قد کے برابر زمین کے مالک

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 1 ستمبر 2018
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

گبن لکھتا ہے ’’ اگرکسی شخص کو اس عہد کا تعین کرنے کوکہا جائے جو تاریخ انسانی کا مسرور ترین اور خوشحال ترین زمانہ تھا تو وہ بلاجھجک Nerva کی تخت نشینی سے لے کر مارکیو ز آریلیئس کی وفات تک کے زمانے کی نشاندہی کرے گا ۔

ان حکمرانوں کا مجموعی دور حکومت ہی شاید تاریخ میں وہ واحد زمانہ ہے جب حکومت کا واحد نصب العین ہی عوام کی اکثریت کو خوش و خرم رکھنا تھا ۔ ‘‘ اس شاندار عہد میں جب رومی سلطنت کی رعایا اپنے آپ کو ان ہی حکمرانوں کے زیر حکومت ہونے پر خوش نصیب سمجھتی تھی ۔ بادشاہت کا منصب موروثی کی بجائے اختیاری وانتخابی تھا، شہنشاہ اپنا اقتدار اپنی اولاد کے بجائے اپنے تلاش کردہ قابل ترین شخص کو منتقل کرتا تھا ، وہ اس کو اپنا لے پالک بیٹا بنا لیتا اسے کاروبار حکومت کی تربیت دیتا اور بتدریج عنان اقتدار اس کے حوالے کردیتا تھا، یہ نظام بخوبی چلتا رہا ۔

سب سے اچھا دورحکومت اس کوکہا جاتا ہے جس میں عوام خوش اورخوشحال ہوں، اگر آپ یہ سوال کسی سے بھی پوچھنے کی گستاخی کر بیٹھیں کہ پاکستان کا سب سے اچھا دورحکومت کونسا ہے تو جواب میں آپ کو قبرستان کی سی خاموشی کے علاوہ اورکچھ حاصل نہ ہو پائے گا ، آپ اسے اگر یہ گتھی سلجھانے دے بیٹھیں تو وہ زندگی بھر اسے سلجھا نہیں پائے گا ۔

اس کے بعد اگر یہ کہاجائے کہ ہم سب سے زیادہ بد نصیب قوم واقع ہوئے ہیں توکسی صورت غلط نہ ہوگا ہم اگر بدنصیب واقع نہ ہوئے ہوتے تو ستر سالوں میں کوئی تو ایسا دورحکومت آچکا ہوتا جس میں عوام خوش اور خوشحال ہوتے اور جسے یاد کرکے ہم بے اختیار رو پڑتے، لیکن کیاکریں ہمارے نصیب میں تو ایسے ایسے دورحکومت آئے ہیں کہ ہر دورکو یادکرکے بدن میں کپکپی چڑھ جاتی ہے آپ کو اگر اس بات میں کوئی شک ہے تو آپ اپنا شک دورکرنے کے لیے کسی دن کسی طرح قومی اسمبلی چلے جائیں اوراس دیوار پر جس پر ہمارے تمام حکمرانوں کی تصویریں آویزاں ہیں کھڑے ہوکر چندکو چھوڑکر ایک ایک تصویر پر نظریں گاڑ کر اس کے دور حکومت کو یاد کریں جیسے ہی آپ اس عمل کاآغاز کریں گے ، آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنا شروع ہو جائیں گے اور آخری تصویر تک قومی اسمبلی کے اندر سیلاب آ چکا ہو گا۔

ایک بات تو آپ کو چند کو چھوڑ کر ہر تصویر میں یکساں ملے گی کہ ہر تصویر آپ کو حقارت اور ذلت بھر ی نظروں سے دیکھ رہی ہوگی ۔ دنیا بھر کی نفرت آپ کو ان کی آنکھوں میں آپ کے لیے صاف نظر آ رہی ہوگی وہ تو آپ کی قسمت بہت اچھی ہے کہ آپ ان کی بے جان تصویروں کے سامنے کھڑے انھیں گھور رہے ہیں ۔ اگر آپ یہ ہی حرکت ان کی زندگی اور ان کے دور حکومت میں کر رہے ہوتے تو دوسرے ہی لمحے آپ کے عزیز و رشتے دار اور دوست احباب آپ کو ڈولے میں لٹائے ہوئے لیے جا رہے ہوتے۔ یہ تو سچ ہے کہ ہم تو بد نصیب واقع ہوئے ہی ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ سب جن کی تصویریں دیوار پر آویزاں ہیں، سب کچھ پالینے کے باوجود زندگی کے اصل فلسفے اور حقیقت کو کبھی سمجھ ہی نہیں پائے اور ساری زندگی بھٹکتے اور مارے مارے پھرتے رہے ۔

ایک پر جوش مباحثے میں دنیا کے فاتح سکندر اعظم نے جین فلسفیوں کے ایک گروہ سے پوچھا کہ وہ اس کی طرف توجہ دینے کو کیوں نظر اندازکر رہے ہیں ۔ اس سوال کا اس نے درج ذیل فراخدلانہ جواب پایا ’’بادشاہ سکندر ہر شخص صرف زمین کے اتنے حصے کا مالک ہوسکتا ہے جتنے پر ہم کھڑے ہوئے ہیں ،آپ بھی ہم میں سے باقی سب کی طرح ایک انسان ہو، سوائے اس کے کہ آپ ہر وقت مصروف رہتے ہو اورکسی اچھائی کے لیے نہیں، اپنے گھر سے اتنے میل ہا میل دور سفر کر رہے ہو، اپنے لیے اور دوسروں کے لیے ایک پریشانی کا باعث ہو آپ جلد ہی مرجاؤ گے اور تب آپ صرف اس قدر زمین کے مالک ہوگے جو آپ کو اپنے اندر چھپانے کے لیے کافی ہوگی۔‘‘

عرب دنیاکا عظیم مورخ الیوسی بہت خوبصورتی سے تراشی ایک ایسی کہانی سناتا ہے جس کی مماثلثیں ہر معاشرے میں ملتی ہیں۔‘‘ جب ابن ابی مہلی نے مراکش پر قبضہ کیا تو اس کے کچھ پرانے ساتھی اسے مبارکبا د دینے اور خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس کے پاس پہنچے لیکن جب و ہ اس کے پاس کھڑے اسے ایک نئی سر زمین فتح کرنے پر مبارکباد دے رہے تھے تو ان میں شامل ایک شخص کچھ بھی نہ بولا چپ سادھے کھڑا رہا جب سلطان نے اس سے پوچھا کہ بھائی کیا بات ہے آ پ کیوں اتنے چپ چاپ کھڑے ہیں ؟ تو وہ بولا ’’ جہاں پناہ آپ بادشاہ وقت ہیں، اگر جان کی امان بخشیں تو عرض کروں گا۔‘‘ ’’بخشی‘‘ ابن ابی مہلی بولا بولو کیا بولتے ہو ۔

کھیل کی بازی میں ، فقیر بولا کوئی دوسو افراد ایک گیند کے پیچھے بھاگتے ہیں اور اسے ایک دوسرے سے چھیننے کی کوشش کرتے ہیں اور انھیں یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں چوٹ نہ لگ جائے یا زخم نہ آجائے ۔ موت بھی ہوسکتی ہے اور یہ سب ایک گیند کی خاطر اور اس ساری دھینگا مشتی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ کچھ بھی نہیں سوائے پریشانی کے اور تکلیف کے اور اگر آپ گیند کو ہاتھ میں پکڑ کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ اس میں چیتھڑوں اور لیروں کے سوا کچھ نہیں ۔‘‘ آخر میں آپ یہ بات ضرور سوچیے گا کہ ہمارے حکمرانوں کی اکثریت کو زندگی بھرکی دھینگا مشتی کے بعد آخرکیا حاصل ہوا۔؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔