تختِ پشاور کا اصل حقدار کون؟

احتشام بشیر  بدھ 1 اگست 2018
اسد قیصر 1996 سے پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں۔ ڈسٹرکٹ سے صوبائی صدر تک پارٹی کو وقت دیا اور اپنی جدوجہد سے پارٹی کو صوبے میں مقام دلوایا۔ فوٹو: انٹرنیٹ

اسد قیصر 1996 سے پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں۔ ڈسٹرکٹ سے صوبائی صدر تک پارٹی کو وقت دیا اور اپنی جدوجہد سے پارٹی کو صوبے میں مقام دلوایا۔ فوٹو: انٹرنیٹ

پاکستان تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا کی سیاست میں یہ اعزاز حاصل ہوگیا ہے کہ مسلسل دوسری بار صوبے میں حکومت بنانے جا رہی ہے۔ اس سے قبل جو سیاسی جماعتیں صوبے پر ایک سے زیادہ بار حکومت کر چکی ہیں، ان میں کوئی بھی مسلسل دوسری بار کثیر تعداد میں عوامی حمایت حاصل کرنے اور حکومت کرنے کا اعزاز حاصل نہیں کر سکیں۔ تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں دوسری بار آنے والی تحریک انصاف ہی ہے، یہ جماعت نہ صرف دوسری بار حکومت بنانے جا رہی ہے بلکہ دو تہائی اکثریت بھی حاصل کر چکی ہے؛ تحریک انضاف کو اب کسی دوسری جماعت کو شامل اقتدار کرنے کی ضرورت نہیں۔

گزشتہ دور حکومت میں تحریک انصاف کو دوسری جماعت کی ضرورت تھی، پی ٹی آئی تب جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کے اتحاد سے سہ جماعتی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی، لیکن بعد میں قومی وطن پارٹی کا سفر پی ٹی آئی کے ساتھ زیادہ دیر تک نہ چل سکا۔ سیاست میں جوڑ توڑ کے ماہر سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے بڑی مہارت سے اپنے پانچ سال مکمل کیے، اگرچہ ان کی حکومت کو مختلف مواقع پر نشیب و فراز کا سامنا رہا لیکن وہ پانچ سال گزارنے میں کامیاب ہو گئے۔

گزشتہ دور میں پی ٹی آئی کے کئی ارکان اسمبلی ناراض ہو کر دوسری جماعتوں میں بھی شامل ہوتے رہے لیکن پرویز خٹک نے اپنی حکومت کو کمزور ہونے نہیں دیا۔ نمبر آف گیم میں پرویز خٹک کو کمی نظر آئی تو انہوں نے دوسری پارلیمانی جماعتوں کے ارکان کو توڑ کر اپنی عددی برتری کو برقرار رکھا۔ پرویز خٹک نے دوسری بار بھی وزیراعلیٰ بننے کےلیے منصو بہ بندی کی اور پی ٹی آئی میں اپنا پریشر گروپ بنانے کے لیے حمایتیوں کو پی ٹی آئی میں شامل کیا۔ پرویز خٹک ایسے ارکان اسمبلی کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہوئے جو اپنی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئے لیکن زیادہ ہوشیاری دکھانا پرویز خٹک کو مہنگا پڑ گیا، کیونکہ قومی اسمبلی کی نشست جیت کر اب پرویز خٹک کو صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑنی پڑ رہی ہے، اس لیے دوسری بار وزیراعلیٰ بننے کا ان کا خواب پورا نہیں ہو رہا۔

عمران خان کی جانب سے پرویز خٹک کےلیے قومی اسبملی کی نشست رکھنے کے فیصلے کے بعد اب خیبرپختونخوا میں وزارت اعلیٰ کی دوڑ جاری ہے۔ تخت پشاور کی دوڑ میں پرویز خٹک کے بعد اسپیکر اسد قیصر، سابق صوبائی وزیر تعلیم عاطف خان، شوکت یوسفزئی اور سیلم جھگڑا کا نام لیا جا رہا ہے۔ ایک وقت میں سابق وزیر تعلیم عاطف خان دوڑ میں آگے نکلنے لگے تو پارٹی میں سینئر ارکان کی جانب سے مخالفت کی گئی، پشاور میں ہم خیال ارکان کا اجلاس بلا کر پارٹی قیادت کو بتایا گیا کہ اکثریتی پارلیمانی ارکان کے لیے عاطف خان قابل قبول نہیں۔ سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک اپنے تجربے کو استعمال کر کے کسی نہ کسی طریقے سے عاطف خان کا راستہ روکنے میں کامیاب ہوئے، اس ساری صورتحال کو پرویز خٹک ماننے کو تیار نہیں، ان کا کہنا ہے کہ جو فیصلہ عمران خان کریں گے وہ قبول کریں گے؛ لیکن صورتحال پارٹی کے اندر اس کے برعکس ہے۔

ویسے تو یہ پارٹی کے چیئرمین کا اختیار ہے کہ وہ خیبرپختونخوا کے لیے وزارت اعلیٰ کا قرعہ کس کے نام نکالتے ہیں، لیکن وزارت اعلی کےلیے اصل حق ان کا ہے جنہوں نے پارٹی کے لیے قربانیاں دیں، اپنی زندگی کا قیمتی وقت دیا اور روز اول سے پارٹی کا ساتھ دیا۔ موجود پارلیمانی ٹیم ميں اس وقت سینئر ترین ارکان میں اسد قیصر اور شوکت یوسفزئی کے سوا کوئی بھی نہیں، اور حکومت چلانے میں جو تجربہ اسد قیصر اور شوکت یوسفزئی کا ہوگیا ہے وہ کسی اور رکن کا شاید ہی ہو۔

اسپیکر اسد قیصر 1996 سے پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں۔ انہوں ڈسٹرکٹ صوابی کے صدر سے لے کر صوبائی صدر تک پارٹی کو وقت دیا اور اپنی جدوجہد سے پارٹی کو صوبے میں مقام دلوایا۔ اسد قصر نے 2013 کے الیکشن میں بھی قربانی دی جب پی ٹی آئی نے خیبرپختونخوا اسمبلی میں اکثریت حاصل کی، پارٹی کا صوبائی صدر ہونے کی حیثیت سے وزارت اعلیٰ کا حق اسد قیصر کا بنتا تھا، اسد قیصر نے اس وقت بھی پارٹی کی قیادت کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کیا، اب بھی اسپیکر اسد قیصر پارٹی کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے تیار ہیں۔ لیکن عمران خان نے اگر فیصلے انصاف پر کرنے ہیں تو حق سینئر ورکرز کا بنتا ہے، اور پارٹی کے لیے جدوجہد ورکرز اسی دن کے لیے کرتے ہیں۔ اس لیے پی ٹی آئی کی قیادت کو خيبرپختونخوا کی وزارت کے فیصلے کرتے وقت سینئر ورکرز کی قربانیوں کو سامنے رکھنا ہو گا۔

تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق عمران خان کو بھی اسی وجہ سے قائل کیا گیا ہے کہ وزارت اعلیٰ کے حوالے سے فیصلہ کرتے وقت احتیاط کریں، ایسا نہ ہو کہ صوبے میں پارٹی کو نقصان پہنچے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مشورے کے بعد عمران خان نے مشاورت کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔