بلوچستان عوامی پارٹی کو وزارتوں کی تقسیم میں مشکلات

رضا الرحمٰن  بدھ 15 اگست 2018
خواتین کی مخصوص اور اقلتیوں کی نشستوں کی تقسیم کے بعد بلوچستان اسمبلی میں بی این پی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بن گئی ہے

خواتین کی مخصوص اور اقلتیوں کی نشستوں کی تقسیم کے بعد بلوچستان اسمبلی میں بی این پی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بن گئی ہے

کوئٹہ: خواتین کی مخصوص اور اقلتیوں کی نشستوں کی تقسیم کے بعد بلوچستان اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بن گئی ہے۔

خواتین کی مخصوص11نشستوں میں سے’’باپ‘‘ کو چار اور تین اقلیتی نشستوں میں سے ایک نشست ملی جبکہ متحدہ مجلس عمل اور بی این پی مینگل کے حصے میں خواتین کی دو دو اور اقلیت کی ایک ایک نشست آئی ہے اسی طرح تحریک انصاف اور اے این پی کو خواتین کی ایک ایک نشست مل پائی جبکہ خاتون کی گیارہویں نشست کیلئے تحریک انصاف اور بی این پی عوامی کے درمیان ٹاس پر فیصلہ ہوگا۔ اگر ٹاس میں تحریک انصاف کامیاب ہو جاتی ہے تو اسمبلی میں اس کی نشستیں بڑھ کر آٹھ ہوجائیں گی۔ اگر بی این پی عوامی کو کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس کی نشستوں کی تعداد ایک خاتون کے ساتھ تین ہو جائے گی۔

خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کی تقسیم کے بعد اس وقت پارٹی پوزیشن کچھ یوں ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی24، متحدہ مجلس عمل اور بی این پی مینگل دس دس ،تحریک انصاف 7،اے این پی4، ہزارہ ڈیموکریٹک اور بی این پی عوامی دو دو، پشتونخوامیپ، (ن) لیگ اور جے ڈبلیو پی کے پاس ایک ایک نشست ہے۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی دو نشستوں میں سے ایک نشست پر ابھی سرکاری نوٹیفکیشن ہونا باقی ہے۔

وزارت اعلیٰ کیلئے بھی بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں جن میں تحریک انصاف، اے این پی، ایچ ڈی پی، بی این پی عوامی شامل ہیں اپنے مشترکہ پارلیمانی گروپ کے اجلاس میں جام کمال کو اتفاق رائے سے اُمیدوار نامزد کرچکی ہیں اسی طرح اسپیکر کیلئے ان کے مشترکہ اُمیدوار میر عبدالقدوس بزنجو ہونگے۔ کل صوبائی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب کیا جائے گا، جبکہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب اٹھارہ اگست کو وزیراعظم کی تقریب حلف برداری کے بعد ہو گا ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے ایک چھ نکاتی معاہدے کے تحت تحریک انصاف کی وزارت عظمیٰ ، قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کیلئے حمایت کا فیصلہ کیا ہے، اس سلسلے میں گذشتہ دنوں تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کوئٹہ تشریف لائے تھے جنہوں نے سردار اختر جان مینگل اور انکی پارٹی کے دیگر رہنماؤں سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں دونوں جماعتوں میں ان چھ نکات پر تحریری معاہدہ بھی کیا گیا۔

جبکہ پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے باہمی مشاورت کے بعد بلوچستان اسمبلی کی نشست چھوڑ کر قومی اسمبلی کی نشست رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کی جماعت نے قومی اسمبلی میں فی الحال تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والے تحریری معاہدے پر عملدرآمد تک آزاد بنچوں پر بیٹھے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی اور متحدہ مجلس عمل نے بلوچستان میں مخلوط حکومت میں شمولیت کیلئے مشروط مذاکرات کئے ہیں لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔ سطور کی اشاعت تک حتمی فیصلہ ہو جائے گا۔ تاہم ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ تمام صورتحال سے یوں لگتا ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور متحدہ مجلس عمل اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ جائیں گی اور ایک مضبوط اپوزیشن کا رول ادا کریں اور بلوچستان میں اس مرتبہ مخلوط حکومت کو ایک مضبوط متحدہ اپوزیشن کا سامنا ہوگا۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی کے نامزد وزیراعلیٰ جام کمال کووزارتوں کی تقسیم سمیت بعض اہم ایشوز پر کافی مشکلات اور دقت کا سامنا ہے جس کیلئے وہ اپنے قریبی ساتھیوں اور اتحادیوں کے ساتھ تواتر سے مشاورت کر رہے ہیں۔ ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے خواتین کی مخصوص نشستوں پر اپنی ایک نشست بھی گنوادی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ پارٹی میں شامل ہونے والے چار آزاد ارکان اسمبلی کی جانب سے بروقت اطلاع الیکشن کمیشن کو نہیں دی گئی جبکہ پارٹی کے متعلقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے ان چار اراکین کی پارٹی میں شمولیت کی اطلاع الیکشن کمیشن کو دیئے گئے مقررہ وقت پر دے دی تھی لیکن اس کے باوجود جس فارمولے کے تحت یہ مخصوص نشستیں تقسیم کی گئی ہیں اس میں پارٹی کو ایک نشست کا نقصان پہنچا ہے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق اس نشست کیلئے قانونی ماہرین سے رابطہ کیا جا رہا ہے۔

بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں حکومت سازی کے بعد اگلے مرحلے میں گورنر شپ کے معاملے پر بھی تحریک انصاف کی مرکزی قیادت خصوصاً عمران خان کو سوچ بچار کے بعد فیصلہ کرنا ہوگا کیونکہ بلوچستان کے مخصوص حالات کو دیکھتے ہوئے گورنر شپ کیلئے کسی ایسی شخصیت کا انتخاب کرنا ہوگا جوکہ مستقبل میں بلوچستان کی مخلوط حکومت کے ساتھ بھرپور معاونت کرے اور اسے مختلف معاملات میں لے کر چلے۔ گورنر بلوچستان کیلئے بھی بعض سیاسی شخصیات سرگرم دکھائی دے رہی ہیں جن میں صوبے میں نگران سیٹ اپ میں شامل دو وزراء کے نام بھی لئے جا رہے ہیں جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سیکرٹری جنرل کا نام بھی گورنر شپ کیلئے زیر گردش ہے؟۔

بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق جام کمال کی قیادت میں بلوچستان میں بننے والی نئی مخلوط حکومت کو جہاں دیگر مسائل و مشکلات کا سامنا ہے وہاں اُنہیں عام انتخابات میں انکی جماعت کے ناکام ہونے والے بعض سینئر رہنماؤں کی جانب سے بھی دباؤ کا سامنا ہے جن کی یہ کوشش ہے کہ انہیں صوبائی حکومت کے کسی بھی حکومتی عہدے پر اکاموڈیٹ کیا جائے جبکہ مخلوط حکومت میں شامل بلوچستان عوامی پارٹی کی دیگر اتحادی جماعتیں بھی اس تمام صورتحال کا بغور جائزہ لے رہی ہیں اور ان کا بھی یہ خیال ہے کہ اگر بلوچستان عوامی پارٹی نے حکومتی عہدوں کیلئے پارٹی کے بعض غیر منتخب رہنماؤں کو اکاموڈیٹ کیا تو وہ بھی اپنی اپنی جماعتوں کے غیر منتخب یا پارٹی کے سرگرم رہنماؤں کو حکومتی عہدوں پر فائز کرنے کیلئے مخلوط حکومت کے سربراہ پر اپنا دباؤ بڑھادیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔