چیف جسٹس صاحب قدم بڑھائیں

چیف جسٹس کے جذبے سے متاثر ہوکر اپنی حیثیت کے مطابق عطیات دے رہے ہیں لیکن بھاشا ڈیم محض عطیات سے نہیں بن سکتا۔


Zaheer Akhter Bedari August 02, 2018
[email protected]

بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتے ہیں، ایسا ہی ایک مسئلہ پانی کی شکل میں پاکستان کے 21 کروڑ شہریوں کے سامنے کھڑا ہے ۔ یہ مسئلہ اچانک ہمارے سامنے نہیں آیا بلکہ عشروں سے اس سنگین مسئلے کی سنگینی کا احساس کیا جا رہا ہے ۔

اس حوالے سے کالاباغ ڈیم بنانے کی تجویز سامنے آئی تھی لیکن صوبوں کے درمیان عدم اعتماد کی وجہ سے اس منصوبے کو ترک کرنا پڑا ۔ پختونخوا اور سندھ کے سیاسی وڈیرے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے اس قدر حساس ہیں کہ فرماتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہی بنایا جاسکتا ہے جب دونوں صوبے اس مسئلے پر اس قدر ٹچی ہیں تو سب سے پہلے عوام کے سامنے اس کے نقصانات کا جائزہ پیش کرنا چاہیے تاکہ عوام کو بھی احساس ہوکہ واقعی اس ڈیم کے کس قدر سنگین نقصانات ہیں لیکن ماسوائے کالا باغ ڈیم بننے سے پختونخوا کے کچھ علاقے زیر آب آجائیں گے کوئی اور وجہ عوام کے سامنے نہیں رکھی گئی ۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم بن گیا تو چھوٹے صوبے محتاج ہوکر رہ جائیں گے، اگر یہ عذر درست ہے تو پھر ہماری قومی یکجہتی اور صوبوں کے درمیان '' اعتماد '' کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اب دبے دبے انداز میں شور مچایا جا رہا ہے کہ آنے والے عرصے میں پانی کا مسئلہ بہت سنگین صورت اختیار کرنے والا ہے لیکن اس ملک کے لٹیرے اور عوام دشمن حکمران طبقات اس مسئلے کی سنگین صورتحال کا ادراک کرنے کے لیے تیار نہیں۔

قومی اداروں کو اپنے دائرہ کار میں رہنے کی وارننگیں دینے والے سورماؤں نے اپنے دائرہ کار میں آنے والے مسائل پر کبھی توجہ دینے کی کوشش نہیں کی ۔کالا باغ ڈیم کا نظریہ عشروں پہلے پیش کیا جاچکا تھا اگر کالا باغ ڈیم کو متنازعہ بنادیا گیا تھا تو ماہرین نے اس کا متبادل بھاشا ڈیم کی شکل میں پیش کیا تھا لیکن قوم کے لیڈروں کو بھاشا ڈیم پر غور کرنے کی فرصت ہی نہیں تھی کیونکہ وہ اپنے ''دائرہ کار'' میں آنے والے ضروری ڈیموں کی تکمیل میں مصروف تھے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس باہر نکل کر عوامی مفاد کے ایسے کام کر رہے ہیں جنھیں کرنا حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ بھاشا ڈیم کے لیے عوام سے عطیات وصول کرنے کی مہم بھی چیف جسٹس ہی چلا رہے ہیں حالانکہ یہ کام بھی حکومتوں کا ہے۔

پانی جیسے زندگی اور موت کے مسئلے کو نظرانداز کرکے ہمارے اہل سیاست دھاندلی کا پرانا راگ ایک بار پھر الاپ رہے ہیں ۔ ان میں وہ مقدس بزرگ پیش پیش ہیں جو ہمیشہ اقتدار کے سمندر میں مچھلی بن کر رہتے ہیں اور اس بار عوام نے انھیں اقتدارکے سمندر سے باہر نکال پھینکا ہے تو وہ پانی کے بغیر مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیں اور اپنے سادہ لوح معتقدین کو بہکا کر سڑکوں پر لانے کی یہ سوچے بغیر کوشش کر رہے ہیں کہ اس غلطی کا انجام کیا ہوگا ؟

دھاندلی کی مخالفت کرنے والے ان چیمپئنوں کو اس وقت ہوش نہیں آیا تھا، جب 2013 میں دھاندلیوں کا ریکارڈ توڑا جا رہا تھا۔ اب دھاندلی کے شور سے آسمان کو سر پر اس لیے اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستان کے عوام نے اس بار اس رقیب رو سیاہ کو حکومت کا مینڈیٹ دیا ہے جو تقدس مآب لوگوں کے اعمال بھرے بازار میں منظر پر لے آتا ہے۔ کیا ان تقدس مآب حضرات کو احساس ہے کہ پانی کا مسئلہ ملک کے اکیس کروڑ عوام کے سروں پر تلوار کی طرح لٹک رہا ہے؟

1972 سے کچھ مختصر وقوف کے علاوہ سیاست کار جنھیں اب عوام سیاہ کار کہنے لگے ہیں اقتدار میں ہیں ۔ باشعور اور عوام کے مستقبل پر نظر رکھنے والے حکمران جب اقتدار سنبھالتے ہیں تو سب سے پہلے وہ اہم قومی مسائل کا تعین کرتے ہیں پھر انھیں حل کرنے کی حکمت عملیاں بناتے ہیں، کیا پانی کے قحط کا مسئلہ اہم قومی مسائل میں شامل نہیں تھا؟ اگر تھا تو اس مسئلے کو حل کرنے کی کیا کوششیں کی گئیں؟ سابق حکمران پرویز مشرف کو مستقبل میں پانی کے پیش آنے والے قحط کا اندازہ تھا وہ شہر شہر پھرتے رہے کہ پانی کا کوئی حل تلاش کیا جائے لیکن ایک دوسرے پر اعتماد نہ کرنے والے سیاستدانوں نے پرویز مشرف کی کوششوں کو ناکام بنادیا اگر کالا باغ ڈیم سے خطرہ تھا تو بھاشا ڈیم پر کام کیوں نہیں کیا گیا؟

ڈھٹائی کی انتہا ملاحظہ ہوکہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں ایک باعمل شخص کو عوام نے اپنا حکمران چنا ہے وہ کہہ رہا ہے کہ میری پہلی ترجیح پانی ہے۔ اس بندے کے راستے میں اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی ایسے گھٹیا مسائل پر ہنگامہ آرائیوں کی تیاری ہو رہی ہے جس کا قومی مفاد سے کوئی تعلق نہیں لیکن الزامی سیاست کے ماہر کسی نہ کسی طرح اس مڈل کلاس کو حکومت کرنے سے روکنا چاہتے ہیں کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ یہ ملنگ لوٹ مار کی روایتی سیاست کرنے کے بجائے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرے گا اور اگر وہ عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو پھر مستقبل میں اشرافیہ راندۂ عوام ہوکر رہ جائے گی۔

ہمارے چیف جسٹس بھاشا ڈیم بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن بھاشا ڈیم ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے جس کے لیے اربوں روپے درکار ہیں۔چیف جسٹس کے جذبے سے متاثر ہوکر اپنی حیثیت کے مطابق عطیات دے رہے ہیں لیکن بھاشا ڈیم محض عطیات سے نہیں بن سکتا ہماری اشرافیہ بینکوں سے دو کھرب سے زیادہ قرض لے کر دبک گئی ہے، اگر چیف جسٹس ان قومی مجرموں سے دوکھرب سے زیادہ ہڑپ کیا ہوا قرضہ وصول کرالیں تو بھاشا ڈیم آسانی سے بن سکتا ہے اور قرض کی وصولی سپریم کورٹ ہی کرا سکتی ہے ۔ چیف صاحب قدم بڑھائیں عوام آپ کے ساتھ ہیں۔

مقبول خبریں