میری آواز اگر تم تک پہنچے
خبر آئی کہ وہ قتل ہوگیا ہے تو مجھے یقین نہیں آیا۔ پروین رحمان کے قتل ہونے کی خبر پر بھی میں سکتے کے عالم میں...
خبر آئی کہ وہ قتل ہوگیا ہے تو مجھے یقین نہیں آیا۔ پروین رحمان کے قتل ہونے کی خبر پر بھی میں سکتے کے عالم میں بیٹھی رہی تھی۔ وہ لوگ جو دوسروں کے کام آتے ہیں، انھیں قتل کرنے والے کیسے ہوتے ہیں؟ کون ہوتے ہیں؟ مجھے بہت سی باتیں یادآنے لگیں۔
نومبر 2011 کی سنہری شام ڈھاکا شہر پر اپنا سونا لٹا رہی ہے۔ سائوتھ ایشین پیپلز فورم کا گیارہواں اجلاس اس شہرمیں ہورہا ہے جو بنگلہ دیش کا دارالحکومت ہے۔ فورم کے اجلاس میں شرکت کے لیے سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات، اساتذہ، سینیٹر، این جی او سے وابستہ افراد اور اداکار سب ہی شامل ہیں۔ 100 سے زائد افراد پر مشتمل اس پاکستانی وفد کی ڈھاکا آمد اور اس کی میزبانی کا اہتمام پائیلر کے کرامت علی نے بنگلہ دیش کے دوستوں کے ساتھ مل کر کیا ہے۔
نوجوانوں کے پیر زمین پر نہیں پڑتے۔ وہ اترا کر چل رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جنھوں نے کبھی پاکستان سے باہر قدم نہیں رکھا۔ اور اب ایک ایسے ملک میں آئے ہیں جو کبھی ان کا اپنا تھا۔ بنگلہ دیش کی پیدائش کے خونیں واقعات سے یہ نوجوان واقف تو ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ یکم مارچ 1970 سے 16 دسمبر 1970 تک اس خطۂ ارض پر کیا گزری تھی جسے مغربی پاکستان کی فوجی اور سول نوکر شاہی نے 14 اگست 1947 سے اپنی نوآبادی تصور کیا تھا اور اس کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا تھا جو فاتح، مفتوحین کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔
18 نومبر کی سہ پہر، شام میں بدل رہی ہے۔ آسمان نیلا ہے اور دھوپ میں تپش اور تیزی نہیں، ڈھاکا کی سڑکیں ہیں اور ہمارے تیز تیز اٹھتے ہوئے قدم ہیں۔ ''دنیا کے مزدورو ایک ہوجائو، دکھنی ایشیا کے لوگو ایک ہوجائو'' کے نعرے ہیں ''چلتے چلو، بڑھتے چلو'' سرخ جھنڈے ہیں، ان کی پھڑپھڑاہٹ سن کر نیچی اڑان بھرتے ہوئے پرندوں کا گمان گزرتا ہے۔ بسیں، گاڑیاں، سائیکل رکشے، پیدل چلنے والے جلوس کو راستہ دے رہے ہیں اور جلوس انھیں۔ ہمارا جتھا شہید مینار کا رخ کرنے والے جلوس کا ہر اول دستہ ہے۔
ہماری انگلیاں اس بڑے بینر کو تھامے ہوئے ہیں جس پر ''سائوتھ ایشیا پیپلز فورم'' کا نام اور نعرہ لکھا ہے۔'' ایک نیا دکھنی ایشیا ممکن ہے۔'' اس ہر اول دستے میں پائیلر کے کرامت علی اور پاکستانی ٹریڈ یونین کے مختلف لوگ اپنے بنگالی دوستوں کے ساتھ چل رہے ہیں جن میں بہت بڑی تعداد عورتوں اور لڑکیوں کی ہے۔ اور پھر شہید مینار نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔ میں اس یادگار کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتی ہوں اور میری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ شہید مینار کے شہ نشین پر بہت بڑا اسٹیج بنا ہوا ہے جس پر دریاں بچھی ہوئی ہیں۔ کرسیوں کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ ''ایک نیا دکھنی ایشیا ممکن ہے'' سرخ کپڑے پر نقش ہے۔ اسٹیج، میدان، پیڑ، ان کی سرسبز شاخیں، جھنڈیوں اور قمقموں سے سجی ہوئی ہیں۔ ہر طرف بڑے بڑے بینر لگے ہوئے ہیں۔ وہ میدان تقدس اختیار کرچکا ہے، جہاں 1952 میں بنگلہ کو قومی زبان کا درجہ دینے کا حق مانگنے والے 4 بنگالی بولنے والے پاکستانی نوجوانوں کا خون گرا تھا۔
ابھی جلسہ شروع ہونے میں کچھ دیر ہے۔ سجا ہوا اور جھنڈیوں کی پھڑپھڑاہٹ سے گونجتا ہوا اسٹیج ابھی خالی ہے۔ مختلف ٹکڑیاں اسٹیج جاکر اپنی تصویریں بنوا رہی ہیں۔ کچھ نوجوان میرے ساتھ تصویریں اتروانے کے خواہاں ہیں۔ کیمروں کے فلیش چمک رہے ہیں۔ میں اسٹیج سے اترنا چاہتی ہوں کہ ایک نوجوان میری طرف بڑھتا ہے۔ 'میڈم اگر آپ اجازت دیں تو۔' میں رک جاتی ہوں۔ اس کا کوئی دوست کیمرہ درست کرنے لگتا ہے، روشنی نگاہوں کو خیرہ کرتی ہے اور وہ لمحہ آنکھوں میں مقید ہوجاتا ہے۔
اس وقت میں کیسے سوچ سکتی تھی کہ اس بالاقامت نوجوان کی مٹھی سے زندگی کی ریت تیزی سے پھسل رہی ہے۔ کوئی وقت جاتا ہے کہ وہ مٹی میں جا سوئے گا اور اس کے دوستوں کے پاس اس کی صرف یادیں اور تصویریں رہ جائیں گی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی کیوں ہوتا کہ وہ گولیوں کا نشانہ بن جائے گا۔ غریب اور محروم علاقے میں فلاح کے کام کرنے، اسکول چلانے، لوگوں کو طبی سہولتیں اور بھوکوں کو کھانا فراہم کرنے کی جزا ہوتی ہے یوں جان لے کر سزا تو نہیں دی جاتی۔
پروین رحمان جو اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر تھیں، مارچ کے مہینے میں اس لیے قتل کی گئیں کہ وہ لینڈ مافیا کی راہ میں رکاوٹ تھیں۔ عبدالوحید کی جان اس لیے گئی کہ وہ خدا کے بندوں سے پیار کرتا تھا۔ ان کے مسائل میں شریک تھا اور اپنی بساط بھر علاقے کے لوگوں کے کام آتا تھا۔ عبدالوحید کے اسکول کا اورنگی پائلٹ پروجیکٹ سے الحاق تھا۔ وہ یونین کونسل 9 کا صدر بھی تھا اور اس کی سیاسی وابستگی پیپلز پارٹی سے تھی۔
بنگلہ دیش سے واپس آنے کے بعد اس سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ کراچی جیسے پھیلے ہوئے شہر اپنے رہنے والوں میں سے اکثر کو مسائل میں اس طرح گرفتار رکھتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے ملنے کے بارے میں سوچتے ہی رہ جاتے ہیں اور کسی ایک کے لیے کوچ کا نقارہ بج جاتا ہے۔
وحید اسی کٹی پہاڑی کے قریب کا رہنے والا تھا جس کے نام سے لوگ کانپ جاتے ہیں۔ یہاں کیسی خونریز لڑائیاں ہوئی ہیں۔ کتنے ہی لاشے یہاں سے اٹھے ہیں ۔ وہ نسلی اعتبار سے پختون تھا لیکن اس کے اسکول میں پشتو، اردو اور پنجابی بولنے والے بچے پڑھتے تھے۔ اس کا اسکول علاقے کا واحد اسکول تھا جہاں معیاری تعلیم دی جاتی تھی۔ روٹری انٹرنیشنل کی شراکت میں اس نے پولیو کے خاتمے کے لیے بھی علاقے میں کام کیا تھا اور وہ آس پاس کے 60 ایسے گھرانوں کو جن کا کوئی والی وارث نہ تھا 2 وقت کا کھانا پکوا کر پہنچاتا تھا۔
وحید کو کس نے اور کیوں قتل کیا؟ کوئی نام سامنے نہیں آئے گا۔ کسی کو سزا نہیں ملے گی۔ جس طرح پروین رحمان اور ایسے ہی درجنوں رضا کاروں کی جانیں گئیں۔ قتل کرنیوالوں میں کوئی قبضہ گیر تھا۔ کوئی بچوں کی تعلیم کو کفر و الحاد کا فروغ سمجھتا تھا اور کسی کا خیال تھا کہ پولیو کے قطرے پلانا حرام ہے۔ قتل ہونیوالے وہ لوگ تھے جن کے بارے میں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ''خون خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہوا۔'' وحید کے تین بچوں اور اس کی بیوہ سے کیا کہا جائے، ایسے ہی سیکڑوں یتیم بچے ہیں، بیوائیں ہیں، ماتم کرتی مائیں ہیں، جن کے بیٹے اور بیٹیاں اس لیے قتل ہوئے کہ وہ خدمت خلق پر یقین رکھتے تھے۔
یہ لوگ انسانیت پر ایمان رکھتے تھے۔ ان کے لیے یہ اہم نہیں تھا کہ کوئی کس نسل سے تعلق رکھتا ہے، کون سی زبان بولتا ہے اور کس مسلک کا ماننے والا ہے۔ ان میں سے اکثر کے لیے اختر حمید خان، عبدالستار ایدھی، ادیب رضوی، چھیپا، سیلانی اور ایسے ہی دوسرے متعدد نام چراغ راہ تھے۔ یہ وہ نام ہیں جنھوں نے کراچی والوں کے اندر امید اور انسانیت کے چراغ جلائے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا سلسلہ نسب کراچی کے ایک بے مثال خدمت گزار جمشید نسروان جی سے ملتا ہے۔ جمشید جی کے بارے میں ان کی زندگی اور ان کے کام سے واقف حسن حبیب نے لکھا ہے کہ ''وہ پاکستان کے انتہائی سچے شہریوں میں شامل تھے۔ ان کا بیشتر وقت ایسے کاموں میں گزرا جن کا تعلق پاکستان میں آنے والے مہاجروں اور دوسرے خستہ حال لوگوں کی حالت میں بہتری لانے سے تھا۔
یہاں تک کہ جس وقت وہ یورپ و امریکا کے سفر پر تھے اور یہ سفر تفریح کی غرض سے نہیں بلکہ ایک بیمار عزیز کے علاج کے سلسلے میں کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی ان کا دل اور دماغ مستقل کراچی کے مہاجروں کے ساتھ رہا جو ان کی متعدد فلاحی سرگرمیوں کا محور تھے۔ امریکا سے میرے نام ایک خط میں انھوں نے کراچی میں شدید بارش کے موسم میں مہاجروں کی حالت زار کے بارے میں اپنا گہرا ملال ظاہر کیا۔ انھوںنے خط میں اپنے اس ذاتی مسئلے کے بارے میں ایک لفظ تک نہ لکھا جس کے باعث وہ سفر پر نکلے تھے۔ بلکہ پورا خط کم لاگت کے مکانوں کی اسکیموں کی تفصیلات سے بھر دیا جن کا وہ بیرون ملک اس غرض سے مطالعہ کررہے تھے کہ ان ہی خطوط پر بے گھر مہاجروں کی رہائش کا کوئی بندوبست کیا جاسکے۔''
جمشید نسروان جی جیسا کوئی شخص پھر کراچی والوں کی زندگی میں نہ آیا جو ان کے مذہب اور مسلک سے تعلق نہ رکھتا ہو اور پھر بھی ان کی فلاح و بہبود کے لیے بے قرار رہتا ہو۔ کراچی والوں کو پروین رحمان، عبدالوحید اور ایسے ہی متعدد لوگوں کے سامنے سر جھکانا چاہیے جو ان کی زندگی سہل بنانے کی خاطر جان سے گزر گئے اور جنھوں نے یہ نہیں سوچا کہ ان کے بعد ان کے بچوں، ان کے گھروں کا کیا ہوگا۔
عبدالوحید میری آواز اگر تم تک پہنچے تو بس یہ یاد رکھنا کہ تم بھی اس شہر ناپرساں کے ایک سچے شہری تھے!