سندھ کی نئی حکومت

سید قائم علی شاہ تیسری دفعہ سندھ کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ یوں انھوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی مگر قائم علی شاہ کے ...


Dr Tauseef Ahmed Khan June 04, 2013
[email protected]

سید قائم علی شاہ تیسری دفعہ سندھ کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ یوں انھوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی مگر قائم علی شاہ کے دونوں ادوار بدامنی اور لاقانونیت میں اپنی مثال آپ تھے۔ کیا ان کا تیسرا دور بھی پچھلے ادوار کی طرح ہوگا؟ کراچی میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اس سوال کا جواب دے رہی ہے۔ قائم علی شاہ کا تعلق خیرپور کے ایک متوسط جاگیردار خاندان سے ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے قیام کے ساتھ ہی پارٹی میں شامل ہوئے، یہ نوجوان وکیل 1970 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ پھر پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وزیر مملکت کے طور پر شامل کیے گئے۔

جب 5 جولائی 1977 کو فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء فانذ کیا تو قائم علی شاہ پیپلز پارٹی کے ان رہنماؤں میں شامل تھے جنھوں نے شروع سے ہی مارشل لاء حکومت کو چیلنج کیا اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ جنرل ضیاء الحق کے خلاف مزاحمتی تحریک منظم کرنے کے لیے زیرِ زمین چلے گئے اور کئی برسوں تک روپوش رہ کر پیپلز پارٹی کو متحرک کیا۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے قائم علی شاہ پر دہشت گرد تنظیم الذوالفقار کو منظم کرنے کا الزام لگایا تھا۔ قائم علی شاہ کو 1988 میں سندھ کا وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا مگر ان کی حکومت ایم کیو ایم سے تصادم کے سبب 18ماہ میں ختم ہوگئی۔

پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت میں وہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں میں شامل تھے۔ قائم علی شاہ پیپلز پارٹی کی تاریخ میں کئی دفعہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے صدر کے عہدے پر تعینات رہے۔ انھیں 2008 کے انتخابات کے بعد سندھ کا وزیراعلیٰ منتخب کیا گیا۔ ان کی کابینہ میں سندھ اسمبلی میں نمایندگی کی حامل تمام سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ اگرچہ اس دفعہ ایم کیو ایم، اے این پی، مسلم لیگ فنکشنل اور نیشنل پیپلز پارٹی کی سندھ کابینہ میں نمایندگی تھی مگر قائم علی شاہ کی قیادت میں یہ کابینہ سب سے غیر موثر کابینہ ثابت ہوئی۔

مارچ 2008 کے انتخابات کے وقت کراچی اور اندرون سندھ امن و امان کی صورتحال کسی حد تک خراب تھی۔ اس زمانے میں نیشنل ہائی وے، سپر ہائی وے اور ناردرن بائی پاس کے درمیانے علاقے میں لینڈ مافیا زمینوں پر قبضے میں مصروف تھی۔ اس لینڈ مافیا کو بظاہر کسی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل نہیں تھی مگر ان لینڈ مافیا کو بعض سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کے لیے حمایت کرتی تھیں۔ 2008 میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد کراچی کے مضافاتی علاقے سہراب گوٹھ کے راستے یہ لڑائی کراچی میں داخل ہوئی۔

اس لڑائی کی شکل لسانی تھی، بعد ازاں یہ فرقہ وارانہ اور پھر سیاسی شکل میں تبدیل ہوگئی۔ قائم علی شاہ کے دور میں یہ لڑائی پورے کراچی میں پھیل گئی۔ پیپلز پارٹی کے اس دور میں لیاری میں گینگ وار پورے عروج پر رہی۔ گھر برباد اور انسان گاجر مولی کی طرح کاٹے گئے۔ قائم علی شاہ کی حکومت نے پہلے امن کمیٹی کی سرپرستی کی، اس کمیٹی کے سرپرست رحمن ڈکیت کے قتل کے بعد حکومت اور امن کمیٹی میں خلیج پیدا ہوئی۔ ساتھ ہی حکومت نے امن کمیٹی کو کالعدم قرار دیدیا، جس کے بعد امن کمیٹی کے خلاف نام نہاد آپریشن ہوا، البتہ انتخابات سے چند ماہ قبل حکومت اور کالعدم امن کمیٹی کے درمیان پھر سے مفاہمت ہوگئی۔ یہی وجہ تھی کہ قائم علی شاہ اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ایک ایسے وقت امن کمیٹی کے سرکردہ افراد کے ساتھ عشائیے میں شرکت کے لیے لیاری گئے جب ایک ہفتے کے دوران گینگ وار میں 18 افراد جاں بحق ہوچکے تھے ،اور لیاری میں خانہ جنگی کی صورتحال ہے۔نئی نسل کے لیے گینگ وار کلرز رول ماڈل بنتے جارہے ہیں۔

قائم علی شاہ کے دور میں اندرونِ سندھ امن و امان کی صورتحال خراب رہی، خاص طور پر اقلیتی فرقے کے لوگوں کو خوب نشانہ بنایا گیا۔ اندرونِ سندھ کی امیر ہندو برادری کے لوگوں کا اغوا برائے تاوان معمول بن گیا۔ ہندو لڑکیوں کی جبری شادی کی خبروں نے بھی سندھ کے سیکولر تشخص کو خاصا نقصان پہنچایا۔ قائم علی شاہ کے دور میں گڈ گورننس کا تصور ختم ہوگیا۔ ہر محلے میں تقرریوں، تبادلوں اور ترقیوں کے لیے نیلام گھر کھل گئے اور صحافی یہ شرطیں لگانے لگے کہ اس دور میں ہونے والے کسی تقرری، تبادلے اور ترقی کے لیے کوئی رقم نہ لی گئی ہو یا بغیر سفارش کام ہوا ہو۔ قائم علی شاہ کے دور میں میرٹ کی پامالی اور گورننس کے خاتمے کی مثال ان کی صاحبزادی ناہید شاہ کی سندھ سے بے دخلی کی ہے۔ ناہید شاہ کا شمار ملک کے ایماندار اور میرٹ کے معیار کے مطابق کام کرنے والے افسروں میں ہوتا ہے۔

انھیں سندھ کے سب سے اہم محکمے تعلیم کا سیکریٹری مقرر کیا گیا تھالیکن قائم علی شاہ ایک ایماندار افسر کا تحفظ نہ کرسکے۔ ناہید شاہ ملک سے باہر چلی گئیں اس کے بعد جو کچھ محکمہ تعلیم میں ہوا پیپلز پارٹی کے حامی بھی اس صورتحال پر افسوس کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح کراچی شدید بدامنی کا شکار رہا۔ وفاقی حکومت نے ایک اہل افسر واجد درانی کو سندھ کا آئی جی مقرر کیا مگر انھیں کبھی اختیارات نہیں مل سکے۔ یہی وجہ تھی کہ جب گزشتہ سال سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کی تو آئی جی نے اپنے حلف نامے میں یہ کہا کہ انھیں گریڈ 17 اور اوپر کے افسروں کے تبادلوں اور ترقیوں کا اختیار نہیں ہے مگر وزیر اعلیٰ آئی جی کو یہ اختیار نہیں دلا سکے۔ قائم علی شاہ دور میں ترقیاتی منصوبے کاغذوں تک ہی محدود رہے۔

کراچی میں ماس ٹرانزٹ پروگرام شروع نہ ہوسکا، اندرون سندھ سڑکوں اور گلیوں کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ اس صورتحال میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے یہ الزام عائد کیا کہ اندرون سندھ ترقی کے لیے مختص اربوں روپوں کا ترقیاتی فنڈ وڈیروں اور بااثر عوامی نمایندوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے بہت سے شہر 15 ویں صدی کے دور کی عکاسی کرتے ہیں۔ بعض ناقدین کہتے ہیں کہ گزشتہ 5 برسوں میں اندرونِ سندھ میں دو سے تین دفعہ خوفناک سیلاب آئے اور لاکھوں لوگوں کو اپنے گھر چھوڑنے پڑے، مگر اچھی منصوبہ بندی سے لوگ اطمینان سے اپنے گھروں کو لوٹ گئے مگر بعض علاقوں میں کئی کئی ماہ تک سیلابی پانی جمع رہا۔

پیپلز پارٹی کے ناقدین کہتے ہیں کہ قائم علی شاہ اپنی طویل عمری کے باوجود ایک اچھے سیاسی کارکن رہے ہیں۔ قائم علی شاہ پر ذاتی طور پر بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں، اسی طرح ان کی بیٹیاں رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ، ناہید شاہ اور بیٹوں پر بھی بدعنوانی کے الزامات نہیں ہیں۔ قائم علی شاہ کے لڑکے اور لڑکیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اپنے اپنے شعبوں میں ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے بچے مختلف مسائل کو ان کے پس منظر کے ساتھ دیکھنے کے ماہر ہیں مگر گزشتہ 5 برسوں کے دوران انھیں کبھی تمام اختیارات نہیں ملے، یہ اختیارات سندھ اسمبلی کے اراکین پیر مظہر الحق، آغا سراج درانی، اویس مظفر ٹپی اور فریال تالپور استعمال کرتے رہے۔ قائم علی شاہ اختیارات سے محرومی کی بنا پر بے بس رہے مگر ساری بدنامی ان کے دامن سے لپٹ کر رہ گئی۔

اب 2013 کے انتخابات کے بعد ایک نئی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ وفاق میں پیپلز پارٹی کی شکست کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہے۔ عسکری اسٹیبلشمنٹ کی اپنی پالیسی ہوگی۔ اگرچہ صدر زرداری نے ہدایات جاری کی ہیں کہ امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے پر فوری توجہ دی جائے اور کراچی میں ماس ٹرانزٹ منصوبے اور سرکلر ریلوے کو متحرک کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جائے مگر وزیراعلیٰ مکمل طور پر بااختیار نہیں ہوئے تو اس دفعہ یہ حکومت کو ناکامی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ اب اگر پیپلز پارٹی سندھ میں کچھ نہیں کرپائی تو پیپلز پارٹی کا مستقبل کیا ہوگا اس پر زیادہ غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں