نئے بلدیاتی نظام کا نفاذ

ہمارے فیوڈل کلچر میں وڈیروں کے اختیارات میں دخل اندازی برداشت نہیں کی جاتی


Zaheer Akhter Bedari October 08, 2018
[email protected]

مغل ایمپائر کی رخصتی کے بعد عمرانی حکومت جو بامعنی عوامی مفاد کے کام کرنے جارہی ہے ان میں بلدیاتی نظام کا نفاذ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ جمہوری حکومتوں میں بلدیاتی ادارے اس لیے تشکیل دیے جاتے ہیں کہ عوام کے علاقائی مسائل آسانی سے حل کیے جاسکیں۔ اس نظام کا ایک اہم مقصد بلدیاتی اداروں کو صوبائی حکومتوں کی گرفت سے نکال کر انھیں مالی اور انتظامی اختیارات دینا ہوتا ہے تاکہ وہ صوبائی حکومت کے غلبے سے آزاد ہوکر آزادی کے ساتھ عوام کے علاقائی مسائل حل کر سکیں۔ بلدیاتی اداروں کی غیر موجودگی کی وجہ سے شہروں کا جو حال ہوتا ہے اس کا اندازہ کراچی کی صورتحال سے لگایا جاسکتا ہے۔ پچھلے دور حکومت میں کسی نہ کسی طرح عوامی اور میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے بلدیاتی انتظامات تو کرادیے گئے لیکن انھیں مالی اور انتظامی اختیارات سے محروم کرکے ڈمی بناکر رکھ دیا گیا، جس کا نتیجہ شہر کی تباہی کی شکل میں ہماری سامنے ہے۔

بلدیاتی اداروں کی موجودگی سے صوبائی حکومت کے اختیارات میں کمی کے ساتھ ساتھ لوٹ مار کے موقع بھی ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری تمام جمہوری حکومتوں کے دوران سرے سے بلدیاتی انتخابات ہی نہیں کرائے گئے اور وہ فوجی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کراتی رہیں، جنھیں جمہوریت دشمن طاقتوں کا نام دیا جاتا ہے، آخری جمہوریت دشمن فوجی حکومت پرویز مشرف کی تھی جس نے ناظمین کا بلدیاتی نظام نافذ کرکے علاقائی مسائل تیزی سے حل کرنے کی راہ نکالی اور بلدیاتی اداروں کو صوبائی حکومتوں کی غلامی سے آزادی کے راہ پر لگایا۔

پاکستان میں جمہوری حکومتوں کی لوٹ مار شش جہتی رہی ہے، اس لوٹ مار میں بلدیہ کا بجٹ بھی شامل رہا ہے۔ ہماری جمہوری حکومتوں نے بلدیہ کا بھاری بجٹ ایم پی ایز اور ایم این ایز کے حوالے کیا، تاکہ یہ منتخب نمایندے صوبائی حکومتوں کے تابعدار بنے رہیں۔ اس بلدیہ شکنی کا نتیجہ یہ نکلا کہ علاقائی مسائل لاوارث ہوگئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سابقہ جمہوری حکومتوں میں بلدیاتی اداروں کو جمہوری دائرے سے باہر کیوں رکھا گیا؟ ایک وجہ کا تو ہم نے ذکر کیا کہ بلدیہ کا بھاری بجٹ صوبائی حکومتوں کی تحویل میں آجائے، اس کا دوسرا بڑا سبب مغل ایمپائر کی طرح اختیار کلی پر قبضہ تھا۔

ہمارے فیوڈل کلچر میں وڈیروں کے اختیارات میں دخل اندازی برداشت نہیں کی جاتی، لیکن ہماری سیاست پر مغل ایمپائر کی چھاپ اتنی گہری ہے کہ حکمران طبقہ خواہ وہ جاگیر دار طبقے سے تعلق رکھتا ہو، یہ صنعت کار طبقے سے اختیار کلی سے کم کسی بات پر راضی ہی نہیں ہوتا۔ اس ذہنیت کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا رہا ہے کہ ہماری جمہوریت مغل ایمپائر میں تبدیل اور اس کی اتباع اس حد تک کی جانے لگی کہ باضابطہ شہزادے، شہزادیاں اور ولی عہدی نظام رائج کردیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے اہل فکر، اہل دانش، اہل قلم یہ ساری جمہوریت کشی دیکھتے رہے اور پھر بھی بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے کہ نعرے لگاتے رہے، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمہوریت بذاتِ خود بدترین آمریت میں بدل گئی۔

بلدیاتی اداروں کو متعارف کرانے کا ایک بڑا مقصد یہ بھی رہا ہے کہ قانون ساز اداروں اور حکومتوں میں جانے سے پہلے اہل سیاست کو عملی سیاست اور عوامی خدمات کی ٹریننگ مل جائے۔ یہ طریقہ کار ساری جمہوریتوں میں رائج ہے لیکن ہماری مغل ایمپائر میں عشروں تک جمہوریت سے بلدیاتی نظام ہی غائب کردیا گیا۔ کیونکہ بلدیاتی اداروں میں ٹریننگ کا کورس کرنا اور عوام کی خدمت کی عملی تربیت حاصل کرنا ہماری اشرافیہ اپنی توہین سمجھتی ہے، اس کے بجائے یہ آسان طریقہ اپنالیا گیا کہ شہزادوں کو سیدھا ایم این اے کے لیے انتخاب لڑایا جائے، تاکہ اقتدار کی گدی سنبھالنے کی راہ ہموار ہوجائے۔ اب اس مغل ایمپائر کو ختم ہونا چاہیے اور نچلے طبقات سے بلدیاتی نمایندے منتخب ہونے چاہئیں۔

عمران حکومت یقیناً خلوص نیت سے بلدیاتی نظام نافذ کرنا چاہتی ہوگی لیکن اسے اس تلخ حقیقت کا احساس ہونا چاہیے کہ مغل ایمپائر نے نچلے طبقات میں ایک تو اپنے ایجنٹ قسم کے لالچ دے کر ان کے ووٹ مغلوں کے ایجنٹوں کے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کریں گے، دوسری زبان اور قومیت کے نام پر غریب اور سادہ لوح عوام کے ووٹ بٹورنے کی کوشش کریں گے۔ یہ پریکٹس سندھ اور پنجاب میں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کی جائے گی، جس کا اندازہ اور احساس نئی حکومت کو ہونا چاہیے تاکہ مغل ایمپائر نئی حکومت میں سرنگ نہ لگا سکے۔

برادرم عمران خان کو اس حقیقت کا بھی یقیناً ادراک ہوگا کہ تحریک انصاف میں بھی سارے فرشتے نہیں ہیں، ذاتی مفادات کے لوگ بھی ہیں۔ انھیں کوئی ایسا سسٹم بنانا چاہیے کہ بنیاد پرست لوگ پارٹی میں اپنی جگہ نہ بناسکیں۔ اگر بلدیاتی نظام ٹاؤن پر مشتمل ہو تو ہر ٹاؤن کے رہنما کو ایک واضح ٹارگٹ دیا جائے اور اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لیے ایک حقیقت پسندانہ بجٹ دیا جائے، جو ٹاؤن یا یونٹ کامیابی سے اپنا ٹارگٹ پورا کرلے، اسے ایوارڈ سے نوازا جائے تاکہ ان میں آگے بڑھ کر کام کرنے کا حوصلہ پیدا ہو۔

کراچی ڈھائی کروڑ افراد پر مشتمل ایک میگا سٹی ہے جہاں صرف چاروں صوبوں سے آنے والے ہی نہیں رہتے بلکہ دنیا کے مختلف ملکوں سے آنے والوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے، کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں صرف تحریک انصاف کے ہی نمایندے منتخب نہیں ہوسکتے ہیں، اس حوالے سے کوئی ایسی منصوبہ بندی کی جائے کہ منتخب نمایندوں کے درمیان بہتر ریلیشن شپ قائم ہو۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کا عوام سے مستقل رابطہ ہونا چاہیے کہ ان کے مسائل سے آگہی ہوتی رہے۔ یہ مشورے ہم مفت میں اس لیے دے رہے ہیں کہ پاکستان کی 71 سالہ تاریخ میں پہلی بار روایتی حکمران اشرافیہ کو مات دے کر ایک مڈل کلاس کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے اور موروثی حکمران ہر قیمت پر اس حکومت کو ناکام بنانے کی کوشش کریں گے۔ اس سازش کو ناکام اور صرف کام کے ذریعے ہی ناکام بنایا جاسکتا ہے۔

مقبول خبریں