میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

 اتوار 5 اگست 2018
سانحہ کوئٹہ کی دوسری برسی پر ایک شہید وکیل کے والد کی تاثراتی تحریر۔ فوٹو: فائل

سانحہ کوئٹہ کی دوسری برسی پر ایک شہید وکیل کے والد کی تاثراتی تحریر۔ فوٹو: فائل

وقت کا کام اپنے طے شدہ انداز کے مطا بق گزرنا ہے اور یہ گزرتا ہے مگر صدمات، حادثات اور سانحات کے لحاظ سے یہ اجتماعی اور انفرادی طور پر مختلف کیفیا ت پیدا کرتے ہوئے گزرتا ہے۔آج جب سانحہ کوئٹہ 8 اگست 2016 ء کو گزرے دو برس ہو چکے ہیں تو عام لوگوں کے لیے شائد کل کی بات ہو لیکن وہ جن کے شہید وکلا سے محبت بھرے تعلق اور رشتے تھے ان کے لیے یہ دو برس درد اور کرب کی دو صدیوں سے کم نہیں ہیں۔

اس سانحے میں میرا اکلو تا جواں سال بیٹا سید ضیاء الدین ایڈووکیٹ بھی 72 افراد کے ساتھ شہید ہوا تھا جن میں صحافیوں اور دیگر افراد کے علاوہ 54 وکلا شامل تھے۔ ان میں ضیاء الدین کے کالج فیلو عسکرخان ایڈووکیٹ اور ایمل خان ایڈووکیٹ بھی شامل تھے۔ دہشت گردوں نے اس سانحے کے لیے بھی ایسی ہی منصوبہ بندی کر رکھی تھی جیسے اس سے قبل بھی کوئٹہ کے سنڈے من سول ہسپتال میں ہوئی تھی جس میں بہت سے لوگ شہید ہوئے تھے۔

8 اگست 2016 ء کو میرا بیٹا معمول کے مطابق گھر سے عدالت گیا تھا اور میں ہمیشہ کی طرح فجر کی نماز پڑھنے کے بعد اور ناشتے سے فارغ ہو کر کچھ دیر کے لیے آرام کر نے لگا۔ میرا یہ شیڈول واپڈا سے بطور ایکس ای این ریٹائرمنٹ کے بعد ہی سے ہے، تھوڑی ہی دیر بعد اطلاع ملی کہ ملک بلال انور کانسی ایڈووکیٹ پرنسپل لاکالج کو ان کے گھر کے قریب منو جان روڈ پر نشانہ بنا یا گیا ہے۔ وہ حسبِ معمول کالج جانے کے لیے نکلے تھے کہ گھر کے قریب ہی گھات لگائے بیٹھے ہو ئے دہشت گردوں نے ان کو نشانہ بنایا اور بیک وقت کئی گولیاں ان کے جسم میں اتر گئیں۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اسی وقت موقع پر شہید ہوچکے تھے اور شائد وہاں پر جن لوگوں نے شور شرابہ کرکے یہ کہا کہ ان کو فوراً سنڈے من سول ہسپتال پہنچاؤ ان میں سے بھی کچھ افراد ان دہشت گردوں میں غالباً شامل تھے کیو نکہ ایک جانب ملک بلال انور کانسی جن پر حملے کی اطلاع صرف تین منٹ میں ڈسٹرکٹ کورٹ، سیشن کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ میں پہنچی جن کی عمارتیں کو ئٹہ شہر میں قریب قریب ہیں، کہ ملک بلا ل انور کانسی قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہیں اور ان کو سول ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے تو دوسری جانب منصوبے کے مطابق خودکش حملہ آور پہلے ہی سے شعبے حادثات میں اس کھلی جگہ پر موجود تھا جہاں وکلا یہ خبر سن کر جمع ہو رہے تھے۔

ملک بلال انور کانسی کی شخصیت ہی ایسی تھی کہ ایک تو ان کا خاندانی پس منظر ایسا ہے کہ یہ بلو چستان کے معرف سیاسی علمی خاندانوں میں شامل ہے تو ساتھ ہی خود بلال انور کی شخصیت خصوصاً بلو چستان میں قانون کے شعبے میں ایک لائق ایڈووکیٹ اور ماہر قانون کے طور پر برسوں سے مستحکم تھی۔ وہ کئی مر تبہ بلوچستا ن بار ایسو سی ایشن کے رکن منتخب ہوئے اور شہادت کے وقت تک وہ بلو چستا ن بار کونسل کے نائب چیئرمین تھے۔ وہ سپریم کورٹ کے رجسٹرڈ ایڈووکیٹ کی حیثیت سے بھی ایک نہایت کامیاب وکیل کی شہرت رکھتے تھے پھر ان کی شخصیت ان کے اخلاق، میل ملاپ کی وجہ سے اتنی پر کشش تھی کہ ہر وہ شخص جو ان کا واقف تھا ان کو دوست سمجھتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی ان پر قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہونے کی اطلا ع ملی تو صرف چند منٹوں میں ان تینوں عدالتوں سے بھاگتے دوڑتے وکلا ہسپتال پہنچ گئے اور پھر سینکڑوں وکلا اورصحافیوں اور دیگر افراد کے کھچا کھچ ہجوم کے بالکل درمیان میں خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے ُاڑا دیا۔

دھماکہ خیز مواد اتنا طاقتور اور اتنا زیادہ تھا کہ اس سے وہاں مو جودافراد فضا میں کئی کئی فٹ اچھل کر دور دور تک بکھر گئے۔ یوں دیکھا جائے تو برصغیر کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا ایک ایسا سا نحہ ہے جس میں ایک ہی وقت میں اتنی بڑی تعداد میں وکلا شہید اور زخمی ہو ئے، اور جہاں تک تعلق بلوچستان کا ہے تو یہ صوبہ پہلے ہی تعلیمی اعتبار سے ملک کے دوسرے صوبو ں سے بہت پیچھے ہے جس کی ایک اہم وجہ یہاں کی غربت اور پسماندگی ہے ملک کے کل رقبے کے43% علاقے پر مشتمل اور ملک کی صرف چھ فیصد آبادی کے حامل صوبے کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے وسیع رقبے پر یہ کم آبادی بکھری ہو ئی ہے اس لیے اندرون بلوچستان ہائی اسکول کی سطح پر بھی تعلیم کا حصول مشکل ہوتا ہے، یہاں قانون کے شعبے میں اتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ماہرین قانون اور وکلا کا اس دنیا سے گزر جانا جہاں ایک سانحہ ہے وہاں صوبے کی تعمیر وترقی کے اعتبار سے بھی ایک عظیم نقصان ہے اور یہ بالکل حقیقت ہے کہ یہ خلا برسوں میں پُر نہیں ہو گا۔

ان شہید وکلا میں سے 95% ایسے تھے جو ہائی کورٹ کے رجسٹرڈ ایڈووکیٹ تھے او ر کچھ تو انہتائی سینئر، تجربہ کار اور بہترین قانون دان تھے اور سپریم کورٹ کے رجسٹرڈ ایڈووکیٹ تھے ان میں سے باز محمد خان ایڈووکیٹ جن کا نہ صرف تعلیمی ریکارڈ بہت نمایاں تھا تو ساتھ ہی وہ قانون کے شعبے میں بہت تیز ی سے ترقی کرتے آگے بڑھے تھے، شہادت کے وقت ان کی عمر صرف 47 سال تھی اور وہ سپریم کورٹ تک کے ایک کامیاب وکیل تسلیم کئے جاتے تھے، وہ بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے 2007 اور پھر 2009 میں دو مرتبہ صدر منتخب ہوئے،2007 میں جب وکلا تحریک چلی تو انہوں نے اس کی قیادت کی اور اس جدوجہد میں اہم کردار اد ا کیا۔ 2014 میں وہ بلو چستان بار ایسو سی ایشن کے الیکشن میں نائب صدر اور جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے اور 2015 میں ان کے پینل نے بلوچستان ہائی کورٹ بار میں اہم کامیابیاں حاصل کیں اور وہ اب نہ صرف بلوچستان بلکہ قومی سطح پر قانون کے شعبے میں ایک اہم شخصیت بن چکے تھے۔

اسی سانحے میں شہید ہونے والے محمد قاہر شاہ ایڈووکیٹ تھے، وہ بھی تقریباً باز محمد خان ہی کے ہم عمر تھے۔ وہ بھی نہ صرف سپریم کورٹ کے وکیل تھے بلکہ بار میں بھی بہت متحرک کردار ادا کر رہے تھے۔ 2015 میں وہ بلوچستان بار کے رکن منتخب ہوئے اور پھر وائس چیرمین بلوچستان بار منتخب ہوئے، محمد داؤد خان کانسی سابق وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر عبدالمالک خان کانسی کے فرزند تھے، شہادت کے وقت ان کی عمر صرف 41 سال تھی اور وہ سپریم کورٹ کے کامیاب وکیل تسلیم کئے جاتے تھے۔ وہ 2012 میں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے تھے اور 2013 میں بلو چستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔ عبدالغنی مشوانی ایڈووکیٹ بھی سپریم کورٹ کے وکیل تھے، شہادت کے وقت ان کی عمر 44 برس تھی ۔ عبدالرشد کھوکھر57 سالہ نہایت تجربہ کار سینئر وکیل تھے اور سپریم کورٹ کے رجسٹرڈ ایڈووکیٹ تھے۔

منظر صدیق ایڈووکیٹ بھی سپریم کورٹ میں وکالت کرتے تھے، شہادت کے وقت ان کی عمر 46 سال تھی۔ ملک فیض اللہ خان ایڈووکیٹ جو 1988 تک ضلع لسبیلہ میں ڈسٹرکٹ اٹارنی بھی رہے، وہ بھی 8اگست کو سانحہ کوئٹہ میں شہید ہو ئے۔ نور اللہ کا کڑ بھی بلو چستان سے سپریم کورٹ کے رجسٹرڈ ایڈووکیٹ تھے،ان کی عمر41 سال تھی۔ قاضی بشیر احمد ایڈووکیٹ بھی سپریم کورٹ کے کامیاب وکیل تسلیم کئے جاتے تھے، وہ مسلسل تین مرتبہ سپریم کورٹ بار پاکستان کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے ان کی عمر 46 برس تھی۔

کوئٹہ کے اس سانحہ میں 92 سے زیادہ وکلاء زخمی ہوئے تھے جن میں تقریباً دس معذور یا جزوی طور پر معذور ہوگئے، میرے بیٹے سید ضیاء الدین کی عمر صرف 26 سال تھی واضح رہے کہ میرے والد اور ضیا الدین کے دادا کو بھی شہید کیا گیا تھا جن کا جرم یہ تھا کے وہ اپنے گاؤں اور علاقے میں خدمت خلق کے اعتبار سے بہت اچھی شہرت رکھتے تھے۔ میری زندگی بھر مجبوری رہی کہ مناسب خاندانی پس منظر کے ساتھ ہمارا گھرانہ کھاتا پیتا گھرانہ ہے میں بھی تعلیم سے فارغ ہو کر فوراً ہی واپڈا میں انجینئر ہوگیا تھا اور ہماری معاشرتی اقدار کے لحاظ سے اس میں عہدے کی تو عزت تھی مگر میں اس عزت کا ہمیشہ سے خواہاں رہا جیسی میرے باپ کی تھی اور جس کو خلق ِ خدا دل سے پیار کرے۔

یوں میں نے اپنے اکلو تے بیٹے کو انجینئر یا ڈاکٹر بنانے یا سی ایس ایس افسر بنانے کی بجائے وکیل بنایا اور اس کو اپنی خواہشات سونپ دیں۔ وہ کوئٹہ کے نزدیک اپنے گاؤں کے لوگوں کی بے لوث مدد کرتا تھا۔ ہم اللہ کی رضا کے سامنے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اس رب کی عنایت تھی اس کی مرضی کہ اس نے وہ عنایت واپس لے لی۔ وہی خدا فرماتا ہے کہ ( اور ہم تم کو آزمائیں گے اولاد اور مال سے، وہ اولاد نہ دے کر بھی آزما تا ہے، اور اولاد دے کر بھی، اور کبھی کبھار اولاد دے کر اور پھر واپس لے کر بھی آزماتا ہے ) شائد میری آزمائش اللہ تعالیٰ نے قسمت میں ایسے ہی لکھی تھی ہرحال میں اس رب کا شکر ہے مگر دل ہے کہ بہت کچھ یاد کرتا ہے۔ شہادت سے صرف ایک سال قبل میرے بیٹے ضیاء الدین کو ایک ایسی بیماری ہوئی کہ جس میں جسم کی رگوں اور نسوں میں ایسے جراثیم چپک گئے کہ اس سے معدے سمیت جسم کے دیگر افعال بری طرح متا ثر ہونے لگے۔

ہنگامی صورت پیدا ہوگئی اور کراچی میں ایک اعلیٰ ہسپتال میں علاج کے لیے گئے تو انہوں نے مشینوں سے ایسے آپریشن کا علاج بتا یا کہ جس میں دباؤ سے رگوں اور نسوں کے پھٹنے کے خطرات 60% اور زندگی کے بچنے کے امکانات 40% تھے اور اس بیماری کا دوسرا کو ئی علاج نہ تھا۔ میرا بیٹا اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کرتا تھا اس نے میری بھی ہمت بندھائی اور اللہ کے کرم سے آپریشن کامیاب رہا۔ شہادت کے وقت میرے بیٹے کی ایک بیٹی ایک سال کی عمر کی تھی اور ایک بیٹی جو شہید کی شہادت کے بعد پیدا ہوئی اس نے اپنے باپ کو نہیں دیکھا۔

یہ درست ہے کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں اب تک ملک بھر میں 65 ہزار افراد سے زیادہ بیگناہ معصوم افراد شہید ہو چکے ہیں لیکن کو ئٹہ میں وکلا کی اتنی بڑی تعداد میں شہادت اور 92 سے زیادہ وکلا کا زخمی ہونا ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ بلو چستان میں اس سانحہ سے قانون کے شعبے میں ایک بہت بڑا خلا واقع ہوا ہے جس کا پُر ہونا بہت مشکل دکھا ئی دیتا ہے۔

بلوچستان کے اپنے مسائل ہیں۔ اس صوبے کو انگریزوں نے بھی اپنے خاص مقاصد کے تحت برصغیر کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں پس ماندہ رکھا اور اس کے بعد بھی اس صوبے کو بہت عرصے تک جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا رہا، یہاں تک کہ اسے 1970 میں صوبے کا درجہ دیا گیا ۔ یہاں پہلی یو نیورسٹی بھی صوبہ بننے کے بعد بنائی گئی، انگر یز اگرچہ یہاں 1839 میں آیا مگر اسے یہاں قدم جمانے میں وقت لگا اور 1878 میں اس نے یہاں کو ئٹہ شہر تعمیر کیا اور پھر1895ء میں یہاں میونسپل کمیٹی بنائی گئی۔

1919ء میں لاہور ہائی کورٹ قائم ہوئی، اسی زمانے میں سندھ اور خیبر پختونخوا میں بھی برطانوی قانون اور عدلیہ کا نظام نافذ العمل ہوا مگر ہمارے ہاں یہ نظام بہت تا خیر سے آیا، ڈسٹرکٹ کورٹ کی سطح پر یہ نظام شروع ہوا اور1935   انڈیا ایکٹ کے بعد تو ہمارے ہاں بھی محترم جسٹس قاضی فائز کے والد قاضی عیسیٰ مرحوم، قا نون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے میدان عمل میں آگئے تھے، لیکن جس طرح دیگر شعبوں میں یہ صوبہ نظر انداز ہوتا رہا اسی طرح آزادی کے بعد بلوچستان کے مقدمات بھی سندھ ہائی کورٹ میں جاتے، صوبہ کا درجہ ملنے کے بعد بھی تقریباً چھ سال بعد 1976 میں بلوچستان ہائی کورٹ کا قیام عمل میں آیا اور چونکہ اس وقت ہائی کورٹ کی اپنی عمارت نہیں تھی اس لیے بلوچستا ن ہائی کورٹ سیشن کورٹ کی عمارت میں 1993 تک کام کر تی رہی۔ اب عر صہ 25 سال سے اس کی اپنی کشادہ اور خوبصو رت عمارت ہے لیکن اس کے باوجود کہ بلو چستان میں عدلیہ کے ادارے ملک کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بہت تاخیر سے متعارف ہوئے۔

بلوچستان سے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار سمیت سپریم کورٹ شریعت کورٹ سمیت بلوچستان سے بہت سے ماہرین قانون جسٹس بنے اور ساتھ ہی ساتھ ملک کے بہت سے نامور وکلا سامنے آئے جنہوں نے نہ صرف بحیثیت ماہرین قانون بہت شہرت حاصل کی بلکہ ان میں سے بہت سے وکلا نے ملک میں جمہوریت ،آئین اور قانون کی بالا دستی کے لیے تاریخی جدوجہد کی اور بہت سی قر بانیاں دیں، چونکہ میری اس شعبے میں بہت زیادہ دلچسپی رہی ہے اس لیے میں نے اپنی تشنہ آرزو کی تسکین کے لیے اپنے اکلوتے بیٹے ضیاء الدین کو ایڈووکیٹ بنایا تھا اور اس سے اور اس کے دوسرے ایڈووکیٹ ساتھیوں سے آئین و قانون، عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ تینو ں کے استحکام اور ان میں توازن اور ترقی کے اعتبار سے گفتگو ہوتی رہتی تھی اور اب بھی نوجونواں اور پرانے ایڈووکیٹ میرے واقف ہیں اور اکثر ان سے میل جول رہتا ہے تو ایسے ہی مختلف مو ضوعات پر بحث ہو تی ہے۔

ان تما م کا مجھ سے اتفاق ہے کہ یہ گروپ جو وکلا شہدا کی صورت میں 8 اگست 2016 ء کو اس دنیا فانی سے کوچ کر گیا یہ تمام کے تما م بہت اہم ذہین، محنتی، بیباک اور قابل وکلا تھے اور ان میں جو سینئر تھے ان کی عمریں بھی ابھی اتنی زیادہ نہیں تھیں، ان میں سے اکثر نے چالیس پینتالیس سال کی عمر میں اپنا مقام و مرتبہ بنا لیا تھا یوں یہ سانحہ، بلوچستان کا ایک عظیم نقصان ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچستان حکومت اور وفاقی حکو مت اور اس کے اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ اس وقت سپریم کورٹ اور ملک کے تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اور دیگر اعلیٰ ججوں نے نہ صرف کوئٹہ آکر تعزیت کی اور زخمی وکلا کی عیادت کی بلکہ شہید وکلا اور زخمی ہونے والے وکلا کے لیے رقوم کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ ان کو ان رقوم کی فوری ادائیگی کے لیے بھی کامیاب کوششیں کیں، یہ درست ہے کہ بعض شہید وکلا کے اہل خانہ کو اب تک امدادی رقوم کی ادائیگی نہیں ہو سکی ہے مگر اس کی وجوہات ان شہدا کے اہل خانہ میں سے ایک سے زیادہ کا دعویدار ہونا ہے اور یہ مسائل بھی باہمی طور پر اب حل ہوتے جا رہے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ بھی درست ہے کہ شہدا کے بچوں کی تعلیم میں بھی سہولتیں دی گئی ہیں، لیکن بہت سے ایسے اقدامات جو اس وقت شہدا کے ورثا کے لیے کئے گئے تھے ان پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوا، اس وقت کے وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا تھا کہ شہید ہونیوالے تمام وکلا کے پسماندگان کو مکا نات تعمیر کرکے دئیے جائیں گے اور ان کے لیے اسی وقت چار ایکڑ سرکاری اراضی بھی رکھ دی گئی تھی مگر اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ زمین کہاں ہے اور اس پر کب مکانات تعمیر کئے جائیں گے اور کب ان کی الاٹمنٹ ہوگی۔ اسی طرح ا ُس وقت حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ شہید وکلاء کے پسماندگان کے لیے صحت کے شعبے میں مفت اور معیاری علاج معالجے کی سہولتیں میسر ہو ں گی اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔اگرچہ اس سانحہ کے فوراً بعد ہر ایک نے اپنے دکھ کا اظہار کیا تھا لیکن سپریم کورٹ کے جسٹس محترم قاضی عیسیٰ جو بلوچستان ہی کے سپوت ہیں اور وہ بلوچستان ہائی کورٹ میں بھی جسٹس رہے ہیں ۔

اس لیے ان شہید وکلا میں سے، وہ اپنے اُن بہت سے ساتھیوں کو بہت قریب سے جانتے تھے جو وکالت کے زمانے میں ان کے ساتھی اور دوست رہے، پھر بہت سے ایسے نو جوان ایڈووکیٹ تھے جو بطور وکیل ان کے سامنے مقدمات میں پیش ہوتے رہے تھے، ان وکلا کا تعلق پورے بلوچستان یعنی تربت سے ژوب تک تھا۔ یوں جب یہ سانحہ رونما ہوا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ایک تحریر ملک کے تمام اہم اخبارات میںشائع ہوئی جس کا عنوان تھا( شہدا کے ورثا اور غازیوں کے نام۔اگر میری آنکھیں آبشار ہوتیں ) یہٍ تحریر ایک تقریبا 700 الفاظ پر مشتمل تھی لیکن ایک ایک لفظ ہزار ہا آنسوؤں میں ڈوبا ہوا تھا اور واقعی اپنے عنوان،،اگر میری آنکھیں آبشار ہو تیں کی عکاسی کر رہا تھا،، ۔ اس کے بعد قاضی فائز عیسیٰ ہی کی نگرانی میں8 اگست2016 کے سانحہ پر تحقیقاتی کمیشن قائم کیا گیا جو از خود یعنیSuomoutu,, ،،6  اکتوبر2016 پر قائم ہوا تھا اس انکوائری کمیشن نے 110 صفحات پر رپورٹ مرتب کی جو دسمبر 2016 کو سپریم کورٹ میں پیش کردی گئی۔ اس وقت شہدا کے ورثا یہ چاہتے ہیں کہ اس رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلاف کاروائی ہو،کیو نکہ شہدأ کی روحیں بزبان مصطفی زیدی یہ سوال کرتی ہیں اور کرتی رہیں گی ۔

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

سید عبد الرب آغا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔