اپوزیشن اتنی پریشان کیوں ہے؟

محمد جاوید قریشی  بدھ 8 اگست 2018
کوئی رات کو خواب میں اٹھ کر اپوزیشن اجلاس بلانے اور انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کررہا ہے تو کوئی نومنتخب حکومت کو سبق سکھانے کی باتیں کررہا ہے۔ آخر یہ خوف کس بات کا ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کوئی رات کو خواب میں اٹھ کر اپوزیشن اجلاس بلانے اور انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کررہا ہے تو کوئی نومنتخب حکومت کو سبق سکھانے کی باتیں کررہا ہے۔ آخر یہ خوف کس بات کا ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آزمائش تو آپ دونوں کےلیے ہے۔ جہاں نظام انتخاب نے اپوزیشن کو دھوکا دیا، وہیں تحریک انصاف کےلیے بھی آزمائش بنا ہے۔ نظام انتخابات نے پچھلی کئی دہائیوں سے مسلط اشرافیہ اور کرپٹ مافیہ کو مکھن سے بال کی طرح اگر نکال پھینکا ہے تو ساتھ ہی ساتھ تبدیلی کے علمبردار اور روایتی سیاست سے بیزار عمران خان کو بھی تو مجبور اور بےبس بنا کر روایتی ہتھکنڈے استعمال کرنے پر مجبور کیا ہے! پھر اپوزیشن اتنا تلملا کیوں رہی ہے؟

آپ کا نظام، آپ کا گھر، آپ کی بیٹھک، آپ کی مجلس گاہ، پارلیمنٹ اور نظام تو قائم و دائم ہیں۔ اتنے پریشان ہورہے ہیں جیسے نظام بدل گیا ہو۔

وہی الیکٹیبلز ہیں، وہی وننگ ہارسز ہیں، وہی حکومت سازی کے ہتھکنڈے ہیں، وہی چہرے ہیں، وہی دولت کی ریل پیل ہے۔ صرف اقتدار چھن جانے کا اتنا غم کہ چین سے بیٹھا بھی نہیں جارہا۔ کوئی رات کو خواب میں اٹھ کر اپوزیشن اجلاس بلانے اور انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کررہا ہے تو کوئی نومنتخب حکومت کو سبق سکھانے کی باتیں کررہا ہے۔ آخر یہ خوف کس بات کا ہے؟

کہیں نظام کے بدلنے کے آثار تو نظر نہیں آرہے؟ تاریخ میں پہلی بار حضرت مولانا صاحب کو بھی اتنا پریشان دیکھا جا رہا ہے۔ میاں شہباز شریف سے تو بات نہیں ہو پارہی، البتہ پیپلزپارٹی اندر سے خوش اور بظاہر فکرمند دکھائی دیتی ہے۔ جماعت اسلامی والے اپنی حاضری لگوانے تک محدود دکھائی دے رہے ہیں۔ اے این پی کا ہونا نہ ہونا برابر رہ گیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا حضرت مولانا اس مایوس اپوزیشن سے مطلوبہ نتائج حاصل کر پائیں گے؟

میں اس لڑائی کو ذاتی لڑائی میں بدلتے دیکھ رہا ہوں۔ اس اپوزیشن لڑائی کو شدت پسندی، انتہاء پسندی اور بالآخر دہشت گردی میں بدلتے دیکھ رہا ہوں۔ اپوزیشن میں جان باقی نہیں رہی، عوام اس مکسچر کا حصہ نہیں بنیں گے۔ آخر اپنے چند ایک شدت پسند فالورز کے ذریعے اپنے مقاصد کے حصول کےلیے شدت پسندی یا دہشت گردی سے اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے کی کوشش ہوگی۔

مگر بدنصیب و بدقسمت اپوزیشن اپنے اس حربے سے بھی اپنے مقاصد حاصل نہ کر پائے گی۔

اس وقت پوری اپوزیشن میں سب سے زیادہ فکرمند حضرت مولانا فضل الرحمن نظر آ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے ان سے ایم این اے کی سیٹ نہیں بلکہ کسی نے زندگی کی سانسیں مانگ لی ہوں؛ اور وہ اپنی زندگی بچانے کےلیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہوں۔ مولانا صاحب! گزشتہ تین چار دہائیوں میں اللہ پاک نے آپ کو خوب مواقع عطا کیے، کھلی چھوٹ دی مگر آپ نے خود کو پارلیمنٹ اور ایم این اے ہاسٹلز تک ہی محدود رکھا۔ برسوں تک چیئرمین کشمیر کمیٹی رہے مگر کشمیر لٹتا ہی رہا، کبھی آپ نے مسئلہ کشمیر ہی کو عالمی سطح پر ہائی لائٹ کرنے کی کوشش تک نہ کی۔ آپ سالانہ دیوبند کانفرنس کروانے میں تو پیش پیش رہے مگر کبھی اس معیار کی کشمیر کانفرنس کی توفیق نہ ملی آپ کو کہ چلو ایک کانفرنس ہی کے ذریعے کشمیر کے مسائل کو اجاگر کر دیتے۔

آپ نے اپنے خاندان کے اقتدار تک پہنچنے کےلیے راہ تو ہموار کی مگر اسلام کو اسمبلی تک پہنچانے کےلیے کبھی آپ کی کوئی جاندار آواز نہ سنائی دی۔

آپ دیوبند کانفرنسیں تو کرواتے رہے، مگر جب لال مسجد سے ریاست کے خلاف آواز اٹھی تو آپ نے اپنے ان بچوں کو سمجھانے کی کوشش نہ کی۔ اگر سمجھانے کا وقت نہیں ملا تو جب وہ بالکل ریاست کے آمنے سامنے آگئے، جنگ جیسا ماحول بن گیا تو، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ریاست سے ایک محدود سا گروہ لڑ نہیں سکتا اور سب مارے جائیں گے، آپ اپنے ہی مکتبِ فکر کے بچوں کو (جو آپ کو ایک روحانی سرپرست کے طور پر دیکھتے تھے) حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر لندن جا بیٹھے۔

مولانا صاحب! آپ نے نہ تو ملک کی اور نہ ہی اپنے مکتب فکر کی کوئی خدمت کی۔ اگر آپ کی وجہ سے آپ کے مکتب فکر کے کسی طالب علم کو محکمہ اوقاف میں نوکری مل گئی تو وہ اتنی بڑی خدمت نہیں جس پر آپ کی لال مسجد پر مجرمانہ خاموشی کو لوگ بھول جائیں۔ آپ کو آج غشی کے جو دورے پڑ رہے ہیں، یہ وہ گرہیں ہیں جو آپ نے خود اپنے ہاتھوں سے لگائی ہیں۔

حضرت مولانا صاحب! جان لیجیے کہ آگے چل کر کچھ ہی عرصے میں آپ کے اپوزیشن کے ساتھی بھی آپ کو چھوڑ جائیں گے اور آپ ڈیرہ اسماعیل خان کی کسی ڈسپنسری میں اپنے دل کے ٹیسٹ کرواتے پھر رہے ہوں گے۔ مگر وہاں سے آپ کے دل کو مزید بے قراری ملے گی۔ کیوں؟

اس لیے کہ آپ نے کئی سال تک اپنے والدِ محترم مفتی محمود کا نام بیچا۔ آپ نے مسلک کا نام بیچا۔ آپ نے دین کے نام پر، اسلام کے نام پر اسلام آباد کی طلب میں تمام حدود پار کرلیں۔ لیکن اگر کچھ نہیں کیا تو اسلام اور مسلمانوں کےلیے کچھ نہیں کیا۔

آپ کی ناک کے نیچے طالبانائزیشن پروان چڑھتی رہی اور آپ نے اس کے نتائج کا ادراک نہ کیا۔ آپ کا صوبہ خون میں نہاتا رہا، لوگ شہید ہوتے رہے؛ آپ کردار ادا کرکے اس دہشت گردی کا توڑ کرسکتے تھے مگر خاموش رہے۔ افغانستان میں ملا عمر کی اسلامی ریاست پامال ہوئی، وہاں شدت پسندی پروان چڑھتی رہی، لیکن آپ نے اثر و رسوخ ہونے کے باوجود کردار ادا نہ کیا۔ عالم کفر افغانستان کے راستے پاکستان کے سر پر آبیٹھا لیکن آپ کی غفلت و لاپروائی نے پاکستان کو کئی سال تک مسلسل آزمائشوں سے دو چار رکھا۔ اس سب کے باوجود، مولانا صاحب آپ اسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اپوزیشن کی قیادت کرتے ہوئے آپ ایک بار پھر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جائیں گے۔

چھوڑیئے مولانا صاحب چھوڑیئے! بس کیجیے! اب مزید اس سے آگے شرمندگی، ذلت اور پشیمانی کے سوا کچھ نہیں۔ آپ کا دور گزر گیا، اب آرام فرمایئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد جاوید قریشی

محمد جاوید قریشی

بلاگر پیشے کے اعتبار سے بینکار ہیں اور ایک نجی مقامی بینک میں لیبر یونین کی نمائندگی بھی کرتے ہیں تاہم لکھنے پڑھنے کا شوق بھی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔