الیکشن 2013 سفر جاری رہے
نگاہوں میں وہ تصویریں گھوم جاتی ہیں جن میں محترمہ فاطمہ جناح سفید لباس میں کوٹ پہنے ہوئے اپنے بھائی کے ساتھ کھڑی ہیں۔
نگاہوں میں وہ تصویریں گھوم جاتی ہیں جن میں محترمہ فاطمہ جناح سفید لباس میں کوٹ پہنے ہوئے اپنے بھائی کے ساتھ کھڑی ہیں۔ زیور کے نام پر موتیوں کی ایک لڑی ہے جو زیب گلو ہے۔ وقاراور سادگی کا نمونہ۔ محترمہ رعنا لیاقت علی خان ہیں۔ وزیر اعظم کی بیگم، واقعی گل رعنا۔ ان کا دمکتا ہوا چہرہ ان کی شخصیت اورکردار کی گواہی دیتا ہے۔ وہ امریکا ، لندن اور یورپ کے دوسرے شہروں میں ہو آئیں لیکن نہ لباس کی وضع بدلی اور نہ انھوں نے آرائش گیسو اور تزئین لب و رخسار کی ضرورت محسوس کی۔ بیوہ ہوئیں تو وقار اور سنجیدگی میں اضافہ ہوگیا۔ ممالک غیر میں پاکستان کی سفیر ہوئیں یا بعد میں سندھ کی گورنر، مجال ہے جو یہ تبدیلیاں لباس کی تراش خراش یا ان کی بودو باش پر اثر انداز ہوئی ہوں۔
یہی عالم بیگم شائستہ اکرام اللہ کا تھا جنہوں نے پاکستان کے ابتدائی دنوں میں مہاجرین کے کیمپوں میں کام کیا۔ خیمے اور رضائیاں بہم پہنچائیں۔ ترک وطن کرکے آنے والی خواتین کے لیے باعزت روزگار کے ذرایع تلاش کیے۔ لیڈی نصرت ہارون تھیں جو اگست 1947 میں آنے والے مہاجرین کے لیے ریلوے اسٹیشن اورکیمپوں میں کھانوں کی دیگیں لے کر جاتی رہیں اور اپنی نگرانی میں تقسیم کراتی رہیں۔ترک وطن کرکے آنے والیوں کی ابتدائی زندگی کو سہل بنانے اور لڑکیوں کی تعلیم اور عورتوں کے روزگار کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل ان خواتین میں فاطمہ بیگم، طاہرہ مظہر علی خان، ممتاز نورانی اور بہت سی دوسری تھیں جو سندھ اور پنجاب سے این ڈبلیو ایف پی تک پھیلی ہوئی تھیں۔ مشرقی بنگال میں عوامی بہبود کے لیے کام کرنے والیوں کی ایک قطار تھی۔
قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں ہی بیگم شائستہ اکرام اللہ کو اندازہ ہوا کہ آئین ساز اسمبلی برسوں گزر جانے کے بعد بھی آئین کی تشکیل میں سنجیدہ نہیں تو انھوں نے اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو یہ کہہ کر استعفیٰ پیش کردیا کہ میرا ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں ایک ایسے کام کی تنخواہ اور مراعات لیتی رہوں جو چیونٹی یا شاید کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے اور مکمل ہوتا نظر نہیں آتا۔
بیگم رعنا لیاقت علی خان نے اپنے مقتول شوہر کا قصاص پاکستان کی کسی حکومت سے طلب نہیں کیا اور بہت وقار سے زندگی گزاری۔ محترمہ فاطمہ جناح کو جب یقین ہوگیا کہ بہت سے گدھ پاکستان کی بوٹیاں نوچنے میں مصروف ہیں تو انھوں نے اپنی ضیعف العمری اور خراب صحت کے باوجود ان صدارتی انتخابات میں حصہ لیا جس میں ان کے مقابل جنرل ایوب خان تھے ۔ عوام نے اور بہ طور خاص کراچی اور مشرقی پاکستان کے لوگوں نے ووٹ محترمہ فاطمہ جناح کو ڈالے لیکن جیتنا تو اسی شخص کو تھا جو عوام کا حق حکمرانی غصب کیے بیٹھا تھا۔
آج یہ تمام خواتین یاد آرہی ہیں تو اس لیے کہ انھوں نے جس پاکستان کا خواب دیکھا اور دکھایا تھا، وہ کم از کم یہاں کی عام عورت کے لیے خواب سراب بن گیا ہے۔ ان کے بعد آنے والی بیگم اصغر خان، بیگم نسیم ولی خان، بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو، بیگم کلثوم نواز وہ خواتین ہیں جنہوں نے سیاست میں بھرپور حصہ لیا اور کوشش کی کہ پاکستانی مردوں اور عورتوں کی زندگی بدل سکیں۔یہ طبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھتی تھیں لیکن اپنے پرُ آسائش گھروں سے نکل کر غریب کی کٹیا تک گئیں۔ ان کا دکھ درد محسوس کیا اور ان کی زندگی بدلنے کی کوشش کی۔ بے نظیر بھٹو نے اس راہ میں اپنی جان بھی دے دی اور ہرپاکستانی کو بہ طور خاص پاکستان کی عورت کو یہ سکھا گئیں کہ سیاست میں حصہ داری اس کا حق ہے اور اسے ہر قیمت پر یہ حق حاصل کرنا چاہیے۔
ایک ایسے ملک میں خبر آتی ہے کہ باجوڑ ایجنسی میں صرف 2800 عورتیں ووٹ ڈالنے کا حق استعمال کرسکیں جب کہ وہاں1,30,827 خواتین رجسٹرڈ ووٹر ہیں۔ الیکشن کمیشن کے افسران کا کہنا ہے کہ اس علاقے کے بڑوں، مولویوں اور سیاسی جماعتوں نے انتخابات سے پہلے ہمیں یقین دلایا تھا کہ وہ عورتوں کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکیں گے لیکن انھوں نے اپنے اس وعدے کی پاسداری نہیں کی اور انتخابات کے دن اپنی عورتوں کو گھروں سے نہیں نکلنے دیا۔
اس علاقے میں حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ علاقے میں رہنے والی 50 فیصد سے زیادہ عورتیں اپنے دیہاتوں اور قصبوں کی بہتری میں سرگرم حصہ لیتی ہیں۔ انھیں اپنے جمہوری اور آئینی حق سے محروم کرنا افسوسناک بات ہے۔ اس علاقے میں صرف این اے 44 میں خواتین نے ووٹ ڈالے اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہاں سے کھڑے ہونے والے امیدوار شہاب الدین خان نے اس بات پر اصرار کیا کہ ان کے حلقے کی عورتیں ووٹ ڈالیں گی۔ شہاب الدین کا تعلق پی ایم ایل (ن) سے ہے اور وہ اپنی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
خیبر ایجنسی اور اس کے آس پاس کے علاقوں کی خواتین بھی ووٹ ڈالنے سے محروم رہیں۔ حد تو یہ ہے کہ نوشہرہ اور پشاور کے بعض محلوں میں رہنے والی عورتوں پر بھی ان کے بڑوں کو اتنا دبائو تھا کہ وہ 11 مئی کو ووٹ نہ ڈال سکیں۔ مانسہرہ ، خانیوال میںبھی عمائدین کے جرگے میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ان کی عورتیں ووٹ نہیں ڈالیں گی، چنانچہ اس فیصلے پر عمل ہوا۔ پشاور کے بعض علاقوں میں پولنگ اسٹیشن تک پہنچ جانے والیوں کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی اور وہ بے نیل و مرام اپنے گھروں کو گئیں۔
اسلام آباد سے 160کلومیٹر جنوب میں ایک گائوں مٹیلا ہے جہاں 2008 میں کسی عورت کوووٹ ڈالنے نہیں دیا گیا تھا۔ اس مرتبہ بھی جرگہ بیٹھا اور اس نے حکم دیا کہ کوئی عورت پولنگ اسٹیشن کا رخ نہ کرے۔ گھر کے مردوں کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنی عورتوں سے اس حکم کی تعمیل کروائیں گے۔میانوالی کے علاقے پے خیل کونسل میں عورتوں کے لگ بھگ 8 ہزار وو ٹ ہیں۔ اس علاقے کے بزرگوں نے ابتدا میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دے دی تھی لیکن بعد میں وہ اپنے اس وعدے سے پھر گئے۔ نواب آف کالا باغ کی پوتی عائلہ ملک اس یونین کونسل میں کئی مرتبہ گئیں لیکن انھیں اپنی کوششوں میں ناکامی ہوئی۔ علاقے کے ایک بزرگ علی خان نے کہا ''یہ ہماری غیرت کا مسئلہ ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو سیاست سے دور رکھیں۔ ہم اپنے بزرگوں کی اس روایت کو بھلا کیسے تبدیل کرسکتے ہیں؟''
اسی طرح اس علاقے کے ایک بزرگ بابا تورا باز خان نے کہا کہ میں اپنی موت تک ان روایات کو زندہ رکھوں گا کیونکہ عورت کا اصل مقام اس کے گھر کی چار دیواری کے اندر ہے۔اس علاقے کی ایک خاتون جو سیاست میں حصہ لینے اور اپنے علاقے کی تقدیر بدلنے کی خواہاں ہیں۔ انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ11 مئی کو صبح سویرے مسجدوں سے یہ اعلان ہوگیا تھا کہ مرد اپنی عورتوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ کئی علاقے ایسے تھے جہاں انتخابات سے کئی دن پہلے علاقے کے عمائدین اورعورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی انجمنوں کے درمیان یہ معاہدہ ہوگیا تھا کہ وہ اپنے اپنے حلقے کی عورتوں کو انتخابی عمل سے دور نہیں رکھیں گے لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔
صنفی بنیاد پر انتخابات کی نگرانی کے لیے جینڈر الیکشن مانیٹرنگ ٹیم 5 مئی کو پاکستان پہنچ گئی تھی ۔ اس نے 11 مئی کوملک کے مختلف اضلاع کے دورے کیے اور انتخابی عمل میں عورتوں کی حصہ داری کا جائزہ لیا۔ اس نوعیت کے جائزے، لیبیا، مراکش اور تیونس میں بھی لیے جاچکے ہیں۔ یہ سب اس لیے ہے کہ عالمی برادری پاکستانی عورت کی انتخابات میں حصہ داری کو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی سے منسلک سمجھتی ہے۔
2013 کے انتخابی نتائج کے ایک سرسری جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی خواتین نے جنرل نشستوں پر شاندار کامیابی حاصل کی۔ سمیرا ملک نے خوشاب NA-69 سے 1,18,108، جھنگ چنیوٹ این اے 88 سے غلام بی بی بھروانا نے 87,002 اور این اے 102 حافظ آباد سے سائرہ افضل تارڑ نے 93,013 ووٹ حاصل کیے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی ڈاکٹر عذرافضل نے نواب شاہ این اے 213سے 1,11,667 ، ان کی بہن فریال تالپور نے لاڑکانہ این اے 207 سے 83,916 اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے بدین این اے 225 سے 1,10,684 ووٹ حاصل کیے۔ یہ نتائج اس بات کا اشارہ ہیں کہ جن علاقوں میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کی آزادی تھی وہاں نتائج کتنے شاندار رہے ہیں۔
پاکستان کے قیام کے وقت ہماری خواتین نے سماجی اور سیاسی استحکام میں حصہ لیا تھا اور نچلے اور متوسط طبقات کی عورت کو قومی ترقی کے دھارے میں شامل کیا تھا۔ یہ سلسلہ جاری رہتا تو آج ہمیں اس بات پر آنسو نہ بہانے پڑتے کہ کن کن علاقوں میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا۔وہ سفر جو محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت، بیگم شائستہ اکرام اللہ نے آغازکیا اور جسے بیگم نصرت بھٹو نے جاں فشانی سے اور بے نظیر بھٹو نے اپنی جان دے کر آگے بڑھایا تھا۔ اسے جاری رہنا چاہیے۔