سی این جی تقسیم کا فیصلہ طاقتور لابیوں کے ایما پر کیا گیا غیاث پراچہ

خزانے پر کھربوں کا بوجھ ڈالا، شعبے کو تباہ کرنے کی سازش کی گئی، سی این جی ایسوسی ایشن


Numainda Express May 24, 2013
خزانے پر کھربوں کا بوجھ ڈالا، شعبے کو تباہ کرنے کی سازش کی گئی، سی این جی ایسوسی ایشن۔ فوٹو: فائل

چیئرمین سپریم کونسل آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن غیاث عبداللہ پراچہ نے کہا ہے کہ حکومت نے طاقتور لابیوں کی ایما پر غلط اعداد و شماد کی بنیاد پرگیس کی غیر منصفانہ تقسیم سے خزانے پر کھربوں کا بوجھ ڈالا اور سی این جی سیکٹر جو عوام اور حکومت کو اربوں روپے بچا کر دے رہا تھا کو تباہ کرنے کی سازش کی۔

سی این جی لوڈ شیڈنگ ختم ہونے سے ملک و قوم کو سالانہ 600ارب روپے کا فائدہ ہوگا جس میں 400 ارب پٹرول کی خریداری کی مد میں اور 200 ارب کرائے، نقل و حمل اور افراط زروغیرہ کی مد میں بچیں گے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران پٹرول کا متبادل سی این جی استعمال کرنے کے سبب عوام کو 270 ارب روپے کی بچت ہوئی۔ سوئی نادرن اور سوئی سدرن کی اپریل 2013 کی سی این جی سیکٹر کی بلنگ رپورٹ کے مطابق سی این جی شعبہ256 ایم ایم سی ایف گیس استعمال کر رہا ہے جوگیس کی کل پیداوار 4200 ملین مکعب فٹ کا چھ فیصد ہے۔ اس میں سے 129 ملین مکعب فٹ پنجاب، 63 ملیئن مکعب فُٹ خیبر پختونخواہ اور 64 ایم ایم سی ایف سندھ اور بلوچستان استعمال کر رہے ہیں۔



سی این جی کے شعبے سے گیس استعمال کرنے والے دیگرشعبوں کی دی جانے والی کل سبسڈی میں سے 32 ارب روپے وصول کیے جبکہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی صورت میںادائیگی 75 ارب سالانہ ہوسکتی ہے۔ غیاث عبداللہ پراچہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اگر اس شعبے کو گیس نہ ملے تو عوام پر پٹرول کی اضافی قیمت اور افراط زر کی صورت میں سالانہ 600 ارب کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ سی این جی شعبہ 86 فیصد استعداد پر چل رہا ہے جبکہ نجی بجلی گھروں کی کارکردگی صرف 29 فیصد تک ہے۔

انھوں نے کہا کہ سی این جی سیکٹربڑھتے ہوئے آئل امپورٹ بل، افراط زر اور ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کا ایک اہم زریعہ ہے مگر بعض اقدامات کی وجہ سے سی این جی آپریٹرز اپنے اخراجات تک پورے کرنے کے قابل بھی نہیں رہے اور یہ شعبہ تباہی کے دہانے تک پہنچ چکا ہے۔ نگراں وزیر پٹرولیم طاقتور لابیوں کے اثر رسوخ کے سبب گیس کی منصفانہ تقسیم سمیت ایک وعدہ بھی پورا نہیں کر سکے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں