بلوچستان کی نئی صورتحال

بلوچستان میں مسلم لیگ ن، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی حکومت کے قیام کے لیے حالات سازگار ہوگئے ہیں۔


Dr Tauseef Ahmed Khan May 24, 2013
[email protected]

بلوچستان میں مسلم لیگ ن، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی حکومت کے قیام کے لیے حالات سازگار ہوگئے ہیں۔ کیا اس دفعہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا رکن وزیراعلیٰ بنے گا؟ یہ سوال ہنوز طے نہیں ہوا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اختر مینگل اسٹبلشمنٹ کا شکار ہوئے۔

پہلی دفعہ جمعیت علمائے اسلام بلوچستان میں وزارتوں سے محروم ہوگئی۔ بلوچستان کے کچھ علاقوں میں ووٹنگ کی شرح انتہائی کم رہی۔ 600 ووٹ حاصل کرنے والا ایک امیدوار صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب ہوگیا۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے 2008 میں ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ یہ بائیکاٹ بلوچ علیحدگی پسندوں کی دھمکیوں اور لندن میں میاں نواز شریف کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں بائیکاٹ کے فیصلے کی بنا پر کیا گیا تھا، اسٹبلشمنٹ نے قوم پرستوں کے اس فیصلے سے خوب فائدہ اٹھایا تھا۔

بلوچستان کے مختلف علاقوں سے مسلم لیگ ق اور آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے، پھر یہ امیدوار سردار اسلم رئیسانی کی قیادت میں متحد ہوئے اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی مگر بلوچستان کے حالات خراب تر ہوتے چلے گئے۔ سردار اسلم رئیسانی نے وزیروں کی برات کی شکل میں کابینہ بنائی اور ہر وزیر اور رکن اسمبلی کو کروڑوں روپے کے فنڈز دیے گئے۔

وزیراعظم گیلانی نے آغاز حقوق بلوچستان کے تحت ملازمتوں اور ترقیوں کے پیکیج کا اعلان کیا اور نئے قومی مالیاتی ایوارڈ پر دستخط ہوئے، 18 ویں ترمیم کے بعد کئی وزارتیں صوبوں کو منتقل ہوئیں اور صوبوں کو نئے فنڈز ملے، رئیسانی حکومت کے وزراء اور اراکین اسمبلی نے اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔

قومی، صوبائی اسمبلی کے اراکین اور منسٹروں کو ترقیاتی منصوبوںکی تکمیل کے لیے خاطر خواہ فنڈز ملے مگر یہ سب رقم بلوچستان کی ترقی پر خرچ نہیں ہوسکی، صرف کوئٹہ شہر کی سڑکوں اور گلیوں اور گندے پانی کی نکاسی کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال مایوس کن نظر آتی ہے۔

تعلیم، صحت اور روزگار کی اسکیمیں محض کاغذوں تک محدود ہوگئیں۔ پیپلزپارٹی کی سب سے بڑی حامی برادری فوج کی طرف متوجہ ہوئی،ایک طرف بلوچ علیحدگی پسندوں کی کارروائیاں ، سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے اور مسخ شدہ لاشوں کے برآمد ہونے، خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں ایک ہی برادری کی نسل کشی نے پوری دنیا کو ہلادیا، بلوچستان میں آباد دوسرے صوبوں سے آنے والے افراد کو ایک منظم منصوبے کے تحت نشانہ بنایا گیا۔

پہلی دفعہ بیس بیس سال سے بلوچستان یونیورسٹی میں فرائض انجام دینے والے پروفیسرز کو دھمکیاں دی گئیں، ان دھمکیوں پر عملدرآمد میں ناظمہ طالب اور ڈاکٹر چشتی مجاہد جیسے لوگ قتل ہوئے۔ اس صورتحال میں بلوچستان میں تعلیمی نظام بری طرح متاثر ہوا، امن و امان کی مجموعی صورتحال انتہائی خراب ہوگئی، اغوا برائے تاوان اور کاریں چھیننے کے کاروبار میں وزرا اور اراکین اسمبلی کا نام لیا جانے لگا۔ بلوچستان سے بہت سے ماہرین اور پروفیشنلز دوسسرے صوبوں میں چلے گئے۔

جب سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ تیز ہوا تو وزیراعلیٰ رئیسانی نے بہت واضح انداز میں انکشاف کیا کہ ان کی حکومت کی عملداری صرف کوئٹہ شہر تک محدود ہے، صوبوں کے باقی حصے پر فرنٹیئر کانسٹیبلری کا راج ہے۔ ہولناک بم دھماکے آج بھی ہورہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے معزز چیف جسٹس نے کئی ماہ بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کی۔ انھوں نے مسخ شدہ لاشوں کے مقدمے میں سخت ریمارکس دیے، بلوچ انتہا پسندوں نے نیشنل پارٹی کے کارکنوں کو نشانہ بنانا شروع کیا، اس صورتحال کا نشانہ مولا بخش دشتی جیسے سیاسی کارکن بنے۔ انسانی حقوق کی پامالی کا معاملہ پہلے قومی سطح پر ابھرا پھر عالمی سطح پر بحث ہونے لگی۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے جینیوا میں ہونے والے اجلاسوں میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال ایجنڈا میں سرفہرست ہوگئی۔

جینیوا میں ہونے والے اجلاسوں میں بعض حلقوں نے بلوچستان کے حق میں Right of Self Determination کو منوانے کے لیے ریفرنڈم کی تجویز کی قرارداد پیش کردی۔ اس صورتحال میں سردار اختر مینگل پاکستان آئے، انھوں نے سپریم کورٹ میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ اختر مینگل نے اپنے بیان میں کہا کہ جب تک بلوچستان میں ایجنسیوں کی حکومت رہے گی امن قائم نہیں ہوگا۔ میاں نواز شریف سمیت کئی سیاست دانوں نے سردار اختر مینگل کے موقف کی حمایت کی۔

بلوچستان نیشنل پارٹی نے 11 مئی کے انتخابات کے موقع پر واضح موقف اختیار کیا کہ ان کی جماعت پاکستان کے 1973 کے آئینی فیڈریشن پر یقین رکھتی ہے مگر ان کی جماعت 1940 کی قرارداد لاہور کے تحت صوبوں کو مکمل خودمختاری دینے کی خواہاں ہے۔ انتخابات کے وقت سردار مینگل کا یہ مناسب فیصلہ تھا۔

نیشنل پیپلزپارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور محمود اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران میاں نواز شریف کوئٹہ گئے، انھوں نے سردار اختر مینگل کو یقین دلایا کہ اب 1999 کی طرح کی غلطی نہیں کریں گے۔

مسلم لیگ کے دوسرے دور میں سردار مینگل کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے معزول کیا گیا تھا۔ یوں بلوچستا ن میں انتخابی مہم شروع ہوئی، انتہا پسندوں نے نیشنل پارٹی کے کارکنوں اور دفاتر کو نشانہ بنایا۔ سیاسی رہنما ڈاکٹر عبدالمالک کے گھر پر حملہ ہوا، وہ ایک حملے میں بال بال بچ گئے۔

بلوچستان میں ہونے والے انتخابات میں پختونخوا ملی پارٹی، مسلم لیگ ن اور نیشنل پارٹی کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔ سردار اختر مینگل کے 11 مئی کے انتخاب میں فرائض انجام دینے والے پریذائیڈنگ افسران لاپتہ ہوگئے، یہ افسران فرنٹیئر کانسٹیبلری کے دستوں کی حفاظت میں اپنی ڈیوٹیاں دینے گئے تھے، اختر مینگل یہ الزام لگاتے رہے کہ اسٹبلشمنٹ انھیں منتخب ہونے سے روک رہی ہے۔ اس صورتحال میں میاں شہباز شریف کوئٹہ پہنچ گئے، ان کی محمود اچکزئی، ڈاکٹر مالک، سردار ثناء اﷲ زہری، نواب اختر مینگل وغیرہ سے ملاقات ہوئی۔

یہ طے ہوا کہ نئی حکومت میں جے یو آئی، مسلم لیگ ق اور ان دوسری قوتوں کو شامل کیا جائے جو 1988 میں کسی نہ کسی طرح اقتدار میں رہے اور میاں نواز شریف کو بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ مقرر کرنے کے معاملے پر اتفاق ہوا مگر بلوچستان نیشنل پارٹی کے الزامات سے یہ محسوس ہونے لگا کہ اسٹبلشمنٹ بلوچستان میں دوبارہ اپنا کھیل کھیل رہی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران سردار ثناء اﷲ زہری کے قافلے پر ریموٹ کنٹرول دھماکا ہوا۔ دھماکے میں سردار ثناء اﷲ زہری کا بیٹا اور بھائی جاں بحق ہوئے۔

سردار زہری نے اپنے بیٹے اور بھائی کے قتل کی ایف آئی آر سردار عطا مینگل اور اختر مینگل سمیت علیحدگی پسندوں کے خلاف درج کرائی، یوں ایک نئی قبائلی جنگ کے امکانات پیدا ہوگئے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سردار زہری کو وزیراعلیٰ بنانے کا معاملہ پیچیدہ ہورہا ہے۔ اس صورتحال میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مالک بہتر انتخاب ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر مالک مارکسزم کے طالب علم ہیں، اگر وہ وزیراعلیٰ بن گئے تو بلوچستان میں نئے دور کا آغاز ہوگا۔ اب نئی قائم ہونے والی حکومت کو نئے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا، ایک طرف پورے بلوچستان میں امن و امان کو بہتر بنانا ہوگا، قبائلی جنگوں کو روکنا ہوگا اس کے ساتھ بلوچستان میں سیکیورٹی فورس کا آپریشن ختم کرنا اور جو کارکن خفیہ ایجنسیوں کے تحت مقید ہیں ان کی رہائی ضروری ہے۔ اچھی طرز حکومت سے سماجی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔

ڈاکٹر مالک، حاصل بزنجو، طاہر بزنجو وغیرہ کا تعلق متوسط طبقے سے ہے، ان کا ماضی شفاف ہے، اب سرداروں کے ساتھ حکومت میں خود کو شفاف رکھنا مشکل کام ہوگا، اگر اس حکومت کو آزادی سے کام کرنے دیا گیا ، ترقی کا عمل بہتر ہوا تو یہ تجربہ کامیاب ہوگا ورنہ صورتحال اچھی نہیں ر ہے گی اور بلوچستان میں بدامنی کا ذریعہ بنے گی، ملکی سالمیت کے خلاف ایک خطرہ رہے گا۔

بلوچستان میں اگر جمہوری طریقہ کار اور تمام قوم پرستوں سب کو ساتھ لے کر چلنے کے بجائے غلط فیصلے کرنے کی کوشش کی گئی تو جمہوری نظام ڈی ریل ہونے کا بھی شدید خطرہ ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں