خطرات اور امکانات
متحدہ اپوزیشن بنی تھی، لیکن یہ متحدہ اپوزیشن بننے سے پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہے
نئی حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد جو ابتدائی اقدام کیے ہیں، ان میں وزیراعظم کا وزیراعظم ہاؤس استعمال کرنے سے انکار،گورنر ہاؤسز کا گورنرز کی طرف سے استعمال کرنے سے انکار اور ان عمارتوں کو عوام کے لیے کھول دینے کا اہتمام۔ یہ اقدامات قابل قدر ہیں کیونکہ 71 سال سے متعلقہ حکام ان عمارتوں کے استعمال کرنے کے لیے بے قرار رہتے تھے اور ان عمارتوں میں رہنے کو اپنی بڑائی سمجھتے تھے۔ اس پس منظر میں ان اعلیٰ ترین حکام کا یہ عمارتیں استعمال نہ کرنے کا اعلان ایک مثبت اقدام کہلایا جا سکتا ہے اور ان اقدامات کا عوام پر مثبت اثر بھی پڑ سکتا ہے، لیکن اس ملک کے عوام قیام پاکستان کے بعد سے جس قسم کی زندگی گزار رہے ہیں اس میں تبدیلی اور عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنا اصل مسئلہ ہے۔ کیا نئی حکومت اس سمت میں کوئی مثبت اقدامات کر رہی ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہر وزارت کو ترقیاتی کام کرنے کے ٹاسک دیے جا رہے ہیں اور اس حوالے سے پوری حکومت متحرک نظر آ رہی ہے جو ماضی کی حکومتوں کی روایت کے برخلاف ایک ترقی پسندانہ اقدام ہے۔ اگر وزارتیں اپنے اپنے ٹاسک یکسوئی اور عزم کے ساتھ پورے کرنے کی کوشش کریں تو بلاشبہ ملک میں ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ چونکہ موجودہ حکومت اس حوالے سے پرعزم نظر آ رہی ہے لہٰذا اس حکومت کو کام کرنے کی آزادی اور کام کرنے کے پورے مواقع ملنے چاہئیں۔ لیکن بدقسمتی سے مختلف حوالوں سے حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اس حوالے سے متحدہ اپوزیشن بنی تھی، لیکن یہ متحدہ اپوزیشن بننے سے پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہے۔ متحدہ اپوزیشن کو متحرک کرنے کی کوشش سابق حکمرانوں کی طرف سے کی گئی تھی، لیکن اس کوشش کی ناکامی کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ متحدہ اپوزیشن کو متحرک کرنے والی سابق حکومت خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔
مسلم لیگ (ن) جو عشروں سے کسی نہ کسی حوالے سے اقتدار میں رہی ہے، اب جمود کا شکار نظر آ رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ شہباز شریف اپنی جماعت کی کارکردگی کے حوالے سے تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) جس طاقت کی مدد سے حکومت کرتی آ رہی ہے یعنی پنجاب اب مسلم لیگ (ن) کی گرفت سے نکل چکا ہے اور پنجاب میں بھی اس وقت تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے۔ ملک کا صدر، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں، مرکز کے علاوہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی تحریک انصاف کی حکومتیں قائم ہو چکی ہیں، اس سرتاپا بدلی ہوئی صورت میں اپوزیشن کا بکھر جانا ایک فطری بات ہے، لیکن مسلم لیگ (ن) کے لیے یہ مسئلہ موت اور زندگی کا مسئلہ بن گیا ہے، اس لیے یہ بات فطری ہو گی کہ سابق حکومت اپوزیشن کو دوبارہ جوڑنے اور متحرک کرنے کی کوشش کرے گی۔
اگر سابق حکومت ''کسی طرح'' اپوزیشن کو متحد اور متحرک کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ ہر جمہوری ملک میں اپوزیشن کا کام حکومت کی کارکردگی پر مثبت تنقید کرنا ہوتا ہے، اگر ہماری اپوزیشن حکومت پر مثبت تنقید تک اپنے آپ کو محدود کرتی ہے تو یہ ایک قابل تعریف بات اس لیے ہو گی کہ 71 سال بعد ایک ایسی حکومت برسر اقتدار آئی ہے جس کا تعلق مڈل کلاس سے ہے اور وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپنے آپ کو زندہ رکھنا چاہتی ہے، ایسی حکومت کو کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ لیکن ہمارے سیاستدانوں کی یہ بہت بڑی کمزوری ہے کہ وہ ہر حال میں برسر اقتدار رہنا چاہتے ہیں اور یہی خواہش پاکستان میں سیاسی تباہی کی وجہ بنی ہوئی ہے۔
پاکستان میں پہلی بار ایک منفرد احتساب کا سلسلہ جاری ہے جس کی زد میں سابقہ وزیراعظم اور ان کا خاندان آ رہا ہے، یہ احتساب عدلیہ کی جانب سے ہو رہا ہے اور عدلیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک میں کرپشن کے خلاف بلاامتیاز آپریشن جاری رکھے گی اور عدلیہ ایسا کر بھی رہی ہے، حکمران خاندان کے علاوہ بیوروکریسی کے اعلیٰ عہدیدار اربوں کی کرپشن کے الزامات میں گرفتار ہیں اور یہ گرفتار حکام دوران تفتیش ایسے ایسے انکشافات کر رہے ہیں کہ اگر یہ انکشافات درست ثابت ہوتے ہیں تو سابقہ حکومت کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہ صورتحال صرف سابقہ حکومت تک محدود نہیں ہے بلکہ 71 سال سے یہی سلسلہ چل رہا ہے اور یہ سلسلہ اس لیے چل رہا ہے کہ اشرافیہ سیاست اور اقتدار پر قابض رہی ہے، 2018ء میں اشرافیائی حکومت کا سلسلہ ٹوٹ گیا ہے اور تاریخ میں پہلی بار ایک مڈل کلاس حکومت برسر اقتدار آئی ہے، احتساب کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے اور سابق سے سابق حکومت تک وسیع ہو گیا ہے، اس احتساب سے اشرافیہ مایوس بھی ہے اور مشتعل بھی ہے، تحریک انصاف کے فعال ہونے سے پہلے پاکستان میں صرف دو اشرافیائی جماعتیں ہی برسر اقتدار رہی ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احتساب کی زد میں آنے والی دو اشرافیائی جماعتیں متحد ہو جاتی ہیں تو کیا حکومت کے لیے مشکلات نہیں پیدا کر سکتیں؟
کرپشن کے حوالے سے اشرافیائی جماعتیں میڈیا اور عوام میں بدنام ہو چکی ہیں، متحدہ اپوزیشن بھی تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ ایسی مایوس کن صورتحال میں دانشورانہ حلقوں میں اس شک کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ہر طرف سے مایوس اشرافیائی جماعتیں حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے لیے دہشتگردوں کا سہارا لے سکتی ہیں، ان خدشات میں یقین اس لیے پیدا ہو رہا ہے کہ دہشتگردی کی وارداتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور اسلام آباد میں ڈبل سواری پر دو ماہ کے لیے پابندی لگا دی گئی ہے۔