ایٹم بم بجلی اور نئی حکومت

یہ وہ وقت تھا جب امریکا، کینیڈا اور یورپی ممالک پرامن ایٹمی توانائی کی برآمد کے لیے تیار رہتے تھے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan May 31, 2013
[email protected]

28 مئی کو یوم تکبیر منایا گیا۔ اس دن ملک کے بیشتر علاقوں میں بجلی موجود نہیں تھی۔ میاں نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کی 13 ویں سالگرہ کے موقعے پر کہا کہ حکومت کے لیے لوڈشیڈنگ کا فوری حل تلاش کرنا ممکن نہیں۔ ایٹمی طاقت کے حامل ملک میں بجلی کی قلت نے عام آدمی کی زندگی کو درگور کردیا ہے۔ ایٹمی ہتھیار بھی عام آدمی کی زندگی کو تحفظ نہیں دے سکے۔

پاکستان میں ایٹمی توانائی کی تاریخ 50 کی دہائی سے شروع ہوتی ہے۔ 50 کی دہائی میں برسراقتدار حکومتوں نے ایٹمی توانائی کے حصول کے لیے منصوبہ بندی شروع کردی تھی۔ فوجی حکمراں جنرل ایوب خان کے دور میں جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر صنعت تھے پرامن ایٹمی توانائی کے حصول کے لیے کوششیں شروع ہوچکی تھیں۔ کینیڈا کی حکومت سے ایٹمی بجلی گھر کے حصول کے لیے معاہدہ ہوا۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں 1971 میں کراچی میں پہلے ایٹمی بجلی گھر کینپ کا افتتاح ہوا۔

یہ وہ وقت تھا جب امریکا، کینیڈا اور یورپی ممالک پرامن ایٹمی توانائی کی برآمد کے لیے تیار رہتے تھے۔ جب کراچی میں کینپ کا افتتاح ہوا تو حکومت نے طے کیا تھا کہ کینپ کا بوجھ کم کرنے کے لیے ملک کے مختلف علاقوں میں ایٹمی بجلی گھروں کا جال بچھایا جائے گا۔ ایٹمی بجلی گھروں کو مر مت کے لیے سال میں کئی دفعہ بند کرنا پڑتا ہے، اس بنا پر ایٹمی بجلی گھروں کے جال سے ایک بجلی گھر بند ہونے سے دوسرے بجلی گھروں سے بجلی حاصل کی جاسکتی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب ایٹم کے ٹوٹنے سے حاصل ہونے والے بجلی پر سب سے کم لاگت آتی تھی۔

1971 میں پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو برسر اقتدار آئے تو انھوں نے سائنس و ٹیکنالوجی پر خصوصی توجہ دینے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے ملک بھر کے سائنسدانوں کا اجلاس ملتان میں بلایا، جس میں سائنس کی ترقی کے کئی نئے اداروں کے قیام کے علاوہ ایٹمی طاقت بننے کے بارے میں بھی تجاویز پر غور ہوا۔ بھٹو صاحب اپنے وقت کے مدبرین پنڈت نہرو، جواہر لعل اور مارشل ٹیٹو کے بڑے مداح تھے، وہ ان رہنماؤں کی طرح تیسری دنیا کے رہنما بننے کا عزم رکھتے تھے۔ بھٹو صاحب اسلامی ممالک کے اتحاد کے بھی حامی تھے۔

بھٹو صاحب کا یہ تصور تھا کہ ایک بڑی فوج اور ایٹمی ہتھیاروں کے ذریعے اسلامی ممالک اور تیسری دنیا کے ممالک کی رہنمائی کی جاسکتی ہے۔ انھوں نے پاکستان میں 2 ڈویژن فوج کا اضافہ کیا اور فوج کو ایٹم بم جیسا ہتھیار دینے کے منصوبے پر عملدرآمد کیا ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کی بھٹو صاحب سے ملاقات ہوئی، یوں کہوٹہ میں ایٹمی پلانٹ کی تیاری شروع ہوئی۔ اس پلانٹ کی تعمیر پر اربوں روپے خرچ ہوئے جن کا کبھی آڈٹ نہیں ہوا۔

اس دوران بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ایٹمی دھماکا کیا، امریکا اور یورپی ممالک چوکنا ہوگئے۔ امریکا اور یورپی ممالک ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے حق میں نہیں تھے مگر ایٹم کو بطور سستا ایندھن استعمال کرنے اور پرامن استعمال کے لیے جوہری توانائی کے استعمال میں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں بجلی کی پیداوار کا انحصار ہائیڈل بجلی پر تھا، امریکا نے پاکستان کو ایٹم بم بنانے کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا۔

امریکا کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنی ایٹمی تنصیبات کو انٹرنیشنل اٹامک انرجی کونسل کے معائنے کے لیے کھول دینی چاہیے تاکہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے عالمی معیار پر عملدرآمد ہوسکے اور ایٹمی توانائی صرف پرامن مقاصد کے لیے استعمال ہوسکے۔ اسی طرح پاکستان کو این پی ٹی (N.P.T) پر دستخط کے لیے بھی کہا گیا۔ پاکستان نے کہوٹہ پلانٹ کو عالمی معائنے کے لیے کھولنے سے انکار کیا مگر کینپ کو معائنے کے لیے کھول دیا۔ پاکستان میں مزید ایٹمی بجلی گھروں کے قیام کا معاملہ التوا میں چلا گیا۔

جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹا، جنرل ضیاء امریکی سی آئی اے کے سوویت یونین کے خلاف پروجیکٹ میں شریک ہوئے، اور امریکا اور اتحادیوں سے اربوں ڈالر حاصل کیے گئے ، اس رقم کو توانائی کے نئے وسائل کی تعمیر و ترقی پر خرچ نہیں کیا گیا۔ اس دوران نئے ڈیموں کی تعمیر پر بھی توجہ نہیں دی گئی مگر خفیہ طور پر ایٹم بم کی تیاری پر کروڑوں روپے خرچ کردیے گئے۔ خلیج، یورپی ممالک اور امریکا میں آباد پاکستانی تارکینِ وطن کی جانب سے بھیجے جانے والے زرمبادلہ سے نئے اور جدید گھروں کی تعمیر کے علاوہ الیکٹرونک آلات کی درآمد سے بجلی کی مانگ بڑھنی شروع ہوئی۔

80 کی دہائی میں بجلی کی ملک میں لوڈشیڈنگ شروع ہوگئی اور کراچی میں باقاعدہ کئی کئی گھنٹے بجلی بند ہونے لگی۔ اس دوران سوویت یونین کے شہر چرنوبل میں قائم ایٹمی پلانٹ میں خوفناک دھماکا ہوا، اس دھماکے میں ہزاروں لوگ ہلاک ہوگئے اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں شعور بیدار ہوا، ایٹمی تابکار ی سے بچنے کے لیے دنیا بھر میں نئی پابندیاں عائد ہوئیں مگر پوری دنیا میں سب سے سستی بجلی ایٹمی بجلی قرار پائی۔

وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دور میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ صوبوں کے درمیان اختلاف رائے کا شکار ہوا مگر بجلی کی ترقی کے منصوبوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور بجلی کا بحران بڑھنا شروع ہوا۔ جب 1998 میں بھارت نے ایٹمی دھماکا کیا تو اس کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی۔ عالمی مبصرین کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت نے ایٹمی دھماکا کرکے بھارت کے لاکھوں غریبوں کو غربت کی مزید دلدل میں دھکیل دیا ، اس کے ساتھ ہی پاکستان پر بھی ایٹم بم نہ بنانے کے لیے دباؤ بڑھتا چلا گیا۔

اس دور میں میاں نواز شریف ایٹم بم کے معاملے پر غوروخوض کررہے تھے، امریکا نے لاکھوں ڈالر کی امداد کے پیکیج کا اعلان کیا، یہ وہ وقت تھا جب قوم کو جذبات کے بجائے حقائق کی روشنی میں فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ کئی دانشور اس ضمن میں اسکینڈی نیوین ممالک کی مثال دیتے تھے جنہوں نے اپنے پڑوسیوں کے ایٹمی طاقت بن جانے کے باوجود خود دھماکا نہیں کیا اور اپنی تمام تر توانائیاں تعلیم، صحت، توانائی کے حصول اور انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر خرچ کیے۔ آج یہ یورپی ممالک دنیا میں جنت کا منظر پیش کرتے ہیں۔

جب 1998 میں ایٹمی دھماکے کرنے کے بارے میں بحث و مباحثہ ہورہا تھا تو دائیں بازو کی جماعتوں خاص طور پر جماعت اسلامی نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ ایٹمی دھماکے سے کشکول ٹوٹ جائے گا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایٹمی دھماکا نہ کیا گیا تو بھارت پاکستان پر قبضہ کرلے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر پروپیگنڈا کرنے والے اس حقیقت کو بھول گئے تھے کہ بھارت 1974 میں ایٹمی طاقت بنا اور پاکستان اس عرصے کے دوران بغیر ایٹم بم کے ترقی کرتا رہا۔ بالآخر پاکستان نے ایٹمی دھماکا کیا۔

امریکا نے پاکستان کی اقتصادی امداد پر پابندی لگادی اور میاں صاحب نے تعلیم اور صحت کے شعبوں کا بجٹ کم کرکے ملکی خزانے کے بحران کو حل کرنے کی کوشش کی۔ جنرل پرویز مشرف نے کارگل میں چڑھائی کی، ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود کارگل کی محاذ آرائی مہنگی پڑی، پاکستان کو نہ صرف کارگل خالی کرنا پڑا بلکہ دنیا بھر میں بدنامی الگ سے ملی۔ پاکستان ایٹم بم کا مالک تو بنا لیکن بجلی کا بحران شدید ہوتا گیا۔ پھر چین نے چشمہ میں دو ایٹمی پلانٹ دیے ۔

حالیہ انتخابات میں کامیابی کے بعد میاں نواز شریف نے تیسری دفعہ وزیر اعظم بننے سے پہلے چینی وزیراعظم سے مذاکرات کے دوران سول ایٹمی بجلی کے حصول کے لیے بات چیت کی ہے۔ ماہرین یہ بات کہہ رہے ہیں کہ سب سے سستی بجلی ایٹمی بجلی ہے مگر ایٹم بم بنانے کی بنا پر عالمی پابندیوں کے سبب اس بجلی کو استعمال نہیں کیا جارہا۔

توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے حقیقی اقدامات نہیں کیے گئے۔ توانائی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک ایٹم برائے پرامن مقاصد کے تصور کو قبول نہیں کیا جائے گا ملک میں توانائی کا بحران ختم نہیں ہوسکے گا۔ 28 مئی جشن منانے کا دن نہیں ہے بلکہ یہ بات سوچنے کا دن ہے کہ اگر ایٹم بم کے بجائے ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر پر توجہ دی جاتی تو آج ملک ترقی کی نئی منزلوں پر گامزن ہوتا۔ کیا ہم اب بھی سوچنے پر تیار ہیں؟یا جذباتی طور پر پرانے نعروں پر ہی قائم رہیں گے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں