اپوزیشن کا مثبت رویہ
دونوں جماعتوں کا واحد مقصد تحریک انصاف کی حکومت کو ناکام بنانا ہے۔
سرمایہ دارانہ جمہوریت جھوٹ، موقع پرستی، بد دیانتی اور کرپشن سے شروع ہوتی ہے اور ان ہی خوبیوں پر ختم ہوتی ہے، اسی جمہوریت میں دوستی اور دشمنی، حمایت اور مخالفت نہ اصولی ہوتی ہے نہ ایماندارانہ ہوتی ہے، یہ سارے رشتے دوستی دشمنی کے محرکات ذاتی اور جماعتی مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی 2008ء کے الیکشن کے بعد اگرچہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کا روپ دھارے ہوئے تھے، لیکن دورن خانہ شیر و شکر بنے ہوئے تھے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے میں مسلم لیگ (ن) کی نوازشوں کا بڑا ہاتھ تھا، اگر پیپلز پارٹی کی حکومت کو در پردہ مسلم لیگ (ن) کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو پیپلزپارٹی کا پانچ سال مکمل کرنا ممکن ہی نہ تھا۔
اس کے بعد جب 2013ء میں مسلم لیگ (ن) نے انتخابات جیت کر حکومت بنائی تو دونوں جماعتوں کی قربت دوری میں بدلنے لگی۔ پیپلزپارٹی کی پرانی اور نئی قیادت مسلم لیگی حکومت میں کیڑے نکالنے لگی اور یہ اختلاف آخرکار دشمنی تک پہنچ گئے اور دونوں جماعتیں کھل کر ایک دوسرے کی مخالفت کرنے لگیں۔ لیکن 2018ء کے الیکشن میں جب تحریک انصاف کامیاب ہوئی تو ایک بار پھر دونوں جماعتیں اپنے مشترکہ دشمن عمران خان کے خلاف اکٹھی ہو گئیں اور تحریک انصاف پر دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے ایک دوسرے کی اتحادی بن گئیں، جس وقت میں یہ کالم لکھ رہا ہوں پیپلزپارٹی کا ایک وفد لاہور میں (ن) سے راز و نیاز میں مصروف ہے۔
دونوں جماعتوں کا واحد مقصد تحریک انصاف کی حکومت کو ناکام بنانا ہے۔ ان کے ساتھ کچھ وہ مذہبی جماعتیں بھی شامل ہو گئی ہیں جو ماضی میں عمران خان کی سخت تنقید کا نشانہ بنتی رہی تھیں اور کچھ وہ موقع پرست جماعتیں بھی اس اتحاد میں شامل ہوگئی ہیں جو ہمیشہ اقتدار کی دُم تھامے رہتی تھیں اور اب عمران حکومت میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہ جماعتیں دونوں بڑی جماعتوں سے زیادہ غل غپاڑہ مچارہی ہیں، ان جماعتوں کو یہ شدید احساس ہے کہ اگر عمران خان کو پانچ سال حکومت کرنے کا موقع مل گیا تو سیاسی میدان میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں رہے گی۔
عمران خان ایم کیو ایم کے سخت مخالف رہے ہیں لیکن آج اقتداری ضرورتوں نے انھیں ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ اسی طرح ایم کیو ایم تحریک انصاف کی سخت مخالف جماعت تھی لیکن اقتدار میں حصہ داری کی خواہش نے اسے تحریک انصاف کا اتحادی بنادیا ہے۔ عمران خان ہمیشہ مولانا فضل الرحمن کے شدید مخالف رہے ہیں، آج مولانا صاحب عمران حکومت کو ناکام بنانے میں سب سے آگے ہیں۔ اختلافات دشمنیوں میں بدل گئے ہیں۔ سیاست کو ان بزرگوں نے بازاری چیز بناکر رکھ دیا ہے۔ اس اتفاق کو ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ بورژوا سیاست کے پیر اڈیالہ جیل میں محبوس ہیں، جس کی وجہ سے ان کے زیر اثر رہنے والی تمام جماعتیں مخالف بنی ہوئی ہیں لیکن چھوٹے میاں سب کو سنبھال رہے ہیں۔ دیکھیے یہ کھیل کب تک چلتا ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اکابرین کے درمیان ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان ملاقاتیں اچھی بات ہے لیکن ان ملاقاتوں میں ملک و ملت کی بھلائی اور بہتری پر غور کیا جانا چاہیے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں کی پسماندہ سیاست میں ملک و ملت کی بھلائی اور بہتری کے بارے میں سوچنے کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے بارے میں زیادہ سوچا جاتا ہے۔ ہمارا ملک پسماندہ ملکوں میں بھی پسماندہ ترین ملک ہے۔ ہمارے عوام کی غربت کا عالم یہ ہے کہ ملک کی آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔
لاکھوں نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں تھامے روزگار کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں۔ دوسرے ملکوں خصوصاً ترقی یافتہ ملکوں میں ہر سال کالجوں، یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لے کر نکلنے والوں کے اعداد و شمار حکومتیں حاصل کرلیتی ہیں اور ان کے مطابق ملازمتوں کا پہلے ہی سے انتظام کر رکھتی ہیں، تعلیم مکمل کرنے والوں کو ملازمتوں کے لیے برسوں بھاگنا نہیں پڑتا۔ اس سونے پر سہاگہ یہ کہ زبان اور قومیت کی بنیاد پر نا اہل لوگوں کو اعلیٰ ترین عہدوں پر بٹھادیا جاتا ہے بلکہ نان میٹرک حضرات کو وزارتوں پر فائز کردیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف حکومتی کاموں کا ستیا ناس ہوتا ہے بلکہ ملک شدید انتظامی انارکی کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے۔
یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ ہماری سیاسی تاریخ میں دو سیاسی جماعتوں نے اپنی آئینی مدت پانچ سال پوری کرلیں۔ بدقسمتی سے 70 سال میں سوائے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن( کے کسی جماعت نے اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی، جو جماعتیں ''عوامی حمایت''سے حکومت میں آتی ہیں ان کے پاس عوامی خدمات کا ایک مربوط ایجنڈا ہوتا ہے اور وہ پوری کوشش کرتی ہیں کہ ایجنڈے کے مطابق عوامی مسائل حل کریں۔ ہماری سیاست میں عوامی خدمات کا کوئی تصور نہیں بلکہ ساری توجہ اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کرلی جائے، اس ذہنیت کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ لوٹ مار کرنے والے احتساب کی زد میں ہیں۔ ساری دنیا میں ہمارا ملک بدنام ہورہا ہے۔
تحریک انصاف کا تعلق مڈل کلاس سے ہے۔ مڈل کلاس میں ارب پتی بننے کی خواہش فطرتاً نہیں ہوتی۔ نئی حکومت کئی شعبوں میں بامعنی اصلاحات کے اعلان کررہی ہے اور عوام پہلی بار پرامید ہیں کہ حکومت ان کے اہم مسائل حل کرے گی۔ اپوزیشن کا کام ہے کہ وہ حکومت کی خامیوں کی نشان دہی کرے اور حکومت کو مجبور کرے کہ وہ اپنے ایجنڈے اور وعدوں کے مطابق عوام کے مسائل حل کرے، اس کے بجائے اپوزیشن حکومت کی ٹانگ کھینچنے اور حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے میں لگ جائے تو تیسری طاقت کو مداخلت کا بہترین جواز مل جائے گا۔