پاکستانی خواتین دیار ِ غیر میں عیدالاضحیٰ کیسے مناتی ہیں؟

منیرہ عادل  پير 20 اگست 2018
وطن عزیز میں عیدالاضحیٰ کے مذہبی تہوار کی یہ رونقیں دلوں میں مذہبی جوش و جذبہ، یہی سب اس عید کا خاصا ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

وطن عزیز میں عیدالاضحیٰ کے مذہبی تہوار کی یہ رونقیں دلوں میں مذہبی جوش و جذبہ، یہی سب اس عید کا خاصا ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

عیدالاضحیٰ سے کئی دن قبل جانور کی خریداری کے لیے منڈی جانا، قربانی کے جانور کی دیکھ بھال کرنا، عید کے دن جانوروں کی قربانی کے بعد گھروں میں کلیجی پکانا، گوشت کے پیکٹ بناکر غربا اور رشتے داروں میں تقسیم کرنا، کھانے میں گوشت کی لذیذ ڈشز تیار کرنا اور رات کو خاندان بھر کا مل کر باربی کیو کا اہتمام کرنا، وطن عزیز میں عیدالاضحیٰ کے مذہبی تہوار کی یہ رونقیں دلوں میں مذہبی جوش و جذبہ، یہی سب اس عید کا خاصا ہیں۔

دیار ِ غیر میں ہماری ہم وطن بہنیں کس طرح عید کا اہتمام کرتی ہیں، وہاں قربانی کس طرح کی جاتی ہے، یہی جاننے کے لیے ہم نے غیرملکوں میں مقیم اپنی چند خواتین بہنوں  سے کچھ باتیں کیں، انھوں نے جو کچھ بتایا، وہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:

آمنہ فہد(سعودی عرب)

آمنہ فہد سعودی عرب کے شہر ریاض میں مقیم ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ عیدالاضحیٰ کے لیے جانور خرید کر گھر کے باہر باندھ کر اس کی دیکھ بھال کرنا، اس کی یہاں بالکل اجازت نہیں ہے۔ عید کے دن مرد حضرات سلاٹر ہائوس جاتے ہیں اور اپنی حیثیت کے مطابق وہاں سے جانور پسند کرکے خرید کر وہیں قربانی بھی ہوجاتی ہے اور وہیں گوشت بھی دے دیا جاتا ہے۔ وہ لوگ چار ٹکڑوں میں کٹا ہوا دیتے ہیں۔ یہاں پر زیادہ تر بکرا، دنبہ اور اونٹ کی قربانی ہوتی ہے۔ بہرحال قربانی کے بعد گوشت گھر لے آتے ہیں۔ عید کے دن بریانی وغیرہ پکائی  جاتی ہے اور قربانی کے گوشت کی کلیجی وغیرہ بھی پکالی جاتی ہے۔ عید ملن پارٹیوں میں ملنا ملانا ہوتا ہے۔ کسی کے گھر چلے جاتے ہیں تو وہاں مل لیتے ہیں۔ اکثر سب اپنے حصے کے گوشت کو مسالا لگاکر پھر سب لوگ مل کر پارک چلے جاتے ہیں۔ وہاں باربی کیو کرتے ہیں۔ باربی کیو زیادہ بنایا جاتا ہے۔ مرد باربی کیو کرتے اور خواتین اور بچے خوب انجوائے کرتے ہیں۔ پارکس میں باربی کیو کا انتظام ہوتا ہے ہم نے دیکھا ہے، یہاں پر سعودی لوگوں کے پاس پورا انتظام ہوتا ہے۔ کوئلوں کو جلانے کا اور دوسری اشیا سب بہت اچھی یہاں دست یاب ہوتی ہیں،  بہت مزہ آتا ہے۔ یہاں پارکس میں بہت اہتمام سے باربی کیو کیا جارہا ہوتا ہے، البتہ پاکستان میں جانوروں کی دیکھ بھال ہورہی ہوتی ہے، کافی دن پہلے جانور خرید لیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں گھر کے مردوں کو اکثر یہی ہوتا ہے کہ گائے لینے جارہے ہیں، بکرا لینے جانا ہے تو ہمیں بھی اپنے وطن کی وہ رونقیں، وہ سب یاد آتا ہے۔ عید پر باربی کیو زیادہ لوگ کرتے ہیں۔ اگر کوئی مہمان بھی آجائے تو باربی کیو،  بوٹی تکہ اورگوشت کی بریانی پکالیتے ہیں۔ یہاں بریانی کا بہت رواج ہے، کیوں کہ بریانی بھی بہت یاد آتی ہے، خاص طور سے  پاکستان کی دیگ کی بریانی۔

 نرگس عثمان غنی (برطانیہ)

نرگس برطانیہ کے شہر برمنگھم میں مقیم ہیں انھوں نے بتایاکہ دو ہفتے قبل کراچی آئی ہوں۔ چودہ سال بعد عیدالاضحیٰپاکستان میں منائوںگی۔ برمنگھم میں میٹ شاپس  پر عید سے دو ہفتے قبل اشتہار آجاتا ہے جس میں تحریر ہوتا ہے کہ مکمل جانور یا فی حصہ کیا قیمت ہے یا پھر کچھ لوگ شہر سے باہر جاکر قربانی کرواتے ہیں۔ میٹ شاپ میں جو لوگ لکھوادیتے ہیں، ان کو وہ گوشت بناکر دے دیتے ہیں لیکن بہت کم لوگ یہاں قربانی کرتے ہیں۔ ہم لوگ پاکستان میں کروادیتے ہیں۔ یہاں زیادہ تر بکرے یا بھیڑ کی قربانی کی جاتی ہے۔ عید کے دن گھر کے مرد حضرات صبح عید کی نماز پڑھنے جاتے ہیں پھر کبھی قبرستان چلے جاتے ہیں جو پچیس منٹ کی مسافت پر ہے۔ پھر میری امی کے گھر ناشتہ ہوتا ہے تو میرا شوہر اور بیٹا بھی نماز کے بعد آجاتے ہیں۔ چنا پوری، آلو بجھیا، قیمہ یہ سب ناشتے میں ہوتا ہے، پھر پہلے سے خریدے گئے گوشت سے ران بناتے ہیں۔ روسٹ پوٹیٹو، چاول، گارلک بریڈ وغیرہ کھانے میری بھابھی بناتی ہیں،  میں بھی ان کی مدد کرتی ہوں۔ میرے شوہر پاکستانی مٹھائی کی دکان سے مٹھائی لاتے ہیں۔ ایک دو گھرانے وہاں قربانی کرتے ہیں تو وہ گوشت بانٹتے ہیں۔ عید کی دعوتیں پاکستان کی طرح نہیں ہوتیں، البتہ عید سے پہلے یا بعد میں ہوتی ہیں تو ایک ایک ڈش سب بناکر لے جاتے ہیں۔ پاکستان سے عید کے دن صبح سے دوپہر دو بجے تک فون آتے رہتے ہیں۔ میرا سسرال، بھابھی کا میکہ اور ابو کے لیے فون آتے ہیں۔ خواتین کی عید تو پکانے اور برتن دھونے، صفائی کرنے میں گزرجاتی ہے۔ پاکستان میں قیمے کا پراٹھا جس کو لاہور والے قتلمبہ کہتے ہیں،  وہ بہت بنتا ہے اور پسند کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں عید کا ماحول، خاندان کی دعوتیں،  فیملی اور رشتے دار وغیرہ سب یاد آتے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ پاکستان میں قربانی کے بعد تازہ کلیجی وغیرہ بناتے ہیں۔ یہ سب برمنگھم میں ہم بہت یاد کرتے ہیں۔

فرزانہ عبدالکریم (متحدہ عرب امارات)

فرزانہ متحدہ عرب امارات کی ریاست شارجہ میں مقیم ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ یہاں پاکستان کی طرح جانور نہیں خریدے جاتے، سلاٹر ہائوس میں ہی جانور پسند کیا وہی رکھا ور عید کے پہلے یا دوسرے دن وہیں قربانی کروادیتے ہیں۔ عید کا کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا،  میں قورمہ وغیرہ ہی بناتی ہوں، کیوں کہ ہم قربانی پاکستان میں ہی کرواتے ہیں، یہاں نہیں کرتے اس لیے مجھے یہاں کا زیادہ علم نہیں۔ اتفاق ہے کہ زیادہ تر عیدالاضحیٰ ہم پاکستان میں ہی گزارتے ہیں۔ بہت کم عیدیں یہاں منائی ہیں۔ زیادہ تر عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کراچی میں ہی ہوتی ہیں تو یہاں کوئی ایسا خاص اہتمام نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ کسی کے گھر چلے گئے تو ملنا ملانا ہوگیا۔ دوپہر کا کھانا کھالیا یا میرے گھر پر کوئی آگیا،  خاص کوئی تقریب یا دعوت وغیر کچھ نہیں ہوتی یعنی ہم لوگ نہیں جاتے۔ پہلے دن ملنا ملانا ہوتا ہے،  ہم کسی کے گھر چلے یا کوئی ہمارے گھر آگیا، اس طرح دوسرے دن گھومنے چلے جاتے ہیں۔ یہاں کوئی رشتے دار نہیں ہیں اور اکثریت عیدالاضحیٰ کے موقع پر پاکستان چلی جاتی ہے،  ایک طرح سے یہاں کی عید بوریت والی ہوتی ہے۔ جس طرح پاکستان میں تو ایک اہتمام ہوتا ہے ناں عیدالفطر کا بھی اور عیدالاضحیٰ کا بھی، لیکن  یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اس عید پر میرے بچے اور میرے شوہر پاکستان میں منڈی جانا، ایک ہفتہ  پہلے جانور خریدنا، پھر اس کی دیکھ بھال کرنا، ان سب چیزوں کو ہم بہت یاد کرتے ہیں اور عید کے دن قربانی ہوتی ہے، دوسرے دن میری نندیں وغیرہ آتی ہیں تو ہم باربی کیو کرتے ہیں، یہ سب ہم بہت یاد کرتے ہیں۔ فیملی کو بہت یاد کرتے ہیں تو عیدالاضحیٰ پر تو سب کی بہت یاد آتی ہے۔

نوشابہ قریشی (کینیڈا)

نوشابہ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں رہتی ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ یہاں قربانی کا یہ سلسلہ ہے کہ وہ دکانیں جہاں حلال گوشت ملتا ہے،  وہاں لکھا ہوتا ہے کہ فی حصے یا پورے جانور کیا قیمت ہے۔ مثلاً پچھلے سال ڈھائی سو ڈالر کا بکرا اور ساڑھے تین سو ڈالر کا گائے کا حصہ تھا۔  جس کو قربانی کرنی ہوتی ہے، وہ عید سے قبل رقم کی ادائیگی کرکے رسید لے کر جو وقت بتایاجاتا ہے، اس پر پہنچ جاتا ہے اور کٹا ہوا پیک گوشت وہاں سے لے کر آجاتا ہے،  البتہ اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ خود قربانی کرے یا اپنے بچوں کو دکھائے تو وہ لوگ پھر چھٹی کرتے ہیں اور شہر سے باہر جہاں کھیت وغیرہ ہیں،  وہاں جاکر جانور خریدتے ہیں، بچے گھنٹہ دو گھنٹے جانور کی دیکھ بھال کرتے ہیں پھر جانور خریدتے ہیں وہیں قربانی کرتے ہیں۔ وہاں جو مقامی کسان وغیرہ ہوتے ہیں،  وہ ذبح کردیتے ہیں مگر صرف جانور کا سر علیحدہ کرکے دیتے ہیں۔ باقی کھال علیحدہ کرنا اور گوشت بنانا قربانی کرنے والے کا کام ہوتا ہے۔ زیادہ تر یہاں بکرے، بچھڑے یا بھیڑ کی قربانی کی جاتی ہے۔ عید کے دن اہل خانہ کی پسند کے مطابق کھانا بنتا ہے۔ گوشت پہلے سے خرید لیا جاتا ہے،  کیوں کہ ہم قربانی پاکستان میں کرواتے ہیں تو کڑاہی گوشت یا بریانی پکالی جاتی ہے یا باربی کیو کیا جاتا ہے۔ یہاں عید ملن پارٹیاں ہوتی ہیں۔ اس طرح خاندان یا احباب سے میل ملاقات بھی ہوجاتی ہے اور ان کی پسند کے کھانے بھی تیار کرلیے جاتے ہیں اور سب مل کر کھاتے ہیں۔ ہر ایک کے ذمے مختلف ڈش ہوتی ہے مثلاً کوئی میٹھا بناکر لائے گا،  کوئی کولڈرنک اور کوئی برتن وغیرہ لے کر آئے گا،  البتہ پاکستان میں اپنی فیملی اور سہیلیوں کے ساتھ وقت گزارنا،  ید کے ملبوسات کی خریداری کرنے بازار جانا،  یہ سب بہت یاد آتا ہے۔ خصوصاً والدین بہت یاد آتے ہیں۔ کھانے میں یہاں میں ہر سال کچھ خاص اور نیا بنانے کی کوشش کرتی ہوں۔ ہر سال میرے گھر میں باربی کیو اور بریانی پکائی جاتی ہے،  لیکن اس سال میں ایرانی کباب بنائوںگی۔ لوگ عیدالاضحیٰ سے قبل گوشت کے لیے آرڈر بک کروادیتے ہیں اور گوشت جمع کرلیتے ہیں کیوں کہ پھر عید کے بعد دو ہفتوں تک اسٹورز پر گوشت نہیں ملتا۔ ہم نے کبھی یہاں قربانی نہیں کی،گوشت کی تقسیم بھی ایک مسئلہ ہے کیوں کہ عید کے دن ہماری چھٹی نہیں ہوتی اور تمام لوگ خاصے فاصلے پر رہے ہیں،  ان کو خود لے جاکر پہنچانا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے،  لہٰذا ہر سال ہم پاکستان پیسے بھیج دیتے ہیں ہماری قربانی ہمیشہ پاکستان  میں ہوتی ہے۔ قربانی کا حقیقی معنی تو ان لوگوں کو گوشت دینا ہے جو یہ سب خریدنے کے قابل نہیں ہیں۔ لہٰذا ہم عید کی حقیقی روح محسوس کرکے خوش ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری ان نیکیوں کو قبول فرمائے، آمین

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔