مثبت ثابت ہوگا۔

واضح رہے کہ سیمینار کا مقصد خون کی محفوظ منتقلی اور خون کا عطیہ پابندی سے دینے کے حوالے سے عوام میں شعور و آگاہی پیدا کرنا تھا تاکہ خون کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں سے بھی بچا جا سکے۔

دریں اثنا سیمینار کے اختتام پر ایکسپریس میڈیا گروپ کی جانب سے مہمان خصوصی سیکریٹری ہیلتھ عثمان چاچڑ کو اعزازی شیلڈ پیش کی گئی جبکہ دیگر مقررین وطبی ماہرین کو بھی شیلڈز دی گئیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔