فنکاروں کی سیاسی جماعتوں سے وابستگی، کیا مسائل حل ہوپائیں گے؟

قیصر افتخار  اتوار 30 ستمبر 2018
فنکاربرادری کوبہت سے مسائل درپیش ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کے حل کیلئے ان کے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں ہوتا۔ فوٹو: فائل

فنکاربرادری کوبہت سے مسائل درپیش ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کے حل کیلئے ان کے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں ہوتا۔ فوٹو: فائل

فنون لطیفہ کے تمام شعبوں سے وابستہ فنکار اپنی فنی صلاحیتوں کی بدولت ہمیشہ ہی لوگوں کے دلوں پرراج کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھرمیں فنکاروں کوایک خاص مقام حاصل رہتا ہے۔

دیکھا جائے توعموماً فنکارکسی بھی ملک کی فن وثقافت کے عکاس ہوتے ہیں اوریہی وہ لوگ ہیں جومعاشرے کے اہم مسائل کواپنی صلاحیتوں کے بل پرکچھ اس طرح سامنے لاتے ہیں کہ لوگوںکی بڑی تعداد جہاں ان کی پرفارمنس سے محظوظ ہوتی ہے، وہیں وہ اپنے اردگردکے ماحول میں بہتری کے لئے اقدامات بھی کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسی لئے توفنون لطیفہ کے مختلف شعبوں کے لوگوں کا فن سرحدوں کا محتاج نہیں رہتا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ فنکار طبقہ بہت ہی حساس اور ذمہ دار ہوتا ہے ۔ خاص طور پر ماضی اورموجودہ دورمیں ایسے بہت سے فنکار گزرے اورموجود ہیں کہ جن کے چاہنے والے ان کے ہرایک انداز کو اپناتے ہیں۔

دوسری جانب اگربات کریں ان فنکاروں کی جنہوں نے ناصرف فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں خوب نام کمایا، بلکہ سیاسی میدان میں اترنے کے بعد ان کے ’ دبنگ ‘ انداز نے سیاسی میدانوں کو گرمائے رکھا ہے۔ پاکستان اوربھارت میں فنکاروں کی بڑی تعداد اب سیاست کے شعبے سے وابستہ ہے اور بھرپور انداز سے شوبزانڈسٹری اوردیگرمسائل کے حل کیلئے کوشاں ہے۔

اس صورتحال کا بغورجائزہ لیں توہمارے پڑوسی ملک بھارت سے تعلق رکھنے والے بہت سے معروف فنکاروں نے سیاست کے کٹھن میدان میں اترتے ہوئے یہ کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ بڑے پردے پر رومانوی گیت فلمبند کروانے والوں کوگلی محلوں کے مسائل حکومت کے ’’ اعلیٰ ایوانوں ‘‘ میں اٹھانے کا موقع ملے گا۔ بولی وڈ کے ’ بگ بی ‘ امیتابھ بچن نے جب کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیارکی اورعملی طور پرسیاست میں قدم رکھا توان کی ایک جھلک کوترسنے والے سیاستدانوں کے علاوہ لوگوں کی بڑی تعداد نے بھی ان کا خیرمقدم کیا۔

اسی طرح امیتابھ کے بعد معروف اداکارشتروگھن سنہا، راجیش کھنہ، راج ببر، نغمہ، سمرتی ایرانی، ہیمامالنی، جیا پرادھا، جیا بچن ، گووندا اورسلمیٰ آغا سمیت بہت سے معروف فنکاروں نے سیاسی اننگزکھیلیں اورکچھ توآج بھی اس شعبے سے وابستہ ہیں اورمختلف سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے معاشرے میں سدھارلانے کیلئے کوشاں ہیں۔ اس دوران انہیں کڑی تنقید کا بھی سامنارہا لیکن اس کے باوجود بھارت میں فنکاروں کی کثیر تعداد اب بھی سیاست میں آرہی ہے اوربھارت کی دومعروف سیاسی جماعتیں کانگریس اوربی جے پی اس سلسلہ میں فنکاروں کواپنا حصہ بنانے کیلئے بہت سرگرم ہیں۔

اسی طرح اگرہم پاکستان میں شوبز انڈسٹری کی بات کریں توماضی میں ایک یا دوفنکارایسے تھے جن کی سیاسی جماعتوں سے وابستگی کا سب کو پتہ تھا ، وگرنہ فنکاروں کی اکثریت سیاست سے دوررہنا ہی بہتر سمجھتی تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ تویہ تھی کہ سیاسی جماعتوں سے وابستگی کی سب سے بڑی سزا سرکاری ٹی وی،ریڈیو اورآرٹس کونسلوں میں پابندی کا باعث بھی بنتی تھی، جس سے ایک فنکارکوبہت نقصان پہنچتا تھا۔ لیکن اب تویہ معاملہ بالکل ہی الٹ ہوچکا ہے۔

پاکستان میں جب سے میڈیا ہائوسز نے نیوزچینلز کے ساتھ ساتھ انٹرٹینمنٹ چینلز بنائے ہیں، فنکاروں کی سیاسی جماعتوں سے وابستگیاں کھل کرسامنے آنے لگی ہیں۔ کسی کواب بین ہونے کا ڈر ہے اورنہ ہی کام نہ ملنے کا خوف۔ اسی لئے توسیاسی جلسوں میں فنکار برادری کی کثیرتعداد دکھائی دیتی ہے۔ اس کا کریڈٹ اگر ایم کیوایم اورتحریک انصاف کودیاجائے توغلط نہ ہوگا۔ کیونکہ فنکاروں کی اکثریت نے انہی دو جماعتوں میں زیادہ شمولیت اختیارکی۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ ( ن )، پاکستان پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں سے بھی اب فنکاربرادری وابستہ ہورہی ہے۔

یہی نہیں اب توبہت سے فنکارقومی اورصوبائی اسمبلیوں تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ جن میں ایم کیوایم سے تعلق رکھنے والی معروف میزبان خوش بخت شجاعت اور مسلم لیگ ( ن ) سے معروف اداکارہ کنول نعمان  رکن قومی اورصوبائی اسمبلی رہ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ اداکارسعود، عمر شریف، ہدایتکارہ سنگیتا اورامجد صابری مرحوم باقاعدہ طور پرایم کیوایم کے رکن ہونے کے ناطے اپنی جماعت کے کلچرونگ کومضبوط بنانے کیلئے مہم بھی چلاتے رہتے تھے۔

ان کے بعد عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی، حمزہ علی عباسی، سلمان احمد ، کاشف محمود ، جواد کاہلوں، شاہ زمان اورناروے سے تعلق رکھنے والی اداکارہ سونیا خان سمیت دیگرنے باقاعدہ طور پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اوران کے دبنگ بیانات نے سوشل میڈیا پرخوب شہرت حاصل کی۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) میں اداکارہ کنول نعمان کے علاوہ معروف ڈرامہ پروڈیوسر یامین ملک، طاہرانجم، ماہ نور اورڈیزائنرمسز ملک سمیت دیگرنے شمولیت اختیارکی اوراب ایک سرگرم کارکن کے طورپراپنی جماعت اوررہنمائوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی سے ماضی کے معروف اداکار مصطفی قریشی کی بہت پرانی وابستگی ہے۔ انہیں ایک طویل عرصہ تک پیپلزپارٹی کلچرل ونگ کی کمانڈ بھی دی گئی لیکن سابق صدرآصف علی زرداری کے دور حکومت میں وہ خاصے دلبرداشتہ رہے۔ لیکن اب اداکار قیصر نظامانی باقاعدہ طورپرپیپلزپارٹی کی ٹکٹ پرضمنی انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔

اس کے علاوہ ڈریس ڈیزائنر بی جی بھی پاکستان پیپلزپارٹی کی سرگرم کارکن ہیں۔ دوسری جانب اگرمزید فنکاروں پرنظرڈالیں تو اداکارہ عتیقہ اوڈھو، ایوب کھوسہ اورمسرت شاہین بھی سیاسی میدان میں سرگرم ہیں۔ خاص طورپرپشتوفلموں پر برسوں راج کرنے والی مسرت شاہین نے توباقاعدہ اپنی سیاسی جماعت بنائی اوروہ خیبرپختونخوا میں مولانا فضل الرحمان کے مقابل الیکشن بھی لڑتی ہیں۔

فنکاروں کی سیاسی جماعتوں سے وابستگی اور بطور سیاستدان کارکردگی کے حوالے سے شوبز کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک دورتھا جب فنکاربرادری سے سیاست کے موضوع پربات کی جاتی تووہ اس پررائے دینا تودورکی بات ، اس موضوع پربات تک کرنا مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ سیاست اور سیاستدانوں کو ہمیشہ ہی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا لیکن اب تو فنکاروں کی بڑی تعداد سیاست میں ناصرف دلچسپی لیتی ہے بلکہ وہ سیاسی جماعتوں کا حصہ بھی بن رہے ہیں۔

یہ ایک طرح سے خوش آئند بات ہے کیونکہ قیام پاکستان سے آج تک فنون لطیفہ کے تمام شعبوں کو حکومتی حلقوں نے نظرانداز کیا ہے، اب جوفنکارقومی اورصوبائی اسمبلیوں تک پہنچ چکے ہیں، وہ کسی حد تک فن اورفنکاروں کے حقوق کیلئے کام کررہے ہیں لیکن انہیں بھی تاحال وہ کامیابی نہیں مل سکی، جس کی امید کی جارہی تھی۔ اس سلسلہ میں ان کوچاہئے کہ وہ فن وثقافت کے فروغ اور فنکاروں کی فلاح وبہبود کیلئے اقدامات کرنے کیلئے حکومتوںکی توجہ دلوائیں۔

فنکاربرادری کوبہت سے مسائل درپیش ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کے حل کیلئے ان کے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں ہوتا۔ اب یہ سنہری موقع ہے کہ فنکاراپنی ہی برادری کیلئے ایسے اقدامات کریں، جس سے اس شعبے کے دیرینہ مسائل کا حل نکلے، اگرانہوں نے ایسا نہ کیا توپھر ان کا بھی وہی حال ہوگا ، جوعام سیاستدانوں کا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پران کی اداکاری کی تعریف کرنے والے انہیں ایسے القابات سے نوازنے کے ساتھ تاریخ کی ایسی بدترین مثال بنا دیں گے کہ ان کی بقیہ عمرصرف صفائیاں دیتے ہی گزرجائے گی۔

بھارت میں توفنکارسیاسی میدان میں آنے کے بعد فنون لطیفہ کے تمام شعبوں کیلئے بہترکام کررہے ہیں اورویسے بھی بالی وڈ سمیت بھارت میں کام کرنے والی دیگرزبانوں کی فلم انڈسٹریوں کی بدولت سالانہ ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے کا ریونیواکھٹا ہوتا ہے اوراسی لئے وہاں شوبزانڈسٹری کومختلف شعبوں میں خاصی مراعات دی جاتی ہیں، جبکہ ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ صدارتی ایوارڈیافتہ فنکاروںکو بھی وہی سہولیات دی جاتی ہیں، جوایک عام فنکاریا آدمی کوملتی ہیں۔ ہمارے ہاں اس سلسلہ میں بھی بہتراقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ سیاسی وابستگیوں کی بناء پرماضی میں اورموجودہ دور میں بھی بہت سے فنکاروں کوثقافتی اداروں کے اعلیٰ عہدوں پرفائز کیا جا چکا ہے لیکن ان کے ساتھی فنکارہی فن وثقافت کے فروغ کیلئے ان کی ’’اعلیٰ کارکردگیوں ‘‘ کی کہانیاں سناتے دکھائی دیتے ہیں، اس لئے جوفنکاراعلیٰ عہدوں پرفائز ہیں، وہ اپنی برادری کی بہتری کیلئے کام کریں، تاکہ اس شعبے سے وابستہ لوگوں کی زندگی میں بہتری آئے اوروہ اس شعبے سے وابستہ ہونے پرافسوس کرنے کی بجائے خوش دکھائی دیں۔

دیکھا جائے توبھارت میں بھی بہت سے فنکاروں کواہم سرکاری عہدوں کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، جس کا مقصد صرف یہی تھا کہ جب ایک فنکارکسی ثقافتی ادارے کی بھاگ دوڑ سنبھالے گا تووہ بہتراندازسے اپنی برادری کے مسائل کوسمجھے گا اورحل بھی تلاش کرے گا، جس میں وہاں خاصی کامیابی بھی دکھائی دی اورفنکاربرادری نے حکومت کے اس اقدام کوبہت سراہا لیکن اس کے برعکس اگرہم اپنے ملک کی بات کریں تویہاں پرآرٹس کونسلوں، سرکاری ٹی وی، سنسربورڈز سمیت دیگرثقافتی اداروں میں فنکاروںکو اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں، لیکن ان  کی وجہ سے فنکاروں کی زندگی میں کوئی سدھاردکھائی نہ دیا۔

فنکاروں کی اکثریت کے مسائل میں کمی آنے کی بجائے شاید اضافہ ہوا۔ اسی لئے تو جب فنکاربرادری سے بات کی جاتی ہے تووہ ان کی شکایات اورمسائل میں مزید اضافہ سامنے آتا ہے، جوان تمام فنکاروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے جو اعلیٰ عہدوں پرفائز ہونے کے بعد خود کوفنکارسمجھنے کی بجائے صرف سرکاری افسرسمجھنے لگے ہیں۔ انہیں ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ آج وہ جس مقام پرموجود ہیں، وہ صرف اور صرف شوبز کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔