دھاندلی ’’ایسے‘‘ ہوتی ہے

سید محمد مدثر  بدھ 15 اگست 2018
ملک بھر سے مسترد ہونے والے ووٹوں کی تعداد  16 لاکھ 78 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ملک بھر سے مسترد ہونے والے ووٹوں کی تعداد 16 لاکھ 78 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

’’بیٹا! جتوانے کیلئے ووٹ بڑھائے نہیں، گھٹائے جاتے ہیں،‘‘
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کیک پیس اٹھایا، چائے سے لگایا اور منہ میں رکھتے ہوئے کہا، ’’واہ! مزا آگیا!‘‘
’’ماموں وہ آپ الیکشن کا بتارہے تھے،‘‘ میں نے تجسس بھرے انداز میں بات مکمل کرنے کو کہا۔
’’ارے بیٹا! وہ دور گزر گیا جب کسی امیدوار کے ووٹ بڑھانے کیلئے ٹھپے مارے جاتے تھے۔ آج کل اور بہت طریقے ہیں۔ اب پکا کام کرنے کیلئے ووٹ بڑھانے نہیں، گھٹانے کا رواج ہے۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ میرا تجسس مزید بڑھ گیا۔
’’وہ ایسے کہ اگر کسی ایک بیلٹ پیپر پر ایک سے زیادہ انتخابی نشانوں پر مہر لگی ہو تو وہ مسترد ہوجاتے ہیں۔ یہی کام ہم نے بھی اپنے حلقے میں کیا۔‘‘
’’کیوں؟ آپ کا تو کسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں،‘‘ میں نے ان کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔

وہ تھوڑا رکے، کچھ سوچا اور پھر بولے:

’’بیٹا نوکری ہے۔ اوپر سے آرڈرز تھے کہ الف ب جماعت کو جتانا ہے۔‘‘ (یہاں سیاسی جماعت کا نام حذف کرنے کا مقصد کسی پر براہ راست الزام سے اجتناب برتنا ہے۔)

’’ماموں کس کا حکم تھا؟‘‘ میں نے ایک اور سوال کردیا۔

’’تم بتاؤ کس کا ہوگا؟‘‘ انہوں نے اس بار جواب کے بجائے میرے سامنے ہی سوال رکھ دیا۔

میں نے تُکّا لگاتے ہوئے نگراں وزیراعلیٰ کی جانب اشارہ کیا۔ کیوں کہ ان دنوں انہی پر 35 پنکچرز کا الزام تھا۔

تو انہوں نے میرا تُکّا سراسر رد کردیا اور بتایا کہ اس وقت یہ سارے معاملات سیکریٹری خزانہ دیکھ رہے تھے۔ انہیں الیکشن جتوانے کا ٹاسک ملا تھا۔
میں نے پھر پوچھا کہ چیف سیکریٹری نے تو مداخلت نہیں کی۔

’’ارے بیٹا! سب کا کردار پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے۔ حکومت بدلتی ہے، بیوروکریسی نہیں۔‘‘

میرا اپنے رشتے کے ایک ماموں سے یہ مکالمہ پچھلے سال 2017 میں ہوا تھا جب میں ایک شادی میں شرکت کیلئے جنوبی پنجاب کے ایک شہر میں موجود تھا۔

ماموں اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز تھے اور 2013 کے الیکشن میں ریٹرننگ افسر کے فرائض انجام دے چکے تھے۔

ان کی باتیں سن کر میرے دماغ کے خلیے جیسے کھل سے گئے؛ اور میرے منہ سے بے ساختہ نکلا: ’’تو دھاندلی ایسے ہوتی ہے!‘‘

’’بیٹا صرف ایسے ہی نہیں، اور بھی کئی طریقوں سے ہوتی ہے،‘‘ انہوں نے جواب دیا۔ البتہ وقت کی کمی کے باعث انتخابی دھاندلی کے اور طریقوں پر ان سے بات نہیں ہو پائی۔

اصل میں میرے نزدیک ان کی باتیں اس لئے زیادہ حیران کن تھیں کیوں کہ میں کراچی میں ہی پیدا ہوا، یہیں پلا بڑھا تھا اور باقی شہروں کے سیاسی طریقہ کار سے اتنی واقفیت نہیں تھی۔ البتہ کراچی میں پولنگ کیسے ہوتی تھی، اس کا مجھے بخوبی علم تھا، کیوں کہ میں نے بچپن سے اپنے تمام گھر والوں کے ووٹ خودبخود کاسٹ ہوتے دیکھا تھا۔ ابو، امی، دادی، دادا ہر الیکشن میں ووٹ ڈالنے جاتے ضرور تھے لیکن انہیں یہ کہہ کر لوٹا دیا جاتا تھا کہ آپ کا ووٹ ڈل چکا۔

پھر تھوڑے بڑے ہوئے تو سیاسی جماعت کے محلے کے کارکن بھی دوست بن گئے جو اکثر ’’الیکشن ڈے‘‘ کے اختتام پر اپنا انگوٹھا دباتے اور یہ کہتے دکھائی دیتے تھے کہ ہائے یار! انگوٹھے لگا لگا کر انگوٹھا ہی دکھ گیا ہے!

ایسا نہیں کہ ان باتوں کا ذکر میں نے اس گفتگو میں ماموں کے ساتھ نہیں کیا۔

اس پر ان کا جواب یہ تھا کہ بیٹا ’’یہ کچے کھلاڑیوں کے کام ہیں۔ انگوٹھے چیک ہوجائیں تو مقناطیسی سیاہی سے سارا پول کھل جاتا ہے۔‘‘

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھائی یہ سب باتیں میں اب کیوں کررہا ہوں؟ وہ اس لئے کیوں کہ حال ہی میں میری نظر الیکشن 2018 سے متعلق فافن کی ایک رپورٹ پر پڑی جس میں ملک بھر سے مسترد ہونے والے ووٹوں کی تعداد بتائی گئی ہے۔ یہ تعداد 16 لاکھ 78 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ لیکن میرے لئے یہ کوئی حیران کن بات نہیں۔ اتنے بڑی تعداد میں ووٹ پڑے تو مسترد بھی ہوئے ہوں گے۔

مجھے حیرانی یہ پڑھ کر ہوئی کہ ووٹ مسترد ہونے سے سب سے زیادہ فائدہ تحریک انصاف کو ہوا۔ اس رپورٹ میں ایسے 49 حلقوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچا۔ یہ رپورٹ پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں اچانک حال ہی میں ہونے والی ایک اور ملاقات کا خیال آیا۔

یہ صاحب میری بیگم کے رشتے کے چچا تھے جو کچھ ہی ماہ پہلے ریٹائر ہوئے لیکن الیکشن ڈیوٹیز کی انجام دہی کیلئے انہیں پھر سے طلب کیا گیا تھا۔ یہاں ان کے محکمے کا ذکر کرنا مناسب نہیں۔ البتہ ان کے الفاظ میرے ذہن میں اب بھی جوں کے توں ہیں: ’’ہمیں تو پہلے سے ہی بتادیا گیا تھا کہ کیا کرنا ہے۔‘‘

لیکن ان تمام باتوں کے بعد بھی، نہ جانے کیوں، میرا دل انتخابی دھاندلی کے الزامات پریقین کرنے کو تیار نہیں۔ دل اور دماغ میں ایک جنگ سی چھڑی ہے کہ نہیں، خان ایسا نہیں کرسکتا۔ اپنا کپتان ایسا نہیں کرسکتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید محمد مدثر

سید محمد مدثر

بلاگر پچھلے 14سال سے صحافت میں ہیں اور ’’آج نیوز‘‘ سے منسلک ہیں۔ طویل عرصے سے مختلف ویب سائٹس پر بلاگز لکھتے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔