اسٹیپنڈ کیٹیگری محدود کیے جانے پر نوجوان پلیئر ز مایوس
وسائل میں کمی کا بہانہ کرکے حوصلہ شکنی کی گئی،چیئرمین بورڈ نوٹس لے کر مسئلہ حل کرائیں،کرکٹرز کی اپیلا
سینٹرل کنٹریکٹ میں اسٹیپنڈ کیٹیگری صرف9 کرکٹرز تک محدود کیے جانے پر نوجوان باصلاحیت کھلاڑیوں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
ان کے مطابق وسائل میں کمی کا بہانہ کرکے اُبھرتے ہوئے کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی کی گئی، ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ پرفارم کرنے والے محرومی کا شکار ہوکر کھیل میں دلچسپی لینا چھوڑ دیں گے، مستقبل کی امیدیں روشن رکھنے کیلیے نئے ٹیلنٹ کو دی جانے والی مراعات چھیننے کا سلسلہ ختم کرنا ہوگا، کرکٹ بورڈ مالی مسائل کا حل تلاش کرنے کیلیے کھلاڑیوں کی حق تلفی کا راستہ اختیار نہ کرے، دلبراشتہ ہونے والے ملکی میدانوں پر ایکشن میں نظر آنے کے بجائے دیگر ممالک کا رخ کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
انھوں نے چیئرمین ذکا اشرف سے اپیل کی کہ وہ معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے اسے حل کرائیں۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ سال پی سی بی نے سینٹرل کنٹریکٹس کا اعلان کرتے ہوئے21 کرکٹرز سہیل تنویر، خالد لطیف، شرجیل خان، شکیل انصر، حارث سہیل ، رضا حسن، احمد شہزاد، عثمان صلاح الدین، ایوب ڈوگر، عمران خان، بلاول بھٹی، اویس ضیا، شاہ زیب حسن، محمد خلیل، انور علی، آفاق رحیم، بسم اللہ خان، بابر اعظم، سمیع اسلم، ضیا الحق اور عثمان قادر کو ماہانہ وظیفہ کیلیے منتخب کیا۔
اس موقع پرچیئرمین ذکاء اشرف نے کہا تھا کہ ''ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ پرفارم کرنے والوں کو ساتھ لے کر چلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انڈر19کھلاڑیوں کو بھی اسٹیپنڈکیٹیگری میں شامل کیا ہے، اس اقدام سے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور وہ مزید جذبے سے روشن مستقبل کی طرف گامزن ہوں گے''۔ رواں سال ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ پرفارمنس کی بنا پر کئی کرکٹرز اسٹیپنڈ حاصل کرنے کے مضبوط امیدوار ہونے کی بنا پر معاشی مسائل میں کمی کے منتظر نظر آرہے تھے۔
مگر کیٹیگری میں پلیئرز کی تعداد صرف 9 تک محدود کردی گئی، سرفراز احمد، وہاب ریاض، راحت علی، احسان عادل،عمر امین، ذوالفقار بابر، اسد علی، حارث سہیل، انور علی ہی ایسے خوش نصیب ہیں جنہیں ماہانہ71 ہزار 3 سو روپے ماہانہ وصول کرکے معاشی آسودگی حاصل کرنے کا موقع ملے گا، دوسری طرف عبدالرزاق کا متبادل سمجھے جانے والے آل راؤنڈر حماد اعظم گزشتہ سال سی کیٹیگری جبکہ اسپن بولنگ میں پاکستان کا مستقبل سمجھے جانے والے حسن رضا اسٹیپنڈ کے حقدار تھے مگر اس بار دیگر پلیئرز کے ساتھ ان دونوں کو بھی یکسر نظر انداز کردیا گیا۔ سہولت سے محروم رہ جانے والے کئی کھلاڑیوں نے نمائندہ ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بورڈ کے ماہانہ وظائف کا سلسلہ محدود کیے جانے سے ہماری حوصلہ شکنی ہوئی۔
انھوں نے کہا کہ ہر ریجن کے15پلیئرز کو ہر ماہ ملنے والی رقم کو ہی کافی خیال کرلیا گیا تو ڈومیسٹک کرکٹ میں ٹاپ پر آنے کی کوشش کرنے والوں کا جذبہ ماند پڑ جائے گا، عمدہ پرفارم کرنے والے کئی کرکٹرز بھی محرومی کا شکار ہوکر کھیل میں دلچسپی لینا کم کر دیںگے،ایک پلیئر نے کہا کہ چند بڑے نام قومی ٹیموں کے ساتھ اس طرح چپک گئے کہ سلیکٹرز چاہیں بھی تو انھیں نکالنے کی جرات نہیں کرسکتے، کئی ایمرجنگ کرکٹرز ساری عمر موقع ملنے کے انتظار کی کوفت میں مبتلا رہ کر بھی پرفارم کرتے رہتے ہیں، اسٹیپنڈز ان کیلیے اہم محرک تھا جس کی صورت میں اتنی سالانہ رقم ضرور مل جاتی کہ بنیادی ضرورتوں کیلیے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑتے، یہ سہولت بھی نہیں رہی جس کے بعد خدشہ ہے کہ نوجوان کھلاڑیوں کی ہاکی اور دیگر کھیلوں کی طرح کرکٹ سے بھی رغبت کم ہوجائے گی۔
مستقبل کی امیدیں روشن رکھنے کیلیے نئے ٹیلنٹ کو دی جانے والی مراعات چھیننے جیسے اقدامات سے گریز کرنا ہوگا،ایک اور کرکٹر نے کہا کہ کرکٹ بورڈ مالی مسائل کا حل تلاش کرنے کیلیے کھلاڑیوں کی حق تلفی کا راستہ اختیار نہ کرے، دلبراشتہ ہونے والے ملکی میدانوں پر ایکشن میں نظر آنے کے بجائے دوسرے ممالک کا رخ کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، معاہدے ہونے کے باوجود کئی کرکٹرز انگلینڈ میں لیگ کھیلنے صرف اس لیے نہیں جاتے کہ ڈومیسٹک مقابلوں میں عمدہ پرفارم نہ کیا تو سلیکٹرز کسی ٹیم کیلیے زیر غور نہیں لائیں گے، بیرون ملک کھیلنے کے مواقع ضائع کرنے کے بعد اپنے ملک میں کسی قدر نقصان کی تلافی کا ایک امکان باقی تھاجو ختم ہوگیا، ایک اورکرکٹر نے کہا کہ انگلینڈ میں بھاری معاوضہ چھوڑ کر ڈومیسٹک کرکٹ اور تربیتی کیمپ میں شرکت کیلیے آیا۔
ریٹرن ٹکٹ پر ایک لاکھ روپے کے قریب رقم بھی خرچ ہوئی مگر ٹیم میں جگہ نہ بنی، کم از کم کسی حد تک نقصان کی تلافی تو ہونی چاہیے، نئے کنٹریکٹ کے تحت کئی کھلاڑیوں کے وظائف کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا، اب وہ مالی مشکلات کے سبب کھلاڑی بیرون ملک کا رخ کرکے واپس نہیں آنا چاہیں گے، اظہر محمود کی مثال سامنے رکھی جاسکتی ہے جنھوں نے پاکستان کو چھوڑ کر دنیا بھر کی لیگز میں پرفارم کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، نئے ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی سے ہاتھ کھینچنے کا سلسلہ جاری رہا تو مستقبل کے سپر اسٹارز کو آب و تاب دکھانے کا موقع نہیں ملے گا۔ انھوں نے بورڈ کے سربراہ ذکا اشرف سے اپیل کی کہ وہ معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے مزید کھلاڑیوں کو اسٹیپنڈ کیٹیگری میں شامل کرائیں۔