نئے پاکستان میں استاد کا مقام

عدیل عباس  پير 3 ستمبر 2018
کیا پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں تبدیلی اساتذہ کو ان کا کھویا ہوا مقام واپس دلا پائے گی؟ فوٹو: انٹرنیٹ

کیا پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں تبدیلی اساتذہ کو ان کا کھویا ہوا مقام واپس دلا پائے گی؟ فوٹو: انٹرنیٹ

الیکشن 2018 میں عمران خان کی جیت میں اہم کردار ادا کرکے پاکستان کی عوام نے اس نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے جس پاکستان کا وعدہ کرکے ان کے ووٹ حاصل کیے گئے۔ ایسے پاکستان کا وعدہ جس پاکستان میں امید ہے، جس میں ہر ایک کےلیے برابر کے مواقع ہوں گے، جس پاکستان میں کوئی غریب نہیں ہو گا، جس پاکستان میں کوئی کرپشن نہیں کرے گا، جس پاکستان میں ہر نوجوان کو نوکری ملے گی، جس پاکستان میں ہر بے گھر کو اپنا گھر ملے گا، جس پاکستان میں قانون سے اوپر کوئی نہیں ہو گا اور جس میں ہر پاکستانی کی رائے اہم ہو گی۔

نئے پاکستان کا جو خواب عمران خان نے دیکھا تھا، اب اس خواب کو پورا کر کے دکھانے کا وقت آ گیا ہے۔ اور اب محض باتیں کر کے یا زبانی جمع خرچ سے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا، بلکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ جہاں ہر پاکستانی تبدیلی کا خواب دل میں لے کر بیٹھا ہے، وہیں اس ملک کے اساتذہ اور خاص طور پر پنجاب کے اسکول، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے اساتذہ بھی عمران خان کی خصوصی توجہ حاصل کرکے اپنے مسائل ان تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ کیا پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں تبدیلی اساتذہ کو ان کا کھویا ہوا مقام واپس دلا پائے گی، یا نئے پاکستان میں بھی استاد دشمن پالیسیاں ہی جاری رکھی جائیں گی۔ پنجاب میں حکومت کی تبدیلی میں اساتذہ کے ووٹوں کی بہت اہمیت ہے جو نہ صرف خود تبدیلی کو ووٹ دے کر آئے ہیں بلکہ ان کے زیراثر افراد بھی تبدیلی کےلیے الیکشن کے روز گھر سے نکلے ہیں۔

اساتذہ کے کچھ اہم مسائل کی تفصیل نیچے دی جا رہی ہے جن مسائل کی بنیادی وجہ پچھلی حکومت کی غلط اور استاد دشمن پالیسیاں ہیں۔

اساتذہ کی چھٹیوں پر خود ساختہ ضلعی پابندیاں

مانیٹرنگ اور خود ساختہ ضلعی درجہ بندی میں آخری نمبرز سے بچنے کےلیے اساتذہ کی ماہانہ 2 چھٹیوں کے حق کو ہر ضلع کے ایجوکیشن آفیسرز ناجائز طور پر ختم کیے بیٹھے ہیں۔ انتہائی مجبوری کی صورت میں بھی چھٹی نہیں دی جاتی اور مانیٹرنگ کے ہو جانے یا نہ ہونے کو پیمانہ بنایا جاتا ہے، اس کے بعد بھی اساتذہ کی چھٹی کو ہر ضلع اپنی رینکنگ میں اضافے کے راستے میں کانٹا سمجھتے ہیں، اور اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ ڈپٹی صاحب نے، یا سی ای او صاحب نے چھٹی پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔ براہ مہربانی یا تو یہ ضلعی درجی بندی کا نظام ختم کیا جائے اور یا پھر اساتذہ کی جائز چھٹی کو شہباز شریف کی شروع کی ہوئی اس فالتو درجہ بندی سے نکالا جائے۔ کیونکہ اس درجہ بندی میں اس طرح انٹری کی جاتی ہے کی اگر استاد کی چھٹی منظور شدہ بھی ہو تب بھی ضلع کی درجہ بندی میں وہ استاد ABSENT دکھایا جاتا ہے جس سے اس ضلع کی رینکنگ کم ہو جاتی ہے۔ اس طرح اساتذہ کی جائز چھٹی بھی افسران کی نظر میں ناجائز ہے، اس لیے ان کو چھٹی نہ دینا ہی بہتر سمجھا جاتا ہے۔

افسرانِ بالا کا اساتذہ کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ

عمران خان کے تبدیلی کے وعدے نے جہاں ہر شعبے کے لوگوں کو امید دی ہے، وہیں اساتذہ بھی اپنے ساتھ پچھلے کئی سال سے روا رکھے گئے افسروں کے رویے میں تبدیلی کا خواب دیکھنے لگ گئے ہیں۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایجوکیشن کے دفاتر میں بیٹھے افسران سے لے کر ڈی سی تک کے لوگ اپنے سے کم رینک کے ملازم کے سامنے خدا بن کر بیٹھے ہوتے ہیں، حقارت سے دیکھتے ہیں اور بولنے کا انداز ایسا رکھا جاتا ہے کہ بیچارہ استاد دوبارہ منہ نا کھولے۔ اور اگر کسی استاد کی جواب طلبی ہے تو سمجھ لیں کہ بے عزتی تو پکی ہے۔ 16 گریڈ میں رکھے گئے اے ای اوز کو اساتذہ کی روح قبض کرنے کےلیے رکھا گیا ہے جو اساتذہ کو روزانہ کی بنیاد پر دھمکاتے ہیں اور ان کی رپورٹ بنا کر روزانہ اوپر بھیجتے ہیں جس کی بنیاد پر اساتذہ کو جرمانہ یا بے عزتی یا ان دونوں کی اکٹھی سزا آفس میں بھی اٹھانی پڑتی ہے۔ عمران خان کی حکومت سے اساتذہ کو امید ہے کہ اساتذہ کے ساتھ اچھے رویے اپنائے جانے کی پالیسی بنائی جائے گی، یا جس طرح اساتذہ کی مانیٹرنگ ہوتی ہے اسی طرح ہر دفتر کے آفیسر کی مانیٹرنگ ایک ماہانہ سوالنامے کی طرح کی جائے جن کو اس آفیسر کے ماتحت عملے کے لوگ پُر کریں اور اس آفیسر کے رویہ کو رپورٹ کیا جا سکے۔

غیر حقیقی، غیر انسانی اور ناقابلِ عمل احکامات سے اجتناب

اپنے ضلع کو فالتو درجہ بندی میں باقی اضلاع سے اوپر رکھنے کےلیے بعض اوقات ایسے احکامات جاری کیے جاتے ہیں جن پر عمل کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ تو ان احکامات پر عمل بھی غیر حقیقی اور کاغذی ہوتا ہے۔ پنجاب کے بیشتر اسکولوں میں سہولیات نہیں ہیں۔ ایک چپڑاسی یا مالی تو کیا، چوکیدار تک نہیں ہے۔ بیشتر اضلاع کے چھوٹے سرکاری اسکولوں میں استاد ہی مالی ہے، استاد ہی جھاڑو دیتا ہے، استاد ہی پودے لگاتا ہے اور استاد ہی چوکیدار کی طرح اسکول کی املاک کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

استاد نا صرف بچوں کو پڑھاتا ہے بلکہ استاد کلرک کا پورا کام بھی کرتا ہے، اور ان سب ذمہ داریوں میں سے کسی میں بھی کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ فنڈز سے مزدوری پر لوگ رکھیں، مگر احکامات اکثر اس قسم کے ہوتے ہیں کہ شام تک پورے ریکارڈ کی 5 سال کی تفصیل دیں، یا ابھی ابھی پورے سکول کی سو فیصدی صفائی کریں۔ پھر استاد جھاڑو اٹھا لیتا ہے، کیوں کے وہ بے عزتی نہیں کروانا چاہتا۔ یا حکم آتا ہے کہ کل نرسری سے پودے لے کر لگائیں۔ استاد صبح اٹھ کر نرسری جاتا ہے، نرسری میں مغز ماری کرتا ہے، پودے اٹھا کر سفر کرتا ہے، خود ایک اک پودا لگاتا ہے اور نہ جا نے ایسے کون کون سے احکامات پر استاد سرِ تسلیم خم کرتا ہے، مگر پھر بھی امریکہ کی طرح ڈو مور کا مطالبہ استاد کو چین کی نیند سونے نہیں دیتا ہے۔ نئے پاکستان میں اساتذہ سکون سے سو سکیں گے؟ یا وہ اے ای او، ایم ای اے، ڈی ڈی ای او، ڈی ای او، ڈی ایم او، سی ای او اور ڈی سی کے بدستور نشانے پر رہیں گے؟

اساتذہ کو اپنی مرضی سے بچوں کی اصلاح کب کرنے دی جائے گی؟

پہلے وقتوں میں کہا جاتا تھا کا اساتذہ معاشرے کی اصلاح کرتے ہیں، مگر اب اساتذہ سے اصلاح کرنے کا قلمدان واپس لے لیا گیا ہے۔ اساتذہ اب صرف محکمے کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ صفائی کرواتے ہیں، فارم فلِ کرتے ہیں، بچوں کی حاضری پوری کرتے ہیں، اے ای او کے ہر روز کے وزٹ کے دوران ان کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں اور ان کی نشاندہی پر کوڑا کرکٹ صاف کرواتے ہیں۔ اے ای او کے جانے کے بعد باقی افسروں کے وزٹ کےلیے ہر کاغذ اور لوازمات پورا کرتے ہیں۔ آفیسرز کا بتایا ہوا سبق پڑھاتے ہیں کہ بس آپ بچوں کو یہ پڑھائیں، باقی چھوڑیں۔ ہر آفیسر چاہتا ہے کہ ہر بچے کو 100فیصد ہر چیز آتی ہو، کیا یہ ممکن بھی ہے؟ کیا پہلے کبھی ایسا ہوا ہے؟ کیا استاد اپنی مرضی سے بچوں کو ان کے ذہن کے مطابق آگے پیچھے نہیں پڑھا سکتا؟ کیا استاد کےلیے بچوں کو پڑھانا زیادہ اہم ہے، یا آفیسرز کی فوج کو ہر چیز %100 دکھانا؟ اساتذہ کو سہولتیں دی جائیں اور ان پر عتماد کیا جائے۔ وہ بچوں کو ڈر کی فضاء میں نہیں پڑھا سکتے، ان کو نئے پاکستان میں نئی نسل کی اصلاح ویسے کرنے دی جائے جیسی اصلاح کی ان کو ضرورت ہے۔ نہ کہ ایسی اصلاح جس کی آفیسرز کو ضلعی رینکنگ کےلیے ضرورت ہے۔

بچوں کی کم حاضری پر اساتذہ کو ڈرانا ڈھمکانا بادشاہت کے دور کی نشانی ہے

انتہائی بدقسمتی ہے کہ اس دور میں جب پوری دنیا میں ہر انسان کو اپنے اعمال میں آزادی دلانے کی سعی ہو رہی ہے، اساتذہ کو دھونس اور دھمکی سے غلام بنا کر رکھا جا رہا ہے جس کا کوئی بھی نوٹس لینے کو تیار نہیں۔ ایک طرف پچھلی حکومت دھڑا دھڑ پرائیویٹ اسکول PEF کے ذریعے کھولتی آئی، اور دوسری طرف استاد پر بچوں کی حاضری کی تلوار لٹکا دی۔ اگر بچہ حکومت کے بنائے ہوئے دوسرے اسکول میں جا رہا ہے تو استاد کو دھمکی بھی حکومت سے مل رہی ہے کہ مانیٹرنگ کے دوران بچے کو حاضر کریں، ورنہ شوکاز نوٹس اور بے عزتی جو کہ مختلف رینک کے آفیسرز مختلف وقت پر کریں گے، اس کےلیے تیار ہو جائیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بچہ اسکول نہیں آیا تو استاد ذمہ دار ہے؟ یہ تو حکومت کی ذمہ داری ہونی چاہئے کہ وہ بچوں کو سرکاری اسکول میں حاضر کرے جہاں ان کو تعلیم دینے کی ذمہ داری استاد کی ہونی چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے ایسے لوگ پالیسیاں بناتے رہے ہیں جن کے دماغ میں بس سزا دینے کی سازش ہی پنپتی ہوئی نظر آتی ہے۔ برائے مہربانی اساتذہ سے بچوں کی حاضری پوری کرنے کی ذمہ داری کا قلمدان واپس لے کر مقامی حکومتی عہدیداروں کے حوالے کیا جائے تاکہ اسکول میں تعلیم کا اصل کام اصل ذمہ داری سے انجام دیا جا سکے؛ اور افسر شاہی نظام کا خاتمہ کیا جا سکے۔

یہ کچھ اہم مسائل تھے جن کی طرف نئے پاکستان میں توجہ بہت ضروری ہے۔ کیونکہ یہ مسائل پرانے پاکستان میں ہونے کی وجہ سے ہمارا تعلیمی نظام فیل ہو چکا ہے۔ ہر استاد اور ہر آفیسر جانتا ہے کا پانچویں اور آٹھویں کے %90 بچے نقل کے ذریعے پاس ہوتے ہیں۔ مہربانی فرما کر استاد کو ان کا اصل کام کرنے دیا جائے, اور فالتو قوانین ختم کیے جائیں۔ جن میں خصوصی طور پر شہباز شریف کا تعلیمی ضلعی درجہ بندی کا نظام لازمی غیر فعال کیا جائے، ورنہ نئے پاکستان میں بھی تعلیمی مقاصد پورے کرنا نا ممکن ہو جائے گا؛ اور تعلیم کے ناکام نظام کی بنیاد پر نئے پاکستان کو چلانا ایک لاحاصل عمل ہو گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عدیل عباس

عدیل عباس

بلاگر سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں اور نوجوانوں کی تعلیم اور کیریئر کے معاملات پر کام کرتے ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے شہر بھکر سے ہے۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔