تحریک انصاف کے اتحادی

پی آٹی آئی کی اتحادی حکومت ماضی کی اتحادی حکومتوں سے بالکل مختلف اور بہت ذمے دار حکومت ہے۔


Zaheer Akhter Bedari September 04, 2018
[email protected]

عمران خان کی حکومت مختلف جماعتوں کے علاوہ آزاد ممبران اسمبلی پر مشتمل ہے۔ عمران خان نے بڑی دانشمندی کے ساتھ سارے اتحادیوں کو ایڈجسٹ کردیا ہے اور ساری اتحادی مطمئن نظر آتے ہیں۔

اتحادی حکومتوں میں عموماً جلد یا بدیر اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں لیکن پی آٹی آئی کی اتحادی حکومت ماضی کی اتحادی حکومتوں سے بالکل مختلف اور بہت ذمے دار حکومت ہے، اتحادی جماعتوں اور آزاد ممبران کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ موجودہ حکومت نے ایک کارنامہ انجام دیا ہے کہ 71 سالہ اشرافیائی ''اسٹیٹس کو '' کو توڑ کر مڈل کلاس کے ہاتھوں میں اقتدار دے دیا ہے۔

اس تبدیلی سے اشرافیہ اور اس کے ہمنوا سخت ناراض اور مایوس ہی نہیں بلکہ سخت مشتعل بھی ہیں۔ اشرافیہ نے اقتدار پر مستقل قبضہ جمانے کے لیے ولی عہدوں کی جو لمبی لائن لگائی تھی وہ اب آؤٹ ڈیٹڈ ہوگئی ہے ۔ اشرافیہ کی دونوں بڑی جماعتیں جو بڑے اطمینان سے باری باری کا کھیل کھیل رہی تھیں، سخت پریشان ہی نہیں بلکہ ہراساں بھی ہیں، ادھر 71سالہ اقتدار ہاتھ سے نکل گیا ۔ ادھر کرپشن کے کیسوں میں بری طرح پھنس گئے ہیں،کچھ جیلوں میں ہیں۔ کچھ جیلوں میں جانے والے ہیں۔

پاکستان کی سیاست میں یہ ایک بڑی مثبت تبدیلی ہے اسے برقرار رکھنا صرف عمران خان کی ذمے داری نہیں بلکہ عمران خان کے تمام اتحادیوں خاص طور پر آزاد ممبران کی ذمے داری ہے۔ اشرافیہ اب بھی اربوں روپوں کی مالک ہے، وہ حکومتی ارکان کو توڑنے کے لیے جو مختلف حربے استعمال کرسکتی ہے مالی ترغیب بڑے بڑے مخلص لوگوں کے اخلاص کے پیر ڈگمگا دیتی ہے، اگر حکومت کے اتحادی خاص طور پر آزاد ارکان اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ ان پر عوام نے کتنی بڑی ذمے داری ڈالی ہے اور اس ملک کو تبدیل کرنے کا کتنا بڑا فرض وہ ادا کرنے جارہے ہیں تو یقین ہے کہ وہ ترغیبات کو ٹھوکر مارکر خلوص دل سے اپنی ذمے داریاں انجام دینے میں مصروف ہو جائیںگے۔

سابقہ حکومتوں نے جس بیدردی سے ملک کو لوٹا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کی معیشت تباہ ہوگئی ہے ۔کوئی قومی ادارہ ایسا نہیں جس میں اربوں کی کرپشن نہ ہوئی ہو ۔ زر مبادلہ کے ذخائرکم ترین سطح پر آگئے ہیں، ایسی مشکل صورتحال میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن تنقید اور احتجاج کی سیاست کو ترک کرکے حکومت کا ساتھ دیتی لیکن انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اپوزیشن کا واحد مقصد حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنا اور حکومت کوکسی طرح ناکام بنانا ہوگیا ہے۔

دوسرے جمہوری ملکوں میں بھی اپوزیشن موجود ہوتی ہے اور حکومت کی کمزوریوں پر تنقید بھی کرتی ہے لیکن مشکل حالات میں اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کو ترک کرکے حکومت سے تعاون کرتی ہے، لیکن ہمارے ملک میں سیاست قبائلی دشمنیوں میں بدل گئی ہے۔ ہماری سیاست میں دھاندلی کلچر اس قدر مضبوط ہوگیا ہے کہ شاید ہی کوئی حکومت ہو جس پر دھاندلی کا الزام نہ لگایا گیا ہو۔ 2018 کے الیکشن فوج کی نگرانی میں کرائے گئے لیکن ہماری اپوزیشن اس مبینہ دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر آنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری اپوزیشن حقائق کو سمجھنے کے بجائے خوابوں کی دنیا میں رہ رہی ہے۔

ہماری سابق حکومت کو سنہری موقع ملا لیکن عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے مسلسل لوٹ مار میں لگادیاگیا۔ ہمارے سابق وزیراعظم پر کرپشن کے متعدد کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور موصوف 10 سال کی سزا میں محبوس ہیں۔ میڈیا میں اس حوالے سے خبروں کا طوفان اٹھا ہوا ہے، ہر دن کسی شخصیت کا کوئی نہ کوئی اسکینڈل سامنے آرہا ہے۔ عوام میڈیا کی فراہم کردہ اطلاعات سے بہت الرجک ہیں۔ ایسے ناراض عوام پر بھروسا کرکے سڑکوں پر آنے کی بات کرنا کیا عقلمندی ہے؟ کون یقین کرسکتا ہے کہ تحریک انصاف مرکز ہی میں نہیں بلکہ صوبوں میں بھی برسر اقتدار آجائے گی، ان چشم کشا حقائق کو تسلیم کیے بغیر سڑکوں پر آنے کی باتیں کرنا کیا عقلمندی اور حب الوطنی ہے؟

جمہوریت کا ایک مطلب یہ ہے کہ انتخابات میں عوام جس پارٹی کو منتخب کریں، حکومت کرنا اس کا حق تسلیم کیا جاتا ہے لیکن ہماری جمہوریت کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ ایک بار جو حکومت برسر اقتدار آئے وہ چاہتی ہے کہ ساری زندگی وہ برسر اقتدار ہی رہے۔ اس سائیکی سے سیاست ایک وراثت میں بدل گئی ہے۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہماری سیاست میں مغلیہ دورگھس آیا ہے۔ بڑی جماعتوں ہی میں موروثیت مضبوط نہیں ہورہی ہے بلکہ مذہبی جماعتوں اور مڈل کلاس کی جماعتوں میں بھی موروثیت مضبوط ہو رہی ہے۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے سینئر ترین رہنما کم عمر جونیئر ناتجربہ کار شہزادوں اور شہزادیوں کے سامنے سرنگوں ہاتھ جوڑے کھڑے رہتے ہیں۔

آج منتخب حکومت کے خلاف تحریکیں چلانے کی جو باتیں ہورہی ہیں، یہ اسی شاہی ذہنیت کا نتیجہ ہے، موجودہ نو منتخب حکومت پہلی بار اقتدار میں آئی ہے اور جن خطوط پر اس نے کام شروع کیا ہے، اس سے سابق حکومت اور اس کے اتحادی اس لیے خوف زدہ ہیں کہ نئی حکومت روایتی لوٹ مار کو چھوڑ کر تیزی سے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرے گی، اگر ایسا ہوا جس کا یقین ہے تو روایتی حکمران جماعتوں کا مستقبل تاریک ہوجائے گا، ایسے ماحول میں تحریک انصاف کے اتحادی خاص طور پر آزاد ممبران کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ مستقل مزاجی سے اپنے وزیراعظم کا ساتھ دیں۔

مقبول خبریں