اسمگلنگ صابن سازصنعت میں سرمایہ کاری کے آڑے آگئی

مہنگے بین الاقوامی برانڈ پاکستان میںسستے بک رہے ہیں،مسابقت نہیں کر سکتے،عامر ذکی۔


Ehtisham Mufti June 08, 2013
بجٹ میں صابن سازی کاخام مال پرٹیکس کم،اسمگلنگ روکنے کے اقدامات کیے جائیں،انٹرویو۔ فوٹو: فائل

افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے ٹائلیٹ سوپ کی بڑھتی ہوئی اسمگلنگ، خام مال پربھاری کسٹم ڈیوٹی وٹیکسز اور انفرااسٹرکچرل مسائل گزشتہ10 سال سے 311 سوپ انڈسٹریل یونٹس کے توسیعی منصوبے میں رکاوٹ کا باعث بن گئے ہیں۔

پاکستان میں فی الوقت صابن کی سالانہ2.5 لاکھ ٹن کی کھپت ہے جبکہ مقامی صنعتوں کی پیداواری استعداد 1 لاکھ 70 ہزار ٹن سالانہ ہے، ملک میں تیار ہونے والے صابن میں سے صرف5 ہزار ٹن ٹائلیٹ اور لانڈری صابن افغانستان اور افریقی ممالک کو برآمد کیا جارہا ہے، پاکستانی سوپ انڈسٹری اپنی ضروریات کا95 فیصد خام مال جن میں پام ایسڈ آئل، پام آئل، ایسڈ آئل، پام کرنل آئل اور کوکونٹ آئل شامل ہیں کی درآمدات صرف انڈونیشیا اور ملائیشیا سے کرتی ہے۔

پاکستان سوپ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عامرعبداللہ ذکی نے ''ایکسپریس'' کے استفسار پر اس امر کی تصدیق کی کہ حکومت کی عدم توجہی اور اے ٹی ٹی کے ذریعے سستی لاگت پر غیرملکی صابن وڈٹرجینٹس کی اسمگلنگ جیسے عوامل نے صابن سازی کی مقامی صنعت کو مایوس کردیا ہے حالانکہ اس شعبے میں سرمایہ کاری اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کی وسیع گنجائش موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی سوپ مینوفیکچررز حکومت سے کسی قسم کی کوئی زرتلافی حاصل کرنے کا مطالبہ نہیں کرتے لیکن یہ شعبہ حکومت اور پالیسی سازوں کی توجہ کا طلب گار ضرور ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ مالی سال 2013-14 کے وفاقی بجٹ میں دنیا کے بیشتر ممالک کی طرز پر سوپ انڈسٹری کے تمام درآمدی خام مال پر کسٹم ڈیوٹی وٹیکسوں کی شرح میں کمی کا اعلان کرے۔



ساتھ ہی ان صنعتوں کے لیے گیس بجلی اور پانی کی بلاتعطل سپلائی کو یقینی بنائے اور نوازشریف کی قیادت میں نئی حکومتی ٹیم سے سوپ انڈسٹری توقع رکھتی ہے کہ وہ توانائی کے سنگین بحران پر قابوپانے کو اپنی ترجیحات میںسرفہرست رکھے گی، نئی حکومت کی جانب سے مذکورہ بالا مسائل حل کرنے کے ٹھوس اقدامات بروئے لائے گئے تو پاکستان کی15 فیصد سوپ انڈسٹری صرف ایک سال کی مدت میں اپنے توسیعی منصوبے مکمل کر کے پیداواری استعداد کو دگنا کردے گی جس کے نتیجے میں پاکستان کی برآمدات میں مقامی سوپ انڈسٹری کا حصہ بھی فوری طور پر بڑھ کر30 فیصد تک پہنچ جائے گا۔

کسٹم ڈیوٹی وٹیکسوں کی شرح میں کمی سے نہ صرف صابن کی قانونی درآمدات 3 فیصد سے بڑھ کر45 ہزار ٹن تک پہنچ جائیں گی بلکہ صرف صابن کی قانونی درآمدات کے ذریعے حکومتی ریونیو48 کروڑ روپے سے بڑھ کر سالانہ15 ارب روپے کی سطح تک پہنچ جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان بھر میں اسمگل شدہ مہنگے اور بین الاقوامی برانڈ کے معروف صابن سستے داموں فروخت ہورہے ہیں جس کی وجہ سے مقامی طور پر تیار ہونے والے صابن بلحاظ قیمت مسابقت کرنے سے قاصر ہوگئے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ مالی سال2013-14 کے وفاقی بجٹ میں درآمدی صابن اور ڈیٹرجنٹس پر کسٹم ڈیوٹی ودیگر ٹیکسوں کی شرح گھٹاکراس سطح پرلائی جائیں کہ ان اشیا کی اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی ممکن ہوسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں