یہ نئی حکومت
اگرچہ بات بہت ہی بعد ازوقت اور پرانی ہے اور شاید اس کا ذکر ان حالات میں موزوں بھی نہیں، لیکن پرانی طرزفکر کا۔۔۔
اگرچہ بات بہت ہی بعد ازوقت اور پرانی ہے اور شاید اس کا ذکر ان حالات میں موزوں بھی نہیں، لیکن پرانی طرزفکر کا مسلمان ہونے کی وجہ سے بے عمل مسلمان مجبور ہے کہ نئے حکمرانوں کی تشریف آوری کے اہم ترین موقع پر انھیں ان لوگوں کا فرمان اور اقتدار کا پہلا نکتہ بیان کر دے جن کے نام پر ہم زندہ ہیں یعنی ہم مسلمان خواہ وہ کتنے ہی بے عمل کیوں نہ ہوں، فرمان ہے کہ ''مسلمانوں کا حکمراں گویا کُند چھری سے ذبح کیا گیا'' اور ہمارے جو سچے حکمران تھے عمر بھر ان کی گردنوں سے ذمے داری اور فرض شناسی کا یہ لہو قطرہ قطرہ رستا دکھائی دیتا رہا اور انسانی تاریخ پر ایسے نقش چھوڑ گیا جو حکمرانی اور جہانبانی کی نادر مثال بن گئے لیکن یہ بات ان حکمرانوں کے سامنے بیان کرنا ایک گناہ ہو سکتی ہے جو نہ جانے کیا کچھ لٹا کر حکمرانی حاصل کر سکے اور اب اسے قائم رکھنے کے لیے لٹاتے رہیں گے اور یہ اس لیے کہ ایسی حکومتیں کسی نظریے کا عطیہ نہیں ہوا کرتیں۔
یہ وقتی مفاد اور ضرورت کی مہربانیاں ہوتی ہیں اور آتی جاتی رہتی ہیں۔ اس وقت ہماری جو نئی حکومت آئی ہے وہ واقعی شریف طبع لوگوں کی حکومت ہے اور اس سے نسبتاً زیادہ توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ نئے حکمرانوں کے سامنے سابقہ بے رحم حکومت نے جو مسائل کے پہاڑ کھڑے کیے ہیں یہ ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی اونچے ہیں جن پر پاکستان کی ثمینہ بیگ ہی قدم رکھ سکتی ہے۔ کوئی میک اپ زدہ نازک خاتون نہیں جو ہماری نئی حکومت میں چند ایک برائے نام مردوں کی صورت میں موجود ہیں، ان حکمرانوں کو دیکھ کر تو میرا بھی جی للچا رہا ہے کہ کوئی امدادی قسم کا وزیر ہی بن جاؤں لیکن جو شخص اپنے جدی پشتی تابعدار مزارعوں کو بھی سنبھال نہیں سکتا وہ پاکستان کے گوناگوں مسائل سے برہم عوام کو کیا سنبھالے گا مگر کیوں نہیں ہمارے وزراء اگر کسی کو قابو کر لیں گے تو پھر ہم بھی حکمرانوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن وہ کند چھری...
حکومت ابھی تک اپنے نشے میں اونگھ رہی ہے مگر زیادہ وقت باقی نہیں کہ ایوانوں کے بھاری دروازوں پر عوام کے غضب ناک ہاتھوں کی دستک انھیں بیدار کر دے گی اور وہ کسی آسان مگر پروپیگنڈے والے کام میں مصروف ہو جائیں گے۔ ہمارے جیسے قلمکار اپنے کانوں سے قلم اتار دیں گے اور اسے تھوک سے گیلا کر کے شروع ہو جائیں گے۔ جو بھی جی میں آئے گا وہ اسے وزیر موصوف کا بیان بنا کر لکھتے چلے جائیں گے اور وزیر موصوف کو اگر فرصت ملی تو پڑھ کر خوش بھی ہوں گے کیونکہ ایسی خوبصورت باتیں تو ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھیں۔
ایک بہت ہی معروف شخصیت آغا شورش کشمیری ہوا کرتے تھے، مرصع اور سجی سجائی تقریر کرتے تھے جو احراریوں کی ایک خوبی تھی لیکن آغا صاحب کی تقریر جو سننے والوں کو بے خود بھی کر دیتی تھی بڑی ہی بے معنی ہوتی تھی۔ فضاؤں سے پوچھو، ستاروں سے پوچھو وغیرہ قسم کے جملوں سے بھری ہوئی، میں ان دنوں آغا صاحب کے دوستوں کے اخبار میں تھا چنانچہ میں نوائے وقت میں اپنی طرف سے ایک تقریر بنا کر چھاپ دیتا۔ آغا صاحب آتے، خوش ہوتے کہ بعض اوقات قطعاً خلاف عادت مٹھائی لے کر آ جاتے کیونکہ ان کی یہ تقریر تو ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتی تھی۔
کچھ ایسا ہی حال آج کے وزراء کا ہو گا جن کی تقریر اخبار میں چھپے گی تو وہ اچھل پڑیں گے لیکن اب وہ رپورٹر کہاں اور وہ لیڈر کہاں، اب طبیعتوں میں وہ نفاست نہیں رہی جو کسی لیڈر کو مٹھائی لانے پر اور کسی رپورٹر کو اس لیڈر کی فرضی قسم کی تقریر بنانے پر آمادہ کرتی تھی۔
بہرکیف اب نئی وزارت آ گئی ہے، ایک انتہائی غیرمتوازن وزارت جو کسی برادری کی نمایندگی تو کرتی ہے مگر عوام کی نہیں، مجھے شک تھا بلکہ اندیشہ تھا کہ کہیں ایسی ہی اِدھر اُدھر کی انمل بے جوڑ وزارت نہ بن جائے جو ملک کی نہیں مخصوص علاقوں اور نسلوں کی نمایندگی کرتی ہو۔ میرا اندیشہ درست ثابت ہوا۔ یہ جمہوریت ہے اور پور ے ملک کے ہر علاقے کا حکمرانی میں اور اپنے علاقے کے باشندوں کی نمایندگی کرنے کا حق ہے۔ گزارش ہے کہ میاں صاحب اپنی اس پسند پر نظرثانی کریں، یہ لوگ ان کی حکومت کا اثاثہ نہیں بن سکیں گے بلکہ کچھ تو بوجھ ثابت ہوں گے۔
میں ان لوگوں میں ہوں جن کی شدید خواہش ہے کہ میاں صاحب کامیاب ہوں اور سیاسی جمہوری روایت آگے چلتی رہے۔ ایک انگریز نے کہا کہ جمہوریت ناکام ہو گئی ہے مگر یہ لازماً کامیاب ہونی چاہیے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ روٹین کی حکومتی سرگرمیاں چلتی رہیں لیکن قومی حالات کو بدلنے والی شاید نہیں۔