عوام مایوسی کا شکار

نئی حکومت نے پٹرول کی قیمت میں معمولی سی کمی کی لیکن اس کا اثر عوام پر اس قدر مثبت پڑا۔


Zaheer Akhter Bedari September 11, 2018
[email protected]

عمران خان نے وزیر اعظم ہاؤس میں رہنے سے انکارکرکے اور ان کے ساتھی چیف منسٹر ہاؤس اور گورنر ہاؤس میں رہنے کے بجائے اپنے ذاتی مکانوں میں رہنے کو ترجیح دے کر عوام میں جو اچھا اور مثبت اثر چھوڑا تھا اسے نئے پاکستان کے نئے حکمران اپنی غلطیوں سے نقصان پہنچانے کی حماقت کر رہے ہیں۔

اشرافیائی حکومتوں سے عاجز عوام نئی حکومت سے بے شمار توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں، عوام کی توقعات پر پورا اترنا نئی حکومت کی اولین ترجیح ہونا چاہیے لیکن صرف دو ہفتوں میں حکومت نے ایسی غلطیاں کی ہیں جس سے عوام کا بد دل ہونا فطری ہے۔ ہماری نئی حکومت کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ ماضی کی حکومتوں کے شاہانہ رویوں سے عوام نہ صرف بددل ہوتے رہے بلکہ متنفر بھی ہوتے رہے۔

ہماری نئی حکومت کو یہ جائزہ لینا چاہیے کہ عوام اشرافیائی حکومتوں سے کیوں متنفر تھے، اشرافیائی دور حکومت ویسے تو جمہوریت کا لبادہ اوڑھے رہتا ہے لیکن عملی زندگی میں قدم قدم پر شاہانہ روایتوں پر کار بند رہتا ہے کیونکہ یہ روایتیں اشرافیہ کی نس نس میں سما جاتی ہیں، یہاں ہم اشرافیہ کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹ کا ذکر نہیں کریں گے بلکہ موجودہ مڈل کلاس حکومت کی ان غلطیوں کی نشان دہی کریں گے جن کی وجہ سے عوام بد دلی اور مایوسی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ موجودہ حکومت عوامی امنگوں پر پورا اترنے کی کوشش کر رہی ہے، مثلاً پٹرول ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں کمی سے عوام کا خوش ہونا فطری بات ہے ۔

عوام اس بات سے بھی خوش ہیں کہ عمران خان وزیر اعظم ہاؤس میں رہنے کے بجائے ایک تین کمروں میں رہنے کا ارادہ ظاہرکر رہے ہیں اور ان کے ساتھی حکمران بھی سرکاری پرتعیش عمارتوں میں رہنے کے بجائے اپنے ذاتی گھروں میں رہنے کا اعلان کر رہے ہیں ، ان اچھے اور عوام کو متاثر کرنے والے اقدامات پر وزیر اعظم کا اپنے گھر ہیلی کاپٹر پر آنے جانے نے پانی پھیردیا ۔

اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کے یہ توجیح پیش کی ہے کہ بذریعہ کار ان کا آنا جانا عوام کے لیے تکلیف کا باعث بن جاتا ہے، اس لیے وہ اپنے گھر ہیلی کاپٹر کے ذریعے آجا رہے ہیں، اس توجیح کو عوام ہضم نہیں کر پا رہے ہیں ۔ اس سے بہتر تو یہ تھا کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس ہی میں رہ کر ان شاہانہ روایتوں اور اربوں روپوں کے اخراجات سے بچتے جو ماضی کے حکمرانوں کی روایت رہے ہیں ۔

ہوسکتا ہے حکومتی اہلکاروں کا اس حوالے سے یہ موقف درست ہو کہ ہیلی کاپٹر پر آنے جانے کا خرچ بہت کم ہوتا ہے لیکن ہیلی کاپٹر پر آنا جانا بذات خود ایک اشرافیائی بیماری ہے جس سے عوام نفرت کرتے ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں کے ملک کے اندر اور باہر سفر کرنے کے لیے خصوصی ہوائی جہاز ہوتے تھے جن پر لاہور سے کراچی آنے جانے پر لاکھوں روپے صرف ہوتے تھے، اگر عمران خان پاکستان کو نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو تمام اشرافیائی طور طریقوں سے احتراز کرنا پڑے گا۔

میں یہ کالم لکھ رہا تھا کہ ٹی وی پر بار بار یہ خبر گردش کرنے لگی کہ لاہور میں وزیر اعظم کی آمد و رفت کے دوران ٹریفک کو اس طرح بند کردیا گیا کہ عوام کو سڑکوں پر ٹریفک جاری ہونے کا گھنٹوں انتظار کرنا پڑا جس سے عوام سخت ناراض ہوئے۔ وزیر اعظم عمران خان کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اشرافیہ خصوصاً سابق حکمران اشرافیہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے سخت مشتعل اور چراغ پا ہے وہ عمران حکومت کی معمولی معمولی غلطیوں کو بھی پہاڑ بناکر پیش کرے گی۔

پنجاب پر عشروں حکومت کرنے والوں کی جڑیں پنجاب میں بہت گہری اور مضبوط ہیں، بیورو کریسی سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں سابق حکومت کے حامی موجود ہیں۔ ان حقائق کا تقاضا ہے کہ حکومت پھونک پھونک کر قدم رکھے اور ایسے کاموں سے سخت پرہیز کرے جو ماضی کے حکمرانوں کو پروپیگنڈے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ عمران خان کی حکومت رہتی ہے یا جاتی ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک مڈل کلاس حکومت برسر اقتدار آئی اور وہ بھی اشرافیہ کے اس راستے پر چل پڑی جس سے عوام نفرت کرتے ہیں۔ اگر اپنی غلطیوں سے یا اشرافیہ کی سازشوں سے عمران حکومت بدنام ہوتی ہے تو عوام کا اعتماد مڈل کلاس حکومت سے بھی متزلزل ہوجائے گا اور یہ اشرافیہ کو دوبارہ اس قدر طاقتور کر دے گی کہ وہ مزید کئی دہائیوں تک حکومت اور سیاست پر قابض رہ سکے۔

عوام سخت مشکلات میں زندگی گزار رہے ہیں، حکمرانوں کو عوامی مشکلات کی کبھی کوئی پرواہ نہیں رہی، اس طویل اور تکلیف دہ زندگی کے بعد ایک مڈل کلاس کی حکومت کو عوام اپنی نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ عوام کے اس تاثر کو ہر قیمت پر برقرار رہنا چاہیے اور اس حوالے ماضی کے شاہانہ طور طریقوں سے ہر قیمت پر بچنا چاہیے۔

نئی حکومت نے پٹرول کی قیمت میں معمولی سی کمی کی لیکن اس کا اثر عوام پر اس قدر مثبت پڑا کہ عوام اس اقدام کو مستقبل کی نوید سمجھنے لگے عوام کی اس امید پرکوئی منفی اثر نہیں پڑنا چاہیے۔ عوام کے روزمرہ استعمال کی چیزوں میں آئل اور چینی شامل ہیں ۔ چینی کی صنعت پر اشرافیہ کا قبضہ ہے جو چینی کی فروخت پر بے تحاشا منافع کما رہی ہے ۔ چینی کی تیاری اور فروخت کی قیمتوں کی تحقیق کی جائے تو پتا چلے گا کہ چینی کے کارخانوں کے مالک چینی کی اصل قیمت سے کتنے سو فیصد منافع کما رہے ہیں ۔

اشرافیہ کی اس لوٹ مار کو روکا جائے تو چینی کی قیمتوں میں بہت کمی ہوسکتی ہے۔اسی طرح آٹا ہے، گندم کی قیمتوں میں کمی پر وڈیرہ شاہی آسمان سر پر اٹھا لیتی ہے، حالانکہ کسانوں کی ملکیت دس بیس ایکڑ زمین ہوتی ہے اور وڈیرہ شاہی لاکھوں ایکڑ زمین کی مالک ہے، اگر اس حوالے سے تحقیق کی جائے تو پتا چلے گا کہ گندم کی فصلوں پر وڈیرہ شاہی قابض ہے اور بے تحاشا منافع کما رہی ہے، اس منافع خوری کو روک کر آٹے کی قیمت میں کمی کی جاسکتی ہے جس کا عوام پر مثبت اثر پڑے گا۔

مقبول خبریں