وزیراعظم کو مشیر اعظم کا مشورہ

مشورہ ہم نے صرف اپنی صلاحیت ثابت کرنے کے لیے بطور نمونہ پیش کیا ہے تاکہ ہماری مشیرانہ لیاقت کا کچھ اندازہ ہو جائے


Saad Ulllah Jaan Baraq June 04, 2013
[email protected]

ہم اگر چاہیں تو میاں نواز شریف کے اصلی مشیر بھی بن سکتے ہیں جس کا درجہ ایک وزیر جتنا ہوتا ہے۔ بڑے میاں نہ سہی چھوٹے میاں شہباز شریف تو ہمارے اتنے قدر دان ہیں کہ اگر ہم عندیہ ظاہر کریں تو ہمیں فورا اپنا مشیر برائے امور کے پی کے مقرر کر دیں۔

یہ مشورہ ہم نے صرف اپنی قابلیت اور صلاحیت ثابت کرنے کے لیے بطور نمونہ پیش کیا ہے تاکہ ہماری مشیرانہ لیاقت کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہو جائے، تو اصل بات یہ ہے کہ ہم اگر چاہیں تو جناب نواز شریف کو اپنے گہرے تعلقات کے حوالے سے درخواست دے کر سرکاری مشیر بھی بن سکتے ہیں لیکن ایک تو مشورہ بیچنا ہمارے عقیدے کے خلاف ہے بلکہ وہ مشورہ سرے سے مشورہ ہی نہیں جو مفت نہ ہو، مشورے کی وقعت تب تک ہوتی ہے جب تک وہ مفت ہو جہاں قیمت یا معاوضے یا صلے کی بات آگئی مشورے کی عصمت مجروح ہو جاتی ہے اور چونکہ میاں نواز شریف سے ہمارے دوستانہ مراسم ہیں، اس لیے حکومتی معاملات چلانے میں ان کی مدد ضرور کریں گے اور بالکل مفت کریں گے، بالکل ویسی ہی خلوص اور جذبے کے ساتھ جیسا کہ اکثر تماشائی کسی کھیل کے کھلاڑیوں کے ساتھ دکھاتے ہیں کہ ٹی وی پر بھی میچ دیکھ کر مشورہ دینے سے باز نہیں آتے، مارو زور سے مارو، پٹخ دو چوکا مارو چھکا چھکا شاباش، اسی نیک کام کی بسم اللہ کرتے ہوئے آج ہم میاں نواز شریف کو ایک زبردست کرارا اور زناٹے دار مشورہ دے رہے ہیں اگر راستے میں ''دیواروں'' نے اسے روک نہیں لیا اور کسی طرح گھٹتے گھٹتے وزیراعظم تک پہنچ گیا تو اس مشورے کے ماننے سے ان کی وزارت عظمیٰ کو چار تو کیا دس پندرہ چاند لگ جائیں گے۔

آپ سے کیا پردہ اس سے پہلے یہ موٹر وے بنانے کا مشورہ بھی ہم نے ان کو دیا تھا اگرچہ اس وقت ہمارا مشورہ ان تک نہیں پہنچ پایا تھا کیوں کہ راستے میں اونچی اونچی دنیا کی دیواریں حائل تھیں لیکن چونکہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے، اس لیے دور ہوتے ہوئے بھی میاں صاحب نے ہمارے دل ہی میں یہ مشورہ پڑھ لیا اور اس پر عمل درآمد کر کے کارنامہ کر گئے اور اب یہ دوسرا مشورہ بھی اسی نرخ پر یعنی مفت پیش کر رہے ہیں، گر قبول افتدز ہے عزو شرف، مشورے کا مین تھیم ہے فنڈز ۔۔۔ دیکھ لیا نام لیتے ہی آپ کے منہ میں ابھی سے پانی آنا شروع ہو گیا، ایسے ہی ہوتے ہیں ہمارے مشورے ۔۔۔ آگے اگے دیکھئے ہوتا ہے کیا، ہم میاں صاحب کو مشورہ دینا چاہتے ہیں کہ اگر پاکستان کو بچانا ہو جیسا کہ آپ ا کثر کہتے رہے ہیں عمران خان تو قطعی نیا نویلا پاکستان بنانا چاہتے تھے لیکن بدقسمتی سے ''مچان'' پر سے گر پڑے اور صرف دیواریں ہی اٹھا پائے چنانچہ اب تو اسی پرانے پاکستان پر گزارا کرنا پڑے گا اور سب سے پہلا کام اس کو بچانا ہے کیوں کہ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ سر سلامت تو ٹوپیاں ہزار، اور ہم نے مشورے کی صورت میں جو ٹوپی بنائی ہے اگر آپ اسے پاکستان کو پہنا دیں تو پرانا پاکستان بھی اس نئی ٹوپی میں زبردست جچے گا، لوگ کہیں گے

ٹوپی پہنی ہے وہ اس نے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ٹوپی کبھی اس کے سر کو دیکھتے ہیں

چنانچہ ہماری یہ ٹوپی یا مشورہ جسے ہم میاں صاحب کے ذریعے پاکستان کو پہنانے والے ہیں فنڈز کی ٹوپی ہے، اب یہاں ایک گمبھیر اور پیچیدہ مسئلہ یہ پیش آیا کہ ہم ٹوپی پہنانے والے ہیں یا ٹوپی اتارنے والے ہیں، بظاہر تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم فنڈز کی ٹوپی اتار رہے ہیں لیکن کیا کریں، جب تک پرانی ٹوپی اتاریں گے نہیں، نئی ٹوپی پہنائیں گے کیسے؟ پرانی ٹوپی اتار کر ہی نئی ٹوپی کے لیے سر کو خالی کیا جا سکتا ہے،

میاں صاحب اور ان کے ساتھ سارے یا کم از کم وہ پاکستانی جو ''فنڈز'' سے کسی بھی طرح فیض یاب نہیں ہیں سوچیں تو پاکستان کی تمام خرابیوں کی جڑ بلکہ تنا یہی فنڈز ہیں، ساری کرپشن سارے گھپلے اور سارے اسکینڈل انھی فنڈز سے پیدا ہوتے ہیں اور انھی میں پلتے پوستے ہیں اور بڑے ہو کر ملک کا ستیاناس کرتے ہیں، کسی بھی محکمے یا ادارے یا فرد کی مصیبتوں کا دھاگہ پکڑئیے، جلتے جلتے وہ انھی فنڈز کے گولے سے جا کر جڑے گا، مثال کے طور پر آج کل کی معروف ترین مصیبت لوڈ شیڈنگ کو لے لیجیے، زندگی کا ایسا کون سا شعبہ ہے جو اس سے بچا ہوا ہو

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

اگر کسی خربوزے میں مٹھاس، لیموں میں کٹھاس یا کھیرے میں پانی کم ہے تو تحقیق کرنے پر پتہ چلے گا کہ اس کم بخت لوڈ شیڈنگ ہی کا شاخسانہ ہے اور یہ لوڈ شیڈنگ بھی دراصل فنڈز ہی کا لے پالک ہے اور جب لے پالک کا یہ حال ہے تو اس کی سگی اولاد کا کیا حال ہو گا، اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے، ووٹوں سے لے کر نوٹوں، پلوں سے لے کر سڑکوں تک، اسکولوں سے لے کر اسپتالوں تک، الیکشن سے لے کر سلیکشن تک، چمچوں سے لے کر دیگوں تک، رینٹل پاور سے لے کر مینٹل پاور تک، جرائم سے لے کر عزائم تک، محکموں سے لے کر اداروں تک، شادیوں سے لے کر ماتموں تک،

ڈولیوں سے لے کر جنازوں تک، مبارک باد سے لے کر فاتحہ خوانی تک، مسجد سے لے کر حجرے تک، مونچھ سے لے کر چوٹی تک اور دوپٹے سے لے کر چادر تک کسی بھی مقام یا کام کو دیکھئے ہر جگہ ان فنڈز ہی کے جراثیم پھیلے ہوئے نظر آئیں گے۔ یوں کہئے کہ اوپر نیچے آگے پیچھے اور دائیں بائیں جتنی بھی خرابیاں ہیں، ان کا رشتہ کسی نہ کسی طرح جا کر فنڈز ہی سے جڑے گا اور پھر ذرا حساب لگا کر دیکھئے صوابدیدی سے لے کر ثواب دیدی تک اور ایم این اے سے لے کر یونین کونسلر تک ایسا کون ہے جو فنڈز کے عارضے میں مبتلا نہیں، ان تمام فنڈز کا اگر حساب لگایئے تو پاکستان کی آمدنی کا کم از کم دگنا تو ''فنڈز'' کی صورت میں چلا جاتا ہے ۔۔۔۔ کہاں چلا جاتا ہے کیسے چلا جاتا ہے اور کن راہوں پر چلا جاتا ہے وہ سب کو معلوم ہے،

اس لیے ہمارا میاں صاحب کو سب سے پہلا اور بہترین مشورہ یہ ہے کہ اگر آپ نے فنڈز کی اس بلا ، اس عفریت، اس ڈریگن کو ماردیا تو یوں سجھئے کہ آپ نے پاکستان کو بچا لیا جس بے چارے کے جسم سے ایک ہزار ایک جونکیں جڑی ہوں، اسے آپ کتنا ہی خون چڑھائیں، اسے کچھ بھی افاقہ ہونے والا نہیں ہے، آپ قرض یا ادھار لے کر خون کی تھیلیاں لاتے رہیں چڑھاتے رہیں بلڈ بینک خالی ہو جائیں گے پورا ملک زرد پڑ جائے گا ، سارے عوام کو پیلیا ہو جائے گا لیکن کچھ بھی افاقے کی صورت دکھائی نہیں دے گی، پہلے ان جونکوں کو ہٹایئے پھر دیکھئے کہ بغیر خون چڑھائے پاکستان کیسا سرخ و سفید نظر آتا ہے۔ کیا اس مشورے کے بعد بھی آپ ہمیں ''مشیر اعظم'' مقرر نہیں کریں گے، وہ بھی بالکل مفت کا ۔۔۔۔؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں