ڈنمارک

ذیشان الحسن عثمانی  پير 10 ستمبر 2018
ڈنمارک کا ٹیوولی گارڈن جسے 1843 میں بنایا گیا اور والٹ ڈزنی نے اسی کو دیکھ کر ڈزنی لینڈ تخلیق کیا۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

ڈنمارک کا ٹیوولی گارڈن جسے 1843 میں بنایا گیا اور والٹ ڈزنی نے اسی کو دیکھ کر ڈزنی لینڈ تخلیق کیا۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

اسلام آباد سے کوپن ہیگن کی براہ راست پرواز سات گھنٹے اور پانچ منٹ کی ہے۔ میری پرواز دُبئی سے ہوکرکوپن ہیگن پہنچنی تھی لہذا دس گھنٹے لگے۔ شمالی یورپ کا ملک ڈنمارک دنیا کے صاف ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ یہ اسلام آباد سے 7757 کلومیٹر دور ہے اور پاکستان سے ڈنمارک کا زمینی راستہ بھی یہی بنتا ہے۔ آپ اسلام آباد سے چلیں اور افغانستان، ایران، ترکی (یہاں آپ کو سمندر عبور کرنے کےلیے فیری لینی پڑے گی) یونان، رومانیہ، آسٹریا اور جرمنی سے ہوتے ہوئے ڈنمارک میں داخل ہوجائیں۔

ڈنمارک یوں تو متحدہ یورپ کا حصہ ہے مگر یہاں کرنسی یورو کی بجائے ڈینش کرون چلتی ہے۔ ایک ڈینش کرون (DKK) پاکستانی انیس روپے کا ہے۔ آپ ہوائی اڈے سے ہی کرنسی تبدیل کرواسکتے ہیں اور وہاں موجود مَنی چینجر اس پر آپ سے کوئی اضافی معاوضہ بھی نہیں لیتے۔ ڈنمارک کے قانون کے مطابق آپ نے جتنی رقم تبدیل کروائی ہے اس سے آدھی اپنی واپسی پر دوبارہ تبدیل کرواسکتے ہیں، اسی قیمت پر جس پر آپ نے خریدی تھی۔ ڈنمارک ایک بہت مہنگا ملک ہے۔ اوسلو (ناروے) کے بعد کوپن ہیگن شاید دنیا کا مہنگا ترین شہر ہے۔ ہوٹل کا کمرہ پاکستانی پچاس ہزار دن کے حساب سے اور پانی کی بوتل پانچ سو روپے تک میں ملتی ہے۔ بقول میرے دوست عاصم ریاض کے ’’ڈنمارک نہ کسی کو غریب رہنے دیتا ہے اور نہ امیر ہونے دیتا ہے۔‘‘ ڈنمارک میں رہ کر امیر ہونا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ یہاں ٹیکس کی شرح پچاس فیصد سے زائد تک تجاوز کر جاتی ہے اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس پچیس فیصد ہے یعنی آپ کو ہر چیز مہنگی ملے گی۔

ڈنمارک کا درجہ حرارت عموماً صفر ڈگری سینٹی گریڈ سے لے کر سترہ ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ تاریخ میں سب سے زیادہ درجہ حرارت یہاں 1911 میں 35.8 ڈگری ریکارڈ کیا گیا اور سب سے کم 1982 میں منفی 31 ڈگری ریکارڈ کیا گیا۔

ڈنمارک 443 چھوٹے جزائر پر مشتمل ہے جن میں سے صرف 74 پر آبادی ہے۔ ڈنمارک نے 1948 میں جزیرہ فارو آئی لینڈ اور 1979 میں گرین لینڈ کو آزاد ریاست کا درجہ دے دیا تھا۔

گرین لینڈ کی آبادی صرف پچاس ہزار اور فارو آئی لینڈ کی آبادی صرف اننچاس ہزار ہے۔ فارو آئی لینڈ میں عورتوں کی تعداد تیزی سے کم ہورہی ہے اور انہوں نے حال ہی میں فلپائن اور تھائی لینڈ سے خواتین کو بلا کر شادیاں کی ہیں تاکہ آبادی کے تناسب کو بہتر بنایا جاسکے۔

ڈنمارک کی کل آبادی ستاون لاکھ ہے جو سندھ کے شہر حیدرآباد جتنی ہے۔ یہ لاہور کی آبادی کا نصف ہے جبکہ رقبے میں ڈنمارک بائیس لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جو پاکستان سے لگ بھگ ڈھائی گنا بڑا ہے۔ ان ستاون لاکھ لوگوں میں تقریباً سات لاکھ دیگر ممالک سے آکر یہاں مستقل آباد ہوجانے والے لوگ ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد دو لاکھ سترہزار ہے جن میں سے اکثریت ترکی، مراکش، پاکستان، یوگو سلاویہ، ایران، عراق، صومالیہ اور بوسنیا سے آئی ہوئی ہے۔ یہاں پاکستانیوں کی تعداد پچیس ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔ ابھی چودہ اگست کی مناسبت سے پاکستانی سفارتخانے نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میں پاکستانی سفیر سیدّ ذوالفقار گردیزی نے ڈینش پنجابی سنگر انیتا لارشے کو خصوصاً مدعو کیا اور تصویریں کھنچوائیں۔ میں سوچتا ہی رہ گیا کہ ابھی حال ہی میں رسالت پناہ حضرت محمد مصطفٰی ﷺ پر بنائے جانے والے گستاخانہ خاکوں پر احتجاج اور ڈنمارک کی مصنوعات کے استعمال کو ترک کرنے پر جس دینی حمیّت و غیرت کا مقابلہ ہم ڈینش لوگو ں سے کرتے ہیں اُس کا مطلب ہندوستانی، پنجابی گانوں پر یوم آزادی کے دن رقص سے انہیں خوب سمجھ آجاتا ہوگا۔

ڈنمارک میں ہر دوسرے روز یا تو بارش ہوتی ہے یا برف باری۔ سال میں 171 دن موسم ابر آلود رہتا ہے اور سورج نکلنے کے دن گنتی کے ہیں۔ یہاں ہوائیں بہت تیز چلتی ہیں اور ان کی سالانہ اوسط رفتار تیرہ میل فی گھنٹہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈنمارک میں دنیا کی 90 فیصد پن چکیاں ہیں جو ملکی توانائی کا 28 فیصد پیدا کرتی ہیں۔ ابھی پچھلے سال ہی ڈنمارک نے اپنی ضرورت سے 40 فیصد زیادہ توانائی پیدا کرلی تو اسے زائد بجلی اپنے پڑوسی ممالک کو بیچنی پڑی۔

میرا ہوٹل اسٹروگیٹ اسٹریٹ پر تھا جسے دنیا کی سب سے پرانی اور لمبی پیدل چلنے والوں کی گلی کا مقام حاصل ہے۔ اس کی لمبائی 2میل ہے۔ ویسے یہ دعوے تقریباً ہر ملک میں سُنے۔ راولپنڈی میں لوگ ٹینچ بھاٹہ کو دنیا کا طویل ترین بازار کہتے ہیں، بنگلہ دیش میں کاکس بازار کو، سری لنکا میں کینڈی بازار کو اور امریکا میں لاس ویگاس اسٹرپ کو۔ اسی طرح دنیا میں 5 جگہ آدم علیہ السلام کے پیر کا نشان پایا جاتا ہے اور کوئی 7 مقامات پر ’’دنیا کا اختتام‘‘ ( end of world) نامی پہاڑیاں ہیں۔ ایک سری لنکا میں دیکھی، ایک امریکہ میں اور ایک سعودی عرب کے شہر ریاض میں۔

ڈنمارک میں جو سب سے پہلی بات آپ کی توجہ حاصل کرے گی، وہ یہاں سائیکلوں کا رواج ہے، گویا کہ ہر شخص ہی سائیکل چلا رہا ہے۔ یہ لوگ سائیکل کی گھنٹی کسی کو متوجہ کرنے یا راستے سے ہٹانے کیلئے ہی نہیں بلکہ ذہنی سکون کیلئے بھی بجاتے ہیں۔ ہر طرف بجنے والی گھنٹیوں سے جو آواز اور سماں بندھتا ہے، ان لوگوں کو اس سے ذہنی سکون ملتا ہے۔ کوپن ہیگن کو سائیکل سواروں کا دارالحکومت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

ڈنمارک میں گاڑیوں کی کل تعداد 18لاکھ (گاڑی پر ٹیکس 100 فیصد سے زائد ہے) اور سائیکلوں کی تعداد 42 لاکھ ہے۔ ڈینش لوگ روزانہ تقریباً 11 لاکھ کلومیٹر سفر سائیکلوں پر کرتے ہیں۔ جگہ جگہ سائیکلوں کی دکانیں، پنکچر اور ٹائر ٹھیک کرنے والوں کی دکانیں، پارکنگ میں سائیکلوں کی پارکنگ اور ٹائر میں ہوا بھرنے کی مشینیں نصب ہیں۔ میرے دوست اور میزبان عمران کے بقول، اس ملک میں سائیکلیں اور جم خانے آباد ہیں اور اسپتال ویران ہیں۔

ڈنمارک دنیا کے خوش ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ یہاں جرائم کی شرح بہت کم ہے اور دنیا کی صاف ترین آب و ہوا اور پانی دستیاب ہے۔ آپ کسی بھی نلکے سے پانی پی سکتے ہیں اور وہ آپ کی صحت کیلئے موزوں ہے۔

میرا ڈنمارک سے تعارف بہت پہلے ہو چکا تھا۔ زمانہ طالب علمی میں نیلز بوہر، لِیگو اور لٹل مرمیڈ اس تعارف کی بنیاد بنے اور ابھی حال ہی میں کم وال (Kim Wall) کے قتل کی وجہ سے اس ملک کا بڑا چرچا رہا۔

ڈنمارک نے اب تک کل 14 نوبل پرائز انعام یافتہ سائنسدان اس دنیا کو دیئے جن میں زیادہ ترادب اور طب میں ہیں۔ نیلز بوہر کو 1922 میں جوہری طبیعیات (نیوکلیئر فزکس) میں نوبل انعام ملا اور بعد میں انہوں نے امریکا جاکر ایٹم بم بنانے میں کردار ادا کیا۔ آپ ستم ظریفی دیکھیے کہ ڈنمارک میں نیوکلیئر پلانٹس سے بجلی تک پیدا کرنے پر پابندی ہے۔ ایک اور مزے کی بات یہ کہ 1975 میں فزکس کا نوبل پرائز ڈنمارک کے آگی بوہر (Aage Bohr) کو ملا جو نیل بوہر کے بیٹے ہیں۔ ڈنمارک میں آبادی کے لحاظ سے دنیا میں سب سے زیادہ نوبل انعام یافتہ ہیں۔

ویسے نوبل پرائز کی تاریخ میں باپ بیٹے کو نوبل پرائز ملنے کا یہ واقعہ کوئی اتنا انوکھا بھی نہیں۔ 1901 سے آج تک 1098 نوبل پرائز دیئے جاچکے ہیں جن میں باپ بیٹے کے 6 جوڑے، ایک بھائیوں کا، 4 شادی شدہ جوڑے، 4 بار وہ سائنسدان جنہیں نوبل پرائز 2 بار ملا، ایک باپ اور بیٹی کا جوڑا اور ایک ماں اور بیٹی کا جوڑا بھی شامل ہیں۔

سب سے زیادہ حیرت ناک واقعہ تو مادام کیوری کا ہے۔ انہیں ان کے شوہر پیری کیوری کے ساتھ 1903 میں طبیعیات کا نوبل پرائز ملا، پھر 1911 میں کیمسٹری کا اور پھر 1935 میں ان کی بیٹی آئرین جیولیٹ کیوری اور داماد فریڈرک جیولیٹ کو کیمسٹری میں نوبل پرائز ملا۔

’’لیگو برکس‘‘ (Lego Bricks) کا نام کس نے نہیں سنا۔ آپ نے NXT روبوٹ پر پروگرامنگ کی ہوگی۔ Lego دراصل دو ڈینش الفاظ (Leg Godt) کا مخفف ہے جس کا مطلب ہوتا ہے ’’اچھا کھیلو‘‘ (Well Play)۔ لیگو کمپنی کی بنیاد 1932 میں اول کرک (Ole Kirk) نے رکھی تھی۔ 1958 میں پہلی لیگو اینٹ بنائی گئی اور اب تک یہ کمپنی دنیا کو 320 ارب اینٹیں فروخت کرچکی ہے۔ یعنی دنیا کے ہر شخص پر تقریباً 60 اینٹیں بنتی ہیں۔ کوپن ہیگن سے کچھ فاصلے پر ہی لیگو کا عظیم الشان پارک ہے جو بچوں کیلئے سیر و تفریح کا ایک بہترین مقام ہے۔

ڈنمارک کو ادب سے پیار ہے۔ ایچ سی اینڈرسن نے 1913 میں مشہور زمانہ ’’لِٹل مرمیڈ‘‘ (ننھی جل پری) کی کہانی لکھی، جس میں ایک خوبصورت جل پری کسی انسان کی محبت میں گرفتار ہو کر اس کی ایک جھلک دیکھنے کو روز ساحل پر آجاتی ہے۔ اس کہانی کی یاد میں کوپن ہیگن میں لِٹل مرمیڈ کے نام سے پارک اور مجسمہ آج تک موجود ہے۔ ابھی بچوں کی حالیہ فلم ’’فروزن‘‘ (Frozen) کا پلاٹ بھی ان ہی ایچ سی اینڈرسن کے ایک ناول سے لیا گیا ہے۔ Little Match Girl، Ugly Duckling اور Fantasia وہ مشہور کہانیاں ہیں جو ڈنمارک نے دنیا کو دیں۔

ادب اور پریوں کی کہانیوں سے یہ ملک اتنا متاثر ہے کہ 1933 میں Aksel Sandemose کے ناول A Refuges Crosses His Tracks کا ایک جملہ قانون بن گیا جسے لوگ آج تک مانتے ہیں اور یہ قانون Janteloven ڈنمارک میں کسی اصول کی حیثیت سے پڑھایا اور مانا جاتا ہے۔ اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں اور سب برابر ہیں۔ ڈینش لوگ یہ اصول اپنے بچوں کو گھٹی میں پلادیتے ہیں اور اسی کی وجہ سے پبلک میں اپنے پیسوں یا عمارت کی نمائش انتہائی معیوب سمجھی جاتی ہے۔ آپ کو کوئی ڈینش عام حالت میں مہنگے سوٹ، بہت سے میک اپ یا زیورات سے لیس نہیں ملے گا۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ امیر ہیں تو آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اپنی امارت کی نمائش کرکے کسی کا دل دکھائیں۔

ڈنمارک کی بادشاہت دنیا کی پرانی ترین بادشاہت ہے جو لگ بھگ ہزار سال سے جاری ہے اور یہاں کا جھنڈا کسی بھی آزاد ملک کا پرانا ترین جھنڈا ہے جو 1219 سے ویسے کا ویسا ہی ہے۔ ملک میں قومی پرچم کے علاوہ کسی بھی قسم کا پرچم لہرانا قابلِ تعزیر جرم ہے۔

ڈنمارک سور کے گوشت کی برآمدات میں سرفہرست ہے۔ یہ 29 ملین سور سال کے پیدا کرتا ہے، آبادی سے 5 گنا زائد۔ دنیا میں شراب نوشی کی عمر 21 سال ہے جبکہ یہاں صرف 16 سال۔ ہم جنس پرستی، فحش فلموں اور جسم فروشی کو قانونی مقام حاصل ہے اور یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں Pedophiles کو (وہ لوگ جو بچوں سے جنسی تعلق قائم کریں) جرم کے بجائے دماغی بیماری سمجھا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کو نفسیاتی اسپتال میں رکھا جاتا ہے۔

ہر ملک کی طرح یہاں بھی بہت سی اچھائیاں ہیں اور کچھ برائیاں۔ انسان کو شہد کی مکھی کی طرح پھولوں سے رس چوس کر شہد اپنے خزانے میں جمع کرتے رہنا چاہیے۔ ڈنمارک نے حال ہی میں مسلمان خواتین کے چہرے ہر نقاب پہننے پر پابندی لگائی ہے، سر پر اسکارف پہننے پر کوئی پابندی نہیں۔ اگر مسلمان ایک ہوکر سیاسی دھارے میں داخل ہونا شروع کریں تو قانون بدلنے میں کیا دیر لگے گی؟ ڈنمارک کے قانون ویسے بھی بہت دلچسپ ہیں۔ مثلاً کسی بھی شخص کو ماسک پہننے کی اجازت نہیں۔ خواتین وگ نہیں پہن سکتیں۔ چمگادڑوں کو خصوصی حقوق حاصل ہیں، اگر وہ آپ کے گھر آجائیں تو آپ انہیں بھگانے کیلئے جھاڑو تک نہیں دکھا سکتے۔ ایک فیملی کو حال ہی میں اپنا گھر سال بھر کیلئے چھوڑنا پڑا کہ یہ اُڑنے والے چوہے کہیں جاتے نہیں اور اہل خانہ کا ان کے ساتھ گزارا نہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہہ دے کہ تم اپنی ماں سے زیادہ بدصورت ہو تو سزا دو سال کی جیل ہے۔ لوگ حکومت پر یقین رکھتے ہیں اور حکومت لوگوں پر۔ گھر لینے کیلئے ایک ای میل یا ایس ایم ایس کافی ہوتا ہے، کسی ملاقات کی ضرورت نہیں۔ بینکوں سے قرض فون یا آن لائن ہی مل جاتا ہے۔

ہر شخص کا ایک پیلے رنگ کا سول پرسنل رجسٹریشن (Civil Personal Registration) یعنی سی پی آر کارڈ ہوتا ہے جس کی مدد سے وہ میڈیکل اور ایجوکیشن مفت حاصل کرسکتا ہے۔ پڑھنے پر تو حکومت الٹا پیسے دیتی ہے۔ یہ سی پی آر نمبر دس ہندسوں کا ہوتا ہے شروع کے چھ آپ کی تاریخ پیدائش اور آخری چار آپ کا منفرد نمبر۔ اگر نمبر طاق ہو تومطلب ہے کہ کارڈ ہولڈر خاتون اور جفت ہو تو مرد ہوگا۔

بالکل اسی طرح ہر پالتو جانور کا بھی سی ایچ آر نمبر ہوتا ہے جسےمرکزی ہسبنڈری رجسٹری (Central Husbandry Registry) کہتے ہیں۔ اس میں آپ کے پاس جانور کا مکمل ریکارڈ، اس کی ادویہ اور ویکسی نیشن کا حساب ہوتا ہے۔ ہر جانور کو ISO 11784 / 11785 اسٹینڈرڈ کی مائیکرو چپ لگائی جاتی ہے۔ ڈنمارک کے لوگ کتوں سے بچوں کی طرح پیار کرتے ہیں مگر اس کے باوجود اگر آپ کا کتا کسی اور شخص یا جانور کو کاٹ لے یا زخمی کر دے تو ملک کے قانون کے مطابق پولیس کو اسے فوراً مار دینے کا حکم ہے۔ آپ کے جانور کی انشورنس اور سامنے والے کی انشورنس الگ پیسے دے گی اور اگر آپ جاب پر نہ جاسکے تو تنخواہ الگ۔ ایک پڑوسی کے بچے کو کتے نے زخمی کردیا۔ کتے کو موقعے پر ہی پولیس نے مار دیا اور انشورنس کی مد میں تقریباً پاکستانی 50 لاکھ روپے ملے۔ ڈنمارک نے 1991 میں ایک قانون پاس کیا جس کی وجہ سے آپ 13 قسم کے کتے نہیں رکھ سکتے مثلاً Pit Bill Terrier یا Tosa Inu وغیرہ۔ نیز کسی بھی قسم کے مخلوط النسل (کراس بریڈ) کتے بھی رکھنا قانوناً جرم ہے۔

ڈنمارک میں عموماً 6 ماہ سے 3 سال کے بچوں کو دن میں ان کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں میں بھیجا جاتا ہے جہاں انہیں صرف سونے جاگنے اور کھانے پینے وغیرہ کے شیڈول کا پابند کیا جاتا ہے۔ 3 سال سے 6 سال تک کا اسکول الگ ہے جہاں صرف سماجی اخلاقیات سکھائی جاتی ہیں۔ استاد آپ کو کبھی عوامی کتب خانوں، سڑکوں یا شاپنگ مال لے جاتے ہیں کہ لوگوں سے بات کیسے کرنی ہے یا سائیکل کیسے چلانی ہے وغیرہ۔

6 سال کی عمر میں پبلک اسکول میں کے جی میں داخلہ ہوگا، 16سال کی عمر تک کوئی حتمی امتحان نہیں ہوتا۔ اس کے بعد آپ نویں کلاس کا حکومتی امتحان دیتے ہیں۔ 18 سال سے 24 سال کی عمر تک ہر بچے کو حکومت کی طرف سے 5839 کرونز یا 900 ڈالر ماہانہ ملتے ہیں کہ وہ آرام سے پڑھ سکے۔ نہ زیادہ نمبر لینے کی پابندی اور نہ نکالے جانے کا ڈر۔ آپ صرف اپنے والدین کے ساتھ ان کے گھر میں نہیں رہ سکتے۔ آپ کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے۔ تعلیم تو ویسے ہی مفت ہے۔

اسی طرح بچوں کا نام رکھنے کا بھی قانون ہے۔ حکومت کی طرف سے 7000 ناموں کی فہرست جاری کی گئی ہے۔ آپ ان میں سے کوئی رکھ لیجیے۔ کوئی شخص اپنی مرضی کی ہجے یا نام نہیں رکھ سکتا۔ مثلاً آپ اپنے بچے کو ایپل، نارتھ وغیرہ نام نہیں دے سکتے۔ ایک تہائی ڈینش لوگوں کے نام کے آخر میں ’’سن‘‘ آتا ہے۔

اگر آپ 25 سال کے ہوجائیں اور شادی نہ ہوئی ہو تو آپ کے دوست آپ پر دارچینی کی بارش کرتے ہیں۔ یورپ میں سب سے زیادہ طلاقیں ڈنمارک میں ہوتی ہیں۔ کوئی 20 لوگ ہی ساتھ رہتے ہیں جسے کاغذی شادی کہتے ہیں۔ طلاق کی بڑی وجہ شوہروں کا شیڈول پر نہ چلنا ہوتا ہے۔ مثلاً آپ تمام لوگوں کی طرح صبح 5 بجے نہیں اٹھتے یا ٹریفک کے سرخ اشارے پر گاڑی نہیں روکتے تو آپ کی بیوی آپ کو چھوڑ جائے گی۔

پیٹر میڈیسن کوپن ہیگن کا مشہور موجد تھا۔ اس نے اپنی آبدوز بنائی مگر کچھ سال پہلے سوئیڈش جرنلسٹ کو ٹکڑے کرکے اسی آبدوز میں مار ڈالا۔ کم وال (Kim Wall) کی اس کہانی سے ڈنمارک کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی۔

ڈنمارک میں ٹریفک چالان باقی یورپ کی طرح آپ کی آمدنی سے منسلک ہے۔ اگر آپ امیر ہیں تو یہ جرمانہ لاکھوں میں بھی ہوسکتا ہے۔ جرمنی میں جرمانے کی انتہا 16 ملین ڈالر ہے، سوئٹزرلینڈ میں 1 ملین ڈالر۔ ابھی حال ہی میں ایک فیراری ڈرائیور کو 290,000 ڈالر کا جرمانہ کیا گیا۔ اگر آپ کچھ نہیں کماتے تو بہت سستے میں چھوٹ جائیں گے۔ یہ نظام امریکا کی نسبت بہت بہتر ہے جہاں ایک افریقی امریکی خاتون کو 151 ڈالر نہ ہونے کی وجہ سے 7 سال جیل کی سزا کاٹنی پڑی۔

کرپٹو کرنسی اور ICO پر ڈنمارک بہت کام کر رہا ہے۔ رات 8 بجے کے بعد کیش لینا قانوناً جرم ہے اور اے ٹی ایم مشین تیزی سی ہٹائی جا رہی ہیں تاکہ معاشرے میں نقد رقم کا استعمال ختم کیا جاسکے۔

دنیا بھر کے ذہین لوگوں کو اکٹھا کرنے کیلئے ڈنمارک نے اسٹارٹ اپ ڈنمارک کے نام سے منصوبے کا آغاز کیا ہے جس میں آپ بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ اگر آپ کی تجویز ڈینش بزنس اتھارٹی نے قبول کرلی تو آپ کو ڈنمارک کا گرین کارڈ بھی ملے گا اور آپ کے منصوبے کی تجویز کو حقیقت کا رنگ دینے کیلئے مالی امداد بھی۔

ڈینش لوگ آزادی رائے کے دلدادہ ہیں۔ 1971 میں ڈنمارک نے کوپن ہیگن سے تھوڑے فاصلے پر ایک کمیونٹی کو اپنے طرز پر رہنے کے حقوق دیئے تھے جسے ’’فری ٹاؤن کرسٹانیا‘‘ (Free Town Christiania) کہتے ہیں۔ یہاں کی آبادی لگ بھگ صرف ہزار لوگوں کی ہے۔ چرس، گانجا، ہیروئین، ہم جنس پرستی، یہاں سب کچھ جائز ہے اور تصویریں کھینچنے کی اجازت نہیں۔ آپ اسے ڈنمارک کا نوگو ایریا کہہ سکتے ہیں۔ 84 ایکڑ پر پھیلے اس شہر میں گاڑی کا داخلہ منع ہے اور یہ لوگ یوگا کے متوالے ہیں۔ ڈنمارک میں اب تک 2800 لوگ مسلمان ہو چکے ہیں اور سالانہ اوسط 70 لوگوں کی ہے۔ یوں تو ڈنمارک بہت مہنگا ہے مگر یہاں تنخواہیں بھی اسی حساب سے ہیں۔ آپ کو ایک گھنٹہ کام کرنے کے 110 کرون یا 2 ہزار پاکستانی روپے تک مل جاتے ہیں۔

یہاں لوگ کیفے یا پب میں جاتے ہوئے اپنے بچے باہر اسٹالر پر لائن سے چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کیلئے کھلی فضا بہتر ہے۔ یہاں کوئی اغوا نہیں کرتا کیونکہ بچہ پالنا ایک نہایت مہنگا سودا ہے۔ قانون کے مطابق اگر آپ کو کوئی بچہ ملے اور دو گھنٹے تک اس کا کوئی والی وارث نہ آئے تو آپ اسے قانوناً اپنا حق جتا کر لے جاسکتے ہیں۔

ڈنمارک میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں آپ سمندر سے 30 میل کی دوری پر ہوں۔ شاید اسی لیے اسکولوں میں سوئمنگ لازمی ہے اور آپ کو کوئی ڈینش ایسا نہیں ملے گا جسے سوئمنگ کرنا نہ آتی ہو۔

یہاں فوک ہائی اسکول (Folk High School) کے نام سے ہائی اسکول ہوتے ہیں جہاں نفسیات اور ڈنمارک کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے۔ جینس فرس (Janus Fir’s) جس نے اسکائپ بنایا ڈنمارک کا ہی تھا۔ فلاسفر سارن کیرکیگارڈ (Soren Kierkegaard) جسے وجودیت (Existentialism) کا بابائے آدم کہتے ہیں۔ وہ بھی ڈینش تھا جس نے انسانی زندگی کو خوبصورتی، حسن ترتیب، اخلاقیات اور مذہب کا مجموعہ مانا۔

والٹ ڈزنی نے ڈنمارک کے ٹیوولی گارڈن (Tivoli Garden) کو (جو 1843 میں بنا اور دنیا کا قدیم ترین تفریحی پارک ہے) دیکھ کر ہی ڈزنی لینڈ تخلیق کیا اور یہیں Janis Olsen نے 27 سال لگا کر مشہور زمانہ عالمی گھڑی بنائی جو 1955 سے ٹھیک وقت بتا رہی ہے اور اگلے 5,70,000 سال تک ٹھیک بتاتی رہے گی۔ لور پاک (Lurpak) مکھن بھی دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں یہیں سے جاتا ہے۔

Hygge جسے ’’ہُوگا‘‘ پڑھا جاتا ہے، اس زبان میں ساتھ مل بیٹھنے کو کہتے ہیں اور اس کی معاشرے میں بڑی قدر ہے۔ گرمیوں میں دن کا دورانیہ 19 گھنٹوں تک چلا جاتا ہے؛ رات 11:30 بجے عشاء اور صبح 3 بجے فجر ہوتی ہے۔

یہاں کے لوگ آپ کی پرائیویسی کا بہت خیال کرتے ہیں۔ یہ کبھی خود سے گفتگو شروع نہیں کرتے اور گفتگو کے دوران مذہب، سیاست یا ذاتیات کو زیر بحث نہیں لاتے۔

سب سے زیادہ متاثر مجھے یہاں دو چیزوں نے کیا۔ پہلا ٹیلی ویژن جس پر ایک حادثہ دکھایا جارہا تھا۔ مکمل سائنسی طریقے سے سمجھایا گیا کہ کار کیسے الٹی؛ یقین جانیے ہائی اسکول کی آدھی جیومیٹری اسی ایک خبر کو دیکھنے سے ازبر ہوگئی۔ دوسرا یہاں کی زبان۔ ان کی زبان میں برائے مہربانی (Please) کا لفظ ہی نہیں۔ جو کام جسے کرنا ہے، اُسی کی ذمہ داری ہے۔ ’’پلیز‘‘ کیوں بولیں؟

گریجویشن کی ایک تقریب میں جتنے ڈینش لوگوں نے ڈپلوما لیا، ان سب نے کہا ’’We did it۔‘‘ میں نے استفسار کیا تو پتا چلا کہ انہیں بچپن سے سکھایا جاتا ہے کے ہر بڑے کام کی نسبت اپنی ذات (I) کے بجائے ہم (We) سے کرنی چاہیے۔

کوپن ہیگن میں بلیک ڈائمنڈ کے نام سے شہر کی خوبصورت ترین لائبریری قائم ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں زیادہ تر کتابیں ان کی اپنی زبان ڈينش ہی میں ہیں۔ میں نے لائبریری کے کمپیوٹر پر تلاش کیا تو ایک بھی کتاب اردو میں نہ مل سکی اور نہ ہی پاکستان یا اسلام پر کوئی خاطرخواہ اور قابل ذکر کتب نظر آئیں۔ اس سے آپ ڈنمارک میں موجود پاکستان اور مسلمان کمیونٹی کے پڑھنے اور لائبریری جانے کے ذوق کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اگر آپ کو کوئی کتاب چاہیے تو لائبریری وہ آپ کو منگوا دیتی ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو۔

ڈنمارک کی خصوصیات میں سے اپنی زبان سے محبت بھی شامل ہے۔ کوئی 86 فیصد ڈينش انگلش جانتے ہیں مگر شاپنگ مال سے لے کر یونیورسٹی تک اور ٹریفک سائن سے لے کر بل بورڈز تک میں صرف ڈينش زبان استعمال کرتے ہیں۔ مادری زبان ہماری لاشعوری زبان ہوتی ہے جس میں ہم سوچتے ہیں۔ اس سے رابطہ کاٹ کر انگریزی پر بھروسہ کرنے کا جرم صرف پاکستان میں ہوتا ہے۔

اگر غور سے دیکھیں تو مشرق میں خاندانی نظام قائم ہے اور مغرب میں نہیں، مگر اس کے باوجود وہاں انسان بن رہے ہیں اور ہمارے یہاں یہ سلسلہ اب رک ہی گیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ وہاں حکومت نے ماں کا کردار سنبھال لیا ہے اور یہاں والدین نے بچوں کو آیا، ماسیوں، ٹیلی ویژن، فون اور سوشل میڈیا کے سہارے چھوڑ دیا ہے۔

ڈنمارک میں ہر شخص کی بیروزگاری انشورنس بھی ہوتی ہے۔ اگر آپ کی نوکری چلی جائے تو انشورنس کمپنی آپ کو دس سے بارہ ہزار ہزار ڈينش کرون (دو سے ڈھائی لاکھ پاکستانی روپے) ماہانہ دیتی ہے، دو سال تک تاکہ آپ کوئی اور نوکری ڈھونڈ لیں اور آپ کا معیار زندگی گرنے نہ پائے۔ صحت اور تعلیم تو ویسے ہی مفت ہے۔ مزید یہ کہ اگر آپ کو آپ کی فیلڈ میں جاب نہیں ملتی تو حکومت آپ کو نئے کورس کرنے کے پیسے الگ سے دیتی ہے تاکہ آپ نئی ٹیکنالوجی سیکھ کر پھر سے نوکری کے قابل ہوسکیں۔ حکومت کو پتا ہے کہ ایک بے روزگار آدمی اسی پر بوجھ بنے گا۔ معاشرے میں بھی وہ شخص جو کام نہ کرتا ہو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔

یہ ہے ڈنمارک کا وہ مزاج جس سے یہ ڈنمارک بنا۔ امید ہے کہ ہم کچھ سیکھ سکیں گے۔

اسٹیفن کوی کہتا تھا کہ کمپاس (قطب نما) کے سہارے گزاری زندگی، گھڑی کے سہارے گزاری زندگی سے کہیں بہتر ہے۔ آئیے سفر پر چلتے ہیں اور روز کچھ نیا سیکھتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔