آپ کی گردن بھی توجہ چاہتی ہے

سدرہ بانو ناگوری  پير 3 ستمبر 2018
خواتین اس درد کو معمولی سمجھتے ہوئے خود  ہی کوئی دوا لے کر گردن پر سختی سے مالش کروالیتی ہیں: فوٹو : فائل

خواتین اس درد کو معمولی سمجھتے ہوئے خود ہی کوئی دوا لے کر گردن پر سختی سے مالش کروالیتی ہیں: فوٹو : فائل

 کراچی:  ’’سندرہ! ذرا دیکھو تو تمہارے پیچھے جو خاتون بیٹھی ہیں، ان کی گردن کتنی کالی لگ رہی ہے۔‘‘ ہمارے ہاں تقاریب وغیرہ میں اکثر ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں اور  صنف نازک ایک دوسرے کی تیاری کو ہر ہر زاویے سے بہ غور پرکھتی ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ مقابل کی بات سن کر مجھے مڑ کر دیکھنا پڑا، لگ بھگ  35 سالہ لڑکی نما وہ خاتون میک اپ زدہ چمکتے چہرے کے ساتھ بے انتہا خوب صورت لگ رہی تھیں، مگر وہ  اپنی گردن کو  اس بری طرح نظر انداز کر گئی تھیں کہ ان کی ساری دل کشی اور سارا حسن جیسے گہنا گیا تھا۔ ایسا اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ خواتین سجتے سنورتے ہوئے عموماً اپنی گردن پر بالکل توجہ نہیں دیتیں جس کے نتیجے میں یہ بے چاری گردن اپنی رنگت کھوکر سیاہی مائل ہونے لگتی ہے حالاں کہ چہرے کی ساخت اور بناوٹ میں گردن بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔

اگر خواتین کو اس طرف متوجہ کیا جائے تو وہ پریشان ہوکر ادھر ادھر سے ٹوٹکے ڈھونڈ ڈھانڈ کر اپنی گردن پر آزمانے لگتی ہیں۔ ابتدا میں ہی اگر اس طرف توجہ دے لی جائے تو اس پریشانی کی نوبت ہی نہ آئے۔ یاد رکھیے! گردن اور چہرے کی رنگت ہمیشہ سب کی ایک جیسی ہی ہوتی ہے، یہ تو ہو نہیں سکتا کہ چہرہ گورا ہے تو گردن کالی ہے،  آپ کے چہرے کی رنگت صاف ہونے کے باوجود گردن سانولی یا سیاہی مائل ہورہی ہے تو اس کی ذمے دار آپ خود ہیں۔ گردن پر طرح طرح کے ٹوٹکے آزمانا اس مسئلے کا حل نہیں۔ جو خواتین روز شاور لیتی ہیں، ان کی گردن تو صاف رہتی ہے لیکن کبھی کبھار نہانے والوں کو بھی دن میں ایک مرتبہ چہرہ دھوتے وقت گردن بھی دھونی چاہیے۔

اگر گردن نہ دھوسکیں تو نہانے سے پہلے چند قطرے ناریل کے تیل کے لے کر گردن پر مساج کرلیں، اس سے نہ صرف  جما ہوا میل کچیل صاف ہوگا، بلکہ گردن کی سیاہی بھی دور ہوگی۔ چہرے پر کسی بھی طرح کا فیشل بلیچ یا جو بھی ٹریٹمنٹ آپ کررہی ہیں یا چہرے کی رنگت نکھارنے کے لیے بھی کوئی لوشن  یا کریم وغیرہ استعمال کررہی ہیں تو اسے گردن پر بھی ضرور آزمائیں۔ چہرے پر بیس لگاتے ہوئے بیس کو نیچے کی طرف کرتے ہوئے گردن تک لائیے اور جہاں تک گردن نمایاں ہورہی ہے، وہاں تک یہ بیس اس طرح لگائیے کہ چہرے اور گردن کی رنگت ایک جیسی لگے۔

اگر بالوں کا جوڑا بنانے سے آپ کی گردن کا پچھلا حصہ بھی واضح ہورہا ہے تو بیس کا یہ عمل پچھلی سائیڈ پر بھی دہرائیے، چہرے پر دوپٹا بہت دیر تک باندھے رکھنے سے گردن پر جلن ہونے لگتی ہے، اس کے لیے جب دوپٹا کھولیں تو گردن پر ہلکے ہاتھ سے برف کی ٹکور کرلیں یا سوتی کپڑا ٹھنڈے یخ پانی میں ڈبوکر کچھ دیر کے لیے گردن کے گرد لپیٹ لیں، چند لمحوں میں آپ راحت محسوس کریںگی۔ لمبی اور مخروطی گردن سبھی کو اچھی لگتی ہے۔

ٹھوڑی سی لٹکتا گوشت گردن کا حسن گہنا دیتا ہے۔ اگر  گردن کی  مسلسل ورزش کی جائے تو گردن ٹائٹ رہتی ہے۔ گردن کی ورزش کی عادت ڈالیے دن میں 3 سے 4 مرتبہ  پندرہ منٹ تک گردن کو اوپرسے نیچے، نیچے سے اوپر، دائیں سے بائیں، بائیں سے دائیں لے کر جائیے، اس عمل سے گردن میں خون کی روانی میں بہتری رہے گی اور گردن کو لوز ہونے سے نجات ملے گی ۔ آج کل گردن کا درد بہت عام ہے۔

خواتین اس درد کو معمولی سمجھتے ہوئے خود  ہی کوئی دوا لے کر گردن پر سختی سے مالش کروالیتی ہیں۔ یہ طریقہ خطرناک ہے۔ سختی سے کی گئی یہ مالش گردن کی نسوں اور پٹھوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ گردن کی ہلکی سی تکلیف میں بھی فوراً کسی ڈاکٹر  سے رجوع کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں کی گئی بے احتیاطی آپ کو دائمی تکلیف میں مبتلا کرسکتی ہے۔ خواتین گردن میں کس طرح کی جیولری پہنیں؟

یہ بات دھیان میں رہے کہ آپ ایسی شرٹس پہن رہی ہیں جس کا گلا کام دار اور بھاری بھرکم ہو تو گردن میں بالکل ہلکی سی نفیس سی چین ڈال لیں، ایسا بھاری بھرکم ہار نہ پہنیں جو لٹکتا ہوا شرٹ کے گلے تک آجائے اور گلے کے ڈیزائن اور ہار کے ڈیزائن میں فرق کرنا مشکل ہوجائے، لیکن پھر بھی اگر آپ کو ایسا ہار پہننا پڑجائے تو اس طرح پیچھے سے اس کی ڈوری کو ٹائٹ کریں کہ ہار گردن پر فٹ بیٹھ جائے، موٹی گردن پر موٹے موٹے موتی سے جڑا ہار پہنا جاسکتا ہے، پتلی اور صراحی دار گردن کے لیے ہلکا پھلکا نگینے سے جڑا نیکلس مناسب رہتا ہے۔

گردن پر کپڑوں کے ہم رنگ اسٹیکر بھی چپکائے جاتے ہیں جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ گردن میں ہار وغیرہ نہیں پہننے پڑتے،  میچنگ کے یہ اسٹیکر گردن کی ایک سائیڈ پر ترچھے انداز میں چپکائے جاتے ہیں۔ گوری اور نکھری گردن پر مغلیٔ طرز کی مالا پہن کر شخصیت کے ساتھ ساتھ گردن کی خوب صورتی بڑھائی جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔