ولید خان، سانحہ اے پی ایس کا ایک زخمی طالب علم

رجب علی فیصل  اتوار 19 اگست 2018
اللہ نے میری زندگی کے بجھتے ہوئے چراغ کو ایسے روشن کیا کہ ڈاکٹرز بھی ہکا بکا رہ گئے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

اللہ نے میری زندگی کے بجھتے ہوئے چراغ کو ایسے روشن کیا کہ ڈاکٹرز بھی ہکا بکا رہ گئے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

سانحہ آرمی پبلک اسکول میں شدید زخمی ہونے والے بہادر طالب علم ولید خان سے بات چیت کرنے کا موقع ملا جسے انٹرویو کی شکل میں پیش کررہا ہوں، ولید خان اس وقت برمنگھم میں زیر علاج ہیں جبکہ ساتھ ہی ساتھ برمنگھم یونیورسٹی سے اپنی تعلیم بھی مکمل کررہے ہیں۔ حال ہی میں وہ یوتھ پارلیمنٹ برطانیہ کے انتخابات میں حصہ لے کر اس کے رکن بھی منتخب ہوچکے ہیں۔

سوال: سب سے پہلے سانحہ اے پی ایس کہ بارے میں کچھ بتائیے کہ اس دن یہ اندوہناک سانحہ کیسے ہوا؟

جواب: 16 دسمبر 2014 کو میں اور میرا چھوٹا بھائی اعزاز معمول کے مطابق تیار ہوئے اور اسکول پہنچ کر حسب معمول اپنے دوستوں سے ملے اور گپ شپ لگائی۔ اسی دوران ہمیں بتایا گیا کہ آج تمہیں آڈیٹوریم میں فرسٹ ایڈ ٹریننگ کے بارے لیکچر دیا جائے گا جس کےلیے سب بچے وہاں جمع ہورہے تھے۔ چونکہ میں اپنے اسکول میں پراکٹر تھا تو مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ باقی سب بچوں کو ہال کی طرف لے آؤں۔ ہم ہال پہنچے جہاں پہلے ہی سے خاصی تعداد میں بچے موجود تھے اور فرسٹ ایڈ لیکچر شروع ہونے لگا تھا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ فائرنگ کی آواز ہمارے کانوں میں گونجنے لگی جس پر اساتذہ اور ہم نے خاص توجہ نہیں دی کیوں کہ ہم سمجھے شاید آرمی اسکول ہے تو یہاں آرمی ڈرل وغیرہ چل رہی ہوگی۔ مگر جیسے ہی یہ آواز اور تیز ہوئی تو سب کے سب گھبرا گئے اور کلمہ طیبہ کا ورد شروع کردیا۔ سب بچے کرسیوں کے نیچے چھپ گئے۔ میں اسٹیج پر کھڑا تھا اور اساتذہ کرام نے سب دروازے لاک کر دیئے تھے۔ پھر اچانک کچھ لوگ دروازے کی جانب بڑھے اور دروازے کو لاتیں مار کر توڑ دیا۔ جونہی وہ آڈیٹوریم ہال میں داخل ہوئے تو اندھا دھند فائر کھول دیئے۔ کیونکہ میں آگے اسٹیج پر تھا تو انہوں نے سب سے پہلے مجھے نشانہ بنایا۔ چہرے پر گولیاں لگنے سے میں نیچے گر گیا۔ بس پھر صرف بچوں کے چیخنے چلانے، بھاگنے اور گولیوں کی آوازیں کانوں میں گونجنے لگیں۔ وہاں موجود ایک شخص زخمی بچوں کو لاتیں مار رہا تھا اور اگر کسی میں حرکت دیکھتا تو اس پر فائر کھول دیتا۔ جیسے ہی وہ شخص میرے قریب پہنچا اور میرے سینے پر لاتیں ماریں تو میں حرکت کرنے لگا۔ جب اس نے دیکھا کہ میں زندہ ہوں تو مجھ پر پھر فائر کھول دیا۔ وہ میرا سر ٹارگٹ کرنا چاہتا تھا مگر خوش قسمتی سے ایسا نہ ہوپایا۔ پر میرا چہرہ مکمل طور پر خون سے لت پت ہو چکا تھا۔ میں اس وقت سن رہا تھا جب ایک حملہ آور دوسرے سے کہہ رہا تھا ان سب بچوں کے سروں میں گولیاں مارے۔ اس دوران مجھے سب گھر والوں، بالخصوص امی کی یاد آرہی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ بس ایک بار ان سے مل لوں۔ پھر خیال آتا میں اتنی آسانی سے نہیں مرسکتا، مجھے جینا ہے۔ شدید درد محسوس ہورہا تھا اور میں درد کے مارے بے ہوش ہوتا چلا گیا۔

سوال: آپ کو جسم کے کن حصوں پر کتنی گولیاں لگیں، زخم آئے اور خون کے بلبلوں نے آپ کی زندگی کیسے بچالی؟

جواب: چھ گولیاں میرے چہرے میں پیوست ہوئیں اور دو گولیاں باقی جسم پر، جس میں ہاتھ اور پاؤں شامل ہیں۔ دراصل جب یہ دہشت گرد اندر داخل ہوئے تو اساتذہ نے اس سے قبل تمام بچوں کو کہہ دیا تھا کہ آپ کرسیوں کے نیچے چھپ جاؤ لیکن میں اسٹیج پر کھڑا رہا، جس کے سبب سب سے پہلے ان کی زد میں آگیا، جب سب بچوں کو مار دیا گیا تو اس کے بعد دوبارہ ایک ایک کو چیک کیا گیا کہ کوئی زندہ تو نہیں بچ گیا۔ دہشت گردوں نے مردہ بچوں پر لاتیں ماریں کہ اگر کوئی زندہ ہوگا تو پتا چل جائے گا، اسی طرح جب میرے سینے پر لاتیں ماریں تو میں درد سے تڑپنے لگا اس لیے انہوں نے دوبارہ مجھ پر گولیاں چلائیں اور اس کے بعد وہ سمجھے یہ ختم ہوگیا مگر میں زندہ تھا۔ پھر جب وہ چلے گئے تو میں سب سے منتیں کررہا تھا کہ مجھے لے جاؤ مگر وہ بچے جو بچ گئے تھے اتنے ڈرے ہوئے تھے کہ کسی کا دھیان اس طرف نہیں ہوا، کیونکہ وہ منظر قیامت صغریٰ کا منظر تھا۔ پھر میں نے کلمہ طیبہ پڑھا اور کرسیوں کی مدد سے کھڑا ہوا۔ یوں گرتا پڑتا اور رینگتا ہوا اسکول ونگ کی طرف آڈیٹوریم ہال سے باہر نکلنے کی کوشش کی لیکن باہر نکلنے کے بعد گر گیا۔ پھر عمارت میں موجود کھمبوں کے سہارے کھڑا ہوا لیکن کچھ دوری پر واقع سیڑھیوں پر اوندھے منہ گر پڑا اور جو لڑکے پیچھے سے آرہے تھے وہ اتنے سہمے ہوئے تھے کہ مجھ پر چڑھ دوڑے اور کسی کو خیال ہی نہ رہا کے نیچے کوئی گرا پڑا ہے۔ اس سے میری کلائیاں اور ہاتھوں کی انگلیاں ٹوٹ گئیں، اور پہلے سے شدید زخمی سینے کی مزید ہڈیاں بھی ٹوٹ گئیں۔ دوبارہ ایڑیاں رگڑتے ہوئے اسکول کی لائبریری کے پاس پہنچا تو میرا خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے مجھ میں مزید کوشش کی سکت ختم ہوگئی اور آنکھیں بند ہونے لگیں۔ بالآخر آرمی کے نوجوانوں سمیت کچھ لوگ آئے اور ریسکیو کرکے سی ایم ایچ لے گئے لیکن ڈاکٹروں نے مجھے شہید سمجھ کر لاشوں کی قطار میں رکھ دیا جہاں دوسرے بچوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ میں نے اس وقت ہلنے کی کوشش کی تاکہ ڈاکٹر میری حرکت دیکھ کر سمجھ جائیں کہ میں زندہ ہوں لیکن میری وہ کوشش ناکام رہی۔ پھر میں نے جونہی زیادہ سے زیادہ زور سے سانس لینے کی کوشش کی تو میرے منہ سے جھاگ کی صورت میں خون کے بلبلے بن گئے۔ جب قریب کھڑی نرس کی مجھ پر نظر پڑی تو اس نےڈاکٹر کو آواز دی کہ یہ بچہ ابھی بھی زندہ ہے، یوں مجھے فوراً آپریشن تھیٹر لے جایا گیا۔

سوال: آپ کا علاج معالجہ اس وقت کہاں اور کس کے تعاون سے ہورہا ہے اور کب تک مکمل صحت یاب ہوجائیں گے؟

جواب: نہ صرف میرے بلکہ ان تمام بچوں کے خاندانوں کے ساتھ جو زخمی یا شہید ہوئے، پاک آرمی نے مکمل تعاون کیا۔ وہاں سی ایم ایچ میں بھی آرمی کی مدد سے علاج ہوتا رہا۔ چونکہ میں بہت زیادہ زخمی تھا، اور میرے چہرے سمیت اوپر والا جبڑا، دانت مکمل ختم ہوچکے تھے جبکہ زبان کا کچھ حصہ بھی زخمی اور سینے وغیرہ سمیت ناک کی ہڈی بھی ٹوٹ چکی تھی۔ پاکستانی ڈاکٹروں کے پاس جدید سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے وہاں میرا علاج ناممکن تھا جس کے بعد پاک آرمی کے تعاون سے اپنے والد گلزار محمد یوسفزئی سمیت مجھے کوئین الزبتھ اسپتال برمنگھم منتقل کیا گیا، اور اب یہاں مسلسل علاج چل رہا ہے۔ ہر کچھ دن بعد میرا آپریشن ہوتا ہے جبکہ اب تک تقریباً سترہ سے زائد آپریشن ہوچکے ہیں اور مزید بھی ہونے ہیں۔ میری ناک کی ہڈی بھی بنا کر لگائیں گے، دانت اور جبڑا بھی لگانا ہے جبکہ چہرے کی سرجری بھی ہونی ہے۔ اس لیے مکمل صحت یابی کے بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ یہ سب علاج معالجہ، رہائش حتی کہ کھانے پینے تک کے سارے اخراجات پاک آرمی کی طرف سے ادا کیے جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ میری پاکستان آرمی اور حکومت سے عاجزانہ گزارش ہے کہ میری والدہ کو برمنگھم لایا جائے تاکہ مجھے ان کی کمی محسوس نہ ہو۔ اگر وہ ہمارے ساتھ ہونگی تو ہماری بہت سی مشکلات حل ہو جائیں گی جیسے کہ ابو کھانا وغیرہ بناتے ہیں۔ اگر امی آجائیں گی تو یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ دوسرا جب میرا آپریشن ہوتا ہے تو امی وہاں جائے نماز پر بیٹھ کر پاکستان میں میرے لیے تڑپ تڑپ کر دعائیں کرتی ہیں۔ میں یہاں شدید تکلیف میں ہوتا ہوں اور جب امی کی یاد آتی ہے تو یہ تکلیف مزید بڑھ جاتی ہے۔

سوال: حملے کے بعد آپ کا چہرہ اس قدر زخمی ہوا کہ پہنچاننا مشکل تھا لیکن بالآخر ماں نے پہچان لیا۔ یہ کیسے مکمن ہوا؟

جواب: زیادہ گولیاں چہرے پر لگنے سے شدید زخم آئے اور مجھے پہنچاننا ناممکن ہوچکا تھا۔ مجھے گھر والے ڈھونڈتے پھر رہے تھے مگر نہیں مل رہا تھا۔ ٹیلی ویژن پر بھی بتایا جارہا تھا کہ وحید نامی بچا پڑا ہوا ہے، اس کے والدین کی تلاش ہے۔ تو چونکہ میرا نام ولید تھا اور پڑھا وحید جارہا تھا تو گھر والوں کو بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اس بارے میرے والد بتاتے ہیں کہ جب حملہ ہوگیا تو ہم نے آپ کی والدہ کو نہیں بتایا بلکہ ان سے کہا کہ ولید ٹھیک ہے، بس تھوڑا بہت زخمی ہوا ہے۔ لیکن جب ڈھونڈ رہے تھے تو وہ مجھے تلاش کرتے ہوئے گر جاتے، بچوں کی طرح دھاڑے مار مار کر روتے۔ پھر انہیں ایک ڈاکٹر ملا جسے پتا تھا کہ ان کا بچہ ابھی تک نہیں مل رہا۔ انہوں نے بتایا کہ فلاں جگہ ایک بچہ پڑا ہے لیکن اس کا چہرہ بالکل مسخ ہوچکا ہے، جائیے اسے پہچان لیجیے، شاید آپ کا بیٹا ہو۔ وہ دوڑے دوڑے میرے پاس آئے تو چہرے پر مکمل پٹیاں چڑھی ہوئی تھیں کیونکہ چہرے کا حصہ زخم شدہ اور کھل گیا تھا۔ پھر والد کو شک ہوا کہ میں ان کا بیٹا ہوں مگر پھر بھی کشمکش میں تھے کہ یہ کوئی اور بھی تو ہوسکتا ہے؟ جب ٹھیک آٹھ دن بعد مجھے تھوڑا سا ہوش آیا تو امی کو اسپتال لے آیا گیا کیونکہ سارے اس پریشانی میں تھے کہ یہ ولید ہے بھی یا نہیں، یعنی انہیں صحیح علم نہیں ہو پا رہا تھا۔ پھر جب امی آئیں تو انہوں نے مجھے ایک مخصوص نام سے آواز دی جو میرے بھائی حماد یوسفزئی نے رکھا تھا۔ بچپن میں بلیوں کے ساتھ میں زیادہ کھیلتا تھا تو وہ مجھے پیار سے ’’ہریرہ‘‘ بلاتی تھیں جو بعد میں سب گھر والوں کی زبان پر بھی چڑھ گیا تھا۔ میں نے امی کا ہاتھ پکڑ کر دبایا اور انہیں اشارے میں بتایا کہ میں ہی ’’ہریرہ‘‘ یعنی ولید ہوں۔ پھر جاکر سب کو یقین ہوا اور یوں مجھے پہچاننا آسان ہوگیا۔

سوال: پاکستان میں بچوں کے بارے نظام تعلیم پر آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

جواب: سب سے پہلے تو ہمیں پاکستان میں مرد و خواتین، دونوں کو تعلیم دینی چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف ان کا بنیادی حق ہے بلکہ ہمارا مذہب بھی اسی چیز کی زیادہ تلقین کرتا ہے۔ اگر تمام افراد تعلیم یافتہ ہوں گے تو یوں ایک مکمل معاشرہ اس زیور سے مستفید ہوجائے گا۔ دوسرا ہمارے ملک میں بچوں کی تعلیم کو بالکل مفت کیا جائے اور حکومت کی جانب سے غریب اور مستحق بچوں کےلیے وظیفہ مقرر کیا جائے۔ بعض اوقات ہم اچھے نمبر حاصل کرنے والے کو وظیفہ دیتے ہیں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو لیکن جو لوگ یہ پوزیشن حاصل نہیں کرسکتے، ان کے بارے یہ نہیں سوچتے کہ آخر کس مجبوری کے تحت یہ بچہ وہ پوزیشن حاصل نہیں پارہا یا کرسکا۔ پاکستان ٹیلنٹڈ لوگوں سے بھرا پڑا ہے لیکن اگر کمی ہے تو صرف انہیں سپورٹ کرنے کی اور ان کی محرومیوں کی طرف توجہ دینے کی۔ بہت سارے لوگ اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں مگر ان کے پاس وسائل ہیں نہ ہی اچھا روزگار، کیونکہ وہاں میرٹ کی کمی ہے۔ اب جو بےچارہ اپنا پیٹ تک بڑی مشکل سے پال رہا ہو وہ اپنے بچوں کو تعلیم کیسے دلوائے گا؟ ایک اور اہم مسئلہ جو تقریباً سارے صوبوں میں ہے لیکن بہ نسبت پنجاب کے، باقی صوبوں میں انتہائی زیادہ ہے۔ مثلاً شہر سے دور دراز علاقے جیسے دیہات وغیرہ میں تو اسکولوں کی عمارتیں تک موجود نہیں۔ اور اگر کہیں کوئی بلڈنگ موجود ہے بھی تو اسٹاف مکمل غیر حاضر رہتا ہے۔ ایسے پسماندہ علاقوں میں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے اور حکومت کو سب سے زیادہ توجہ ایسے پسماندہ علاقوں کی طرف بھی دینی چاہیے جہاں نوجوان، بچوں اور بچیوں کا مستقبل تاریک ہورہا ہے۔ اگر تعلیم عام اور آسان ہوگی تو یہ انتہاء پسندی اور دہشت گردی سمیت ہمارے دوسرے بڑے تمام مسائل ختم ہوجائیں گے۔

سوال: سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد اس مشکل کی گھڑی میں کن کن لوگوں نے آپ کا ساتھ دیا اور اب بھی مدد کررہے ہیں؟

جواب: سب سے پہلے میں اپنے پرودگار کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ اس نے میری زندگی کے بجھتے ہوئے چراغ کو ایسے روشن کیا کہ وہ ڈاکٹرز بھی ہکا بکا رہ گئے جو اس دکھ میں تھے کہ ہم اس بچے کی زندگی نہیں بچاسکتے کیونکہ اس کا بچنا ناممکن ہے۔ بس زیادہ سے زیادہ دس منٹ تک زندہ رہے گا۔ جب یہ بات میرے بھائی حماد کو بتائی گئی تو اس کا کہنا ہے کہ میں باہر جاکر گاڑی میں بیٹھا اور زار و قطار رونے لگا، کچھ نہیں کرسکتا تھا سوائے سسکیاں لینے اور تڑپنے کے۔ بس اللہ تعالی سے بار بار اپنے بھائی ولید کی زندگی کی بھیک مانگنے لگا، اور یوں میرے خاندان اور قوم کی بےپناہ دعاؤں سے کم از کم میری زندگی بچ گئی۔ اس کے بعد میں اپنی پوری قوم اور پاکستان آرمی کا تہہ دل سے مشکور ہوں، جنہوں نے میرے علاج میں لمحہ بہ لمحہ اپنا تعاون برقرار رکھا ہوا ہے۔ اگر پاکستان آرمی میرے علاج میں مالی امداد نہ کرتی تو شاید میرا علاج یہاں نہ ہو پاتا۔ اس پر ہم ان کے بے حد شکر گزار ہیں، وہ ہمارے ساتھ چوبیس گھنٹے رابطے میں رہتے ہیں اور یہاں پر برمنگھم میں ہم ملالہ یوسفزئی خاندان کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جو میری تعلیم میں مجھے یہاں مکمل سپورٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں ہمیشہ اپنی فیملی کا حصہ سمجھا، اور ان ہی کے اخلاقی تعاون سے میں یہاں تعلیم بھی حاصل کررہا ہوں۔ اب تو میں یوکے یوتھ پارلیمنٹ کا ایم پی بھی منتخب ہوگیا ہوں۔ ایک بار پھر ہم ان تمام لوگوں کے مشکور ہیں جو ہمیں سپورٹ کرتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

رجب علی فیصل

رجب علی فیصل

مصنف نوجوان صحافی اور کالم نگار ہیں اور آج کل گومل یونیورسٹی سے ایم اے اردو کر رہے ہیں۔ ان سے ٹوئٹر اور فیس بُک آئی ڈی @rajabalifaisal پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔