فلسطین کا ایک اور صحافتی سپاہی اس دنیا سے چلا گیا

تزئین حسن  پير 24 ستمبر 2018
سچ مانیں تو مجھے ایسا محسوس ہوا کے انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

سچ مانیں تو مجھے ایسا محسوس ہوا کے انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

رابرٹ فسک کے کالم سے پتا چلا کہ بیس اگست کو اسرائیلی صحافی یوری اونری کا 94 سال کی عمر میں اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا۔ اپنی نو عمری میں اسرائیل کی مملکت کےلیے جنگ کرنے والا یہ سپاہی، فلسطین کے ساتھ امن قائم کرنے کےلیے بھی ہمیشہ سنجیدہ محسوس ہوا۔ ھمیشہ بغیر کسی لگی لپٹی کے اسرائیل کا کچا چٹھا کھول کر دنیا کے سامنے رکھا۔ یہودی تھا مگر میں نے اسے ہمیشہ سچ بولنے والا پایا۔ 2006 میں اس نے اپنے کالم Muhammad’s Sword میں جس طرح پاپ بینیڈکٹ کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اسلام کے تلوار سے پھیلنے کے الزام کا جس طرح دفاع کیا، خود تاریخی حوالوں کے ساتھ عیسائیت کو جس طرح لتاڑا، شاید ہی آج کا کوئی مسلمان اسکالر کر سکے۔ سچ مانیں تو مجھے ایسا محسوس ہوا کے انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔

الله اپنا کام جس سے لینا چاہتا ہے، لے لیتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب مسلم دنیا میں علم اور دلیل کے ساتھ مغرب کے ہتھکنڈوں کے خلاف، اسلام کا دفاع کرنے والے مفقود ہیں، ایک صیہونی اسرائیلی نے ایک نہیں کئی موقعوں پر فلسطینیوں، اسلام اور مسلمانوں اور سب سے بڑھ کر میرے سرکار صلیٰ الله علیہ وسلم کا دفاع تاریخی حوالوں کے ساتھ کیا۔ بار بار مغرب کو آئینہ دکھایا۔ ان کے ایک کالم سے پتا چلا کہ اسرائیل کی مملکت کے شائع شدہ اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل میں مقبول ترین نام ‘محمد’ ہے۔ وَرَ‌فَعْنَا لَكَ ذِكْرَ‌كَ  شاید اسی کو کہا گیا ہے۔ ایک کالم میں انہوں نے اسرائیل کے ایک سابق وزیر اعظم چائم ویظمین کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوے یہ ثابت کیا کہ فلسطین سے بے داخل کیے جانے والے عرب ہی در اصل وہ بنی اسرائیل ہیں جنہوں نے بعد ازاں حضرت عیسیٰ کی تعلیمات سے متاثر ہو کر عیسائیت قبول کی اور ان کی اکثریت نے دور فاروقی میں فلسطین کی فتح کے بعد اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔ یہی اس سر زمین کے اصل وارث ہیں۔

انہی کے کالمز سے یہ بھی پتا چلا کہ عام تاثر کے برعکس کے یہودیت میں تبلیغ جائز نہیں، قرون وسطیٰ کے ادوار میں یہودیت کی تبلیغ ہوتی تھی اور کسی دور میں مشرقی یورپ اور روس کے ایک بڑے حصے پر حکومت کرنے والے ایک بادشاہ نے اپنی رعایا سمیت یہودیت کو قبول کیا جو بعد ازاں اشکنازی کہلائے اور پورے یورپ میں پھیل گئے۔ اس طرح اشکنازی یہودیوں کے بنی اسرائیل سے تعلق ہونے کے دعوے کی تردید ہوتی ہے۔ ان کی کتاب 1948، میں انہوں نے اسرائیلی کم عمر فوجیوں کی فلسطینیوں کے خلاف برین واشنگ کے بارے میں تفصیل سے بتایا ہے۔

یہ ایک بچے کے طور پر پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی سے فلسطین آئے۔ انہوں نے 1948 میں اسرائیل کی طرف سے عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ساتھ کام کیا۔ اس جنگ کے دوران اپنے تجربات اور تاثرات پر ایک کتاب لکھی۔ اسرائیلی فوج کی حرکتیں کھول کھول کر دنیا کے سامنے رکھیں۔ یہ اسرائیل کی کیبنٹ کے رکن بھی رہے۔ اور ایک عرب کےلیے انہوں نے کیبنٹ میں اپنی سیٹ خالی کر دی۔ یہ یاسر عرفات کے ساتھ ملاقات کرنے والے پہلے اسرائیلی سیاست دان بھی تھے۔

میرا ان سے پہلا تعارف 2008 میں ان کے کالم Muhammad’s Sword کے ذریعے ہوا۔ مطالعہ بے حد وسیع تھا۔ اپنے موقف کے حق میں اتنے پرانے پرانے حوالے تاریخ اور لٹریچر سے لے کر آتے کہ حیرت ہوتی تھی یہ شخص کیا کیا جانتا ہے۔ 2008 کے بعد سے ان سے مختصراً خط و کتابت بھی رہی اور دانش کے موتی بھی ان کے کالمز سے حاصل ہوتے رہے۔ ایک سچ بولنے والا دنیا سے اٹھ گیا۔ سچی بات ہے مجھے اپنا ذاتی نقصان محسوس ہو رہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تزئین حسن

تزئین حسن

تزئین حسن ہارورڈ یونیورسٹی امریکا میں صحافت کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ انکے مضامین پاکستان سمیت شمالی امریکا، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے اخبارات و جرائد میں چھپتے رہے ہیں۔ تعلیم، بین الاقوامی سیاست، حقوق نسواں، میڈیا اور بہت سے دوسرے موضوعات پر مستقل لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔