میاں بیوی کے حقوق اور ذمے داریاں

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی  جمعـء 7 ستمبر 2018

شبیر تو دیکھے گا

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

انسان صرف انفرادی زندگی نہیں رکھتا ہے بل کہ وہ فطرتاً معاشرتی مزاج رکھنے والی مخلوق ہے، اس کا وجود خاندان کے ایک رکن اور معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے ہی پایا جاتا ہے۔ معاشرے اور خاندان کی تشکیل میں بنیادی اکائی میاں بیوی ہیں جن کے ایک دوسرے پر کچھ حقوق ہیں، مفہوم : اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ’’ اور (مردوں پر ) عورتوں کا حق ہے جیسا کہ (مردوں کا) عورتوں پر حق ہے معروف طریقے پر۔‘‘ (سورۂ البقرہ)

اس آیت میں میاں بیوی کے تعلقات کا ایسا جامع دستور پیش کیا گیا ہے جس سے بہتر کوئی دستور نہیں ہوسکتا اور اگر اس جامع ہدایت کی روشنی میں ازدواجی زندگی گزاری جائے تو اِس رشتے میں کبھی بھی تلخی اور کڑواہٹ پیدا نہ ہوگی انشاء اللہ۔ واقعی یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ الفاظ کے اختصار کے باوجود معانی کا سمندر گویا کہ ایک کوزے میں سمو دیا گیا ہے۔ یہ آیت بتا رہی ہے کہ بیوی کو محض نوکرانی اور خادمہ مت سمجھنا بل کہ یہ یاد رکھنا کہ اس کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کی پاس داری شریعت میں ضروری ہے۔

ان حقوق میں جہاں نان نفقہ اور رہائش کا انتظام شامل ہے وہیں اس کی دل داری اور راحت رسانی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو اپنے گھر والوں (یعنی بیوی بچوں) کی نظر میں اچھا ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ان کی نظر میں اچھا وہی ہوگا جو اُن کے حقوق کی ادائی کرنے والا ہو۔

دوسری طرف اِس آیت میں بیوی کو بھی آگاہ کیا کہ اُس پر بھی حقوق کی ادائی لازم ہے۔ کوئی بیوی اُس وقت تک پسندیدہ نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اپنے شوہر کے حقوق کو ادا کرکے اُس کو خوش نہ کرے۔ چناںچہ احادیث میں ایسی عورتوں کی تعریف فرمائی گئی ہے جو اپنے شوہر کی تابع دار اور خدمت گزار ہوں اور ان سے بہت زیادہ محبت کرنے والی ہوں اور ایسی عورتوں کی مذمت کی گئی ہے جو شوہروں کی نافرمانی کرنے والی ہوں۔

شوہر پر بیوی کے حقوق :

مکمل مہر کی ادائی : اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے : ’’ عورتوں کو ان کا مہر راضی و خوشی سے ادا کردو۔‘‘ (سورۂ النساء) نکاح کے وقت مہر کی تعیین اور شب زفاف سے قبل اس کی ادائی ہونی چاہیے، اگرچہ طرفین کے اتفاق سے مہر کی ادائی کو مؤخر بھی کرسکتے ہیں۔

بیوی کے تمام اخراجات : اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ’’ بچوں کے باپ (یعنی شوہر) پر عورتوں (یعنی بیوی) کا کھانا اور کپڑا لازم ہے دستور کے مطابق۔‘‘ (البقرہ)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : ’’ عورتوں کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیوں کہ اللہ کی امان میں تم نے اُن کو لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے اُن کی شرم گاہوں کو تمہارے لیے حلال کیا گیا ہے۔ دستور کے مطابق اُن کا مکمل کھانے پینے اور کپڑوں کا خرچ تمہارے ذمے ہے۔ (مسلم)

بیوی کے لیے رہائش کا انتظام : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، مفہوم: ’’ تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو، وہاں اُن عورتوں کو رکھو۔‘‘ (سورۂ الطلاق) اس آیت میں مطلقہ عورتوں کا حکم بیان کیا جا رہا ہے کہ عدت کے دوران ان کی رہائش کا انتظام بھی شوہر کے ذمے ہے۔ جب شریعت نے مطلقہ عورتوں کی رہائش کا انتظام شوہر کے ذمے رکھا ہے تو حسب استطاعت بیوی کی مناسب رہائش کی ذمے داری بہ درجہ اولیٰ شوہر کے ذمہ ہوگی۔

بیوی کے ساتھ حسن معاشرت : شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے : ’’ ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ یعنی عورتوں کے ساتھ گفت گو اور معاملات میں حسن اخلاق کے ساتھ معاملہ رکھو، گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بُرا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کردے۔‘‘ (سورۂ النساء)

بیوی پر شوہر کے حقوق :

شوہر کی اطاعت: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ مرد عورتوں پر حاکم اور نگراں ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔ جو عورتیں نیک ہیں وہ اپنے شوہروں کا کہنا مانتی ہیں اور اللہ کے حکم کے موافق نیک عورتیں شوہر کی عدم موجودی میں اپنے نفس اور شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہیں، یعنی اپنے نفس اور شوہر کے مال میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرتی ہیں۔‘‘ (سورۂ النساء)

رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے : ’’ اگر عورت نے (خاص طور پر) پانچ نمازوں کی پابندی کی، ماہ رمضان کے روزے اہتمام سے رکھے، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی اور اپنے شوہر کی اطاعت کی تو گویا وہ جنت میں داخل ہوگئی۔‘‘ (مُسند احمد)

ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ سے کہا کہ مجھے عورتوں کی ایک جماعت نے آپ ﷺ سے ایک سوال کرنے کے لیے بھیجا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم مردوں کو دیا ہے، چناں چہ اگر ان کو جہاد میں تکلیف پہنچتی ہے تو اُس پر ان کو اجر دیا جاتا ہے اور اگر وہ شہید ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے خصوصی بندوں میں شمار ہوجاتے ہیں کہ مرنے کے باوجود وہ زندہ رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی رزق ان کو دیا جاتا ہے۔

(جیسا کہ سورۂ آل عمران میں مذکور ہے) ہم عورتیں ان کی خدمت کرتی ہیں، ہمارے لیے کیا اجر ہے؟ تو نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جن عورتوں کی طرف سے تم بھیجی گئی ہو، ان کو اطلاع کردو کہ شوہر کی اطاعت اور اس کے حق کا اعتراف تمہارے لیے اللہ کے راستے میں جہاد کے برابر ہے، لیکن تم میں سے کم ہی عورتیں اس ذمے داری کو بہ خوبی انجام دیتی ہیں۔‘‘ (بزاز، طبرانی)

شوہر کے مال و آبرو کی حفاظت: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ جو عورتیں نیک ہیں وہ اپنے شوہروں کی تابعداری کرتی ہیں اور اللہ کے حکم کے موافق نیک عورتیں شوہر کی عدم موجودی میں اپنے نفس اور شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہیں، یعنی اپنے نفس اور شوہر کے مال میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرتی ہیں۔‘‘ ( النساء) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ میں تمہیں مرد کا سب سے بہترین خزانہ نہ بتاؤں ؟ وہ نیک عورت ہے، جب شوہر اس کی طرف دیکھے تو وہ شوہر کو خوش کردے، جب شوہر اس کو کوئی حکم کرے تو شوہر کا کہنا مانے۔ اگر شوہر کہیں باہر سفر میں چلا جائے تو اس کے مال اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔‘‘ (ابوداؤد، نسائی)

شوہر کے مال کی حفاظت میں یہ ہے کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر شوہر کے مال میں سے کچھ نہ لے، اور اس کی اجازت کے بغیر کسی کو نہ دے۔ ہاں اگر شوہر واقعی بیوی کے اخراجات میں کمی کرتا ہے تو بیوی اپنے اور اولاد کے خرچے کو پورا کرنے کے لیے شوہر کی اجازت کے بغیر مال لے سکتی ہے۔ شوہر کی آبرو کی حفاظت میں یہ ہے کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں داخل نہ ہونے دے، کسی نامحرم سے بلا ضرورت بات نہ کرے۔ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلے۔

گھر کے اندرونی نظام کو چلانا اور بچوں کی تربیت کرنا: یہ عورتوں کی وہ ذمے داری ہے جو ان کی خلقت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے، بل کہ یہ وہ بنیادی ذمے داری ہے جس کی ادائی عورتوں پر لازم ہے۔ عورتوں کو اس ذمے داری کے انجام دینے میں کوئی کمی نہیں چھوڑنی چاہیے۔ کیوں کہ اسی ذمے داری کو صحیح طریقے پر انجام دینے سے فیملی میں آرام و سکون پیدا ہوگا نیز اولاد دونوں جہاں کی کام یابی و کام رانی سے سرفراز ہوگی۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب صحابۂ کرامؓ اپنی بیٹی یا بہن کو رخصت کرتے تھے تو اس کو شوہر کی خدمت اور بچوں کی بہترین تربیت کی خصوصی تاکید کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگہبان اور ذمے دار ہے اور اس سے اس کے بچوں کی تربیت وغیرہ کے متعلق سوال کیا جائے گا۔‘‘ (بخاری و مسلم)

عورت کے دل میں شوہر کے مال کا درد ہونا چاہیے تاکہ شوہر کا پیسا فضول خرچی میں خرچ نہ ہو۔ گھر کو ملازمین پر نہیں چھوڑنا چاہیے کہ وہ جس طرح چاہیں کرتی رہیں، بل کہ عورت کی ذمے داری ہے کہ وہ گھر کے داخلی تمام امور پر نگاہ رکھے۔

چند مشترکہ حقوق اور ذمے داریاں: حتی الامکان خوشی و راحت و سکون کو حاصل کرنے اور رنج و غم کو دور کرنے کے لیے ایک دوسرے کا تعاون کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے کے رازوں کی ہمیشہ حفاظت کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ قیامت کے دن اللہ کی نظروں میں سب سے بدبخت انسان وہ ہوگا جو میاں بیوی کے آپس کے راز کو دوسروں کے سامنے بیان کرے۔‘‘ (مسلم)

شوہر باہر کے کام اور بیوی گھریلو کام انجام دے: حضرت فاطمہ ؓ کی شادی کے بعد حضور اکرم ﷺ نے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ ؓکے درمیان کام کی جو تقسیم کی وہ اس طرح تھی کہ باہر کے کام حضرت علیؓ دیکھتے تھے، گھریلو کام مثلاً کھانا بنانا، گھر کی صفائی کرنا وغیرہ حضرت فاطمہ ؓ کے ذمے تھا۔ غرض یہ کہ کہ دونوں ایک دوسرے کی خدمت کے جذبے سے رہیں۔ باہر کے کام مرد انجام دے اور عورت گھر کے معاملات کو بہ خوبی انجام دے۔

جنسی خواہشات کی تکمیل : میاں بیوی کی مشترکہ ذمے داریوں میں سے ایک اہم ذمے داری یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی جنسی ضرورت کو پورا کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب مرد اپنی بیوی کو اپنی طرف بلائے (یہ میاں بیوی کے مخصوص تعلقات سے کنایہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو ان تعلقات کو قائم کرنے کے لیے بلائے) اور وہ عورت نہ آئے یا ایسا طرز اختیار کرے کہ جس سے شوہر کا وہ منشا پورا نہ ہو اور اس کی وجہ سے شوہر ناراض ہوجائے تو ساری رات صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں، یعنی اس عورت پر خدا کی لعنت ہو اور لعنت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کو حاصل نہیں ہوگی۔‘‘ (بخاری و مسلم)

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ میاں بیوی کے جو باہمی تعلقات ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر بھی اجر عطا فرمائے گا۔ صحابۂ کرامؓ نے سوال کیا : یا رسول اللہ ﷺ! وہ تو انسان اپنی نفسانی خواہشات کے تحت کرتا ہے، اس پر کیا اجر؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر وہ نفسانی خواہش کو ناجائز طریقے سے پورا کرتا ہے تو اس پر گناہ ہوتا ہے یا نہیں؟ صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ گناہ ضرور ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: چوں کہ میاں بیوی ناجائز طریقے کو چھوڑ کر جائز طریقے سے نفسانی خواہشات کو اللہ کے حکم کی وجہ سے کررہے ہیں، اس لیے اس پر بھی ثواب ہوگا۔‘‘ (مسند احمد )

اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے مشترکہ فکر و کوشش: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بل کہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں۔‘‘ (سورۂ التحریم) جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر فاروق ؓ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں تشریف لائے اور فرمایا کہ ہم اپنے آپ کو تو جہنم کی آگ سے بچاسکتے ہیں مگر گھر والوں کا کیا کریں ؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم ان کو برائیوں سے روکتے رہو اور اچھائیوں کا حکم کرتے رہو، انشاء اللہ یہ عمل ان کو جہنم کی آگ سے بچانے والا بنے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔