سیاسی اداکار اور سپر اسٹار

بعض انسانی ذہن بڑے چلبلے ہوتے ہیں۔ہر وقت مختلف سمتوں میں چھلانگیں لگاتے رہتے ہیں۔ آج ہم زندگی کے ہر شعبے میں جو ۔۔۔


Zaheer Akhter Bedari June 10, 2013
[email protected]

بعض انسانی ذہن بڑے چلبلے ہوتے ہیں۔ہر وقت مختلف سمتوں میں چھلانگیں لگاتے رہتے ہیں۔ آج ہم زندگی کے ہر شعبے میں جو ناقابل یقین ترقی دیکھ رہے ہیں وہ ان ہی چلبلے ذہنوں کی مرہون منت ہے۔ ہر چلبلے ذہن کی فیلڈ مختلف ہوتی ہے، کوئی ذہن سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں چھلانگیں لگاتا نظر آتا ہے کوئی کرہ ارض کی تاریخ کو ٹٹولتا نظر آتا ہے کوئی خلائی تحقیق کے شعبے میں مصروف ہوتا ہے تو کوئی دنیا میں ہونے والی سماجی اور معاشی ناانصافیوں کی وجوہات تلاش کرتا نظر آتا ہے۔

سماجی اور معاشی ناانصافیوں کی وجوہات تلاش کرنے والے ذہن کو ویسے تو اس کے کئی سبب نظر آتے ہیں لیکن سب سے بڑا سبب یہ نظر آتا ہے کہ سماجی اور معاشی ناانصافی کی شکار بھاری اکثریت کے ذہن جمود کا شکار ہیں اور اس فیلڈ کے متحرک ذہن اپنی یہ ذمے داری سمجھتے ہیں کہ منجمد ذہنوں کو متحرک کیا جائے جس کے لیے وہ مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں، ہمارا چلبلا ذہن آخرالذکر میدان کا کھلاڑی ہے۔

آج ہم دنیا بھر میں ہونے والی سماجی اور معاشی ناانصافی پر غورکر رہے تھے تو ہمارے ذہن میں اچانک فلم انڈسٹری کے سپر اسٹار ناچنے لگے جنھیں لیجنڈ بھی کہا جاتا ہے۔ کسی بھی اسٹار یا سپر اسٹار کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے کردار اپنی اداکاری میں حقیقت کا ایسا رنگ بھردے کہ اداکاری پر حقیقت کا گمان ہونے لگے ۔ سادہ لوح بندے اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں جب اداکار سپر اسٹار بن جاتا ہے تو وہ عوام کی پہنچ سے اسی طرح دور ہوجاتا ہے جیسے کوئی سیاستدان اقتدار میں آنے کے بعد عوام کی پہنچ سے دور ہوجاتا ہے۔

ہندوستان کی فلم انڈسٹری کو دنیا کی ایک بہت بڑی انڈسٹری مانا جاتا ہے انڈسٹری خواہ وہ کسی شعبے کی ہو اس کا بنیادی مقصد مال کمانا ہوتا ہے۔ بھارتی فلم انڈسٹری کے ماضی پر نظر ڈالیں تو ہمارے سامنے دلیپ کمار، پرتھوی راج ، راج کپور، راجکمار، شتروگھن سہنا، راجیش کھنہ، دھرمیندر کے نام آتے ہیں۔ یہ ماضی کے سپر اسٹار اور لیجنڈ ہیں یہ بھارت ہی میں نہیں دنیا بھر میں لیجنڈ مانے جاتے ہیں۔ حال کے اداکاروں کی نئی نسل سپر اسٹار تو بن گئی ہے لیکن لیجنڈ کے درجے پر ابھی تک فائز نہیں ہوسکی۔

یہ سپر اسٹار ایک ایک فلم میں اداکاری کا کروڑوں روپے معاوضہ لے رہے ہیں بلکہ بعض اداکاروں کی ڈیمانڈ اس قدر بڑھ گئی ہے کہ انھیں اب اربوں میں معاوضہ دیا جارہا ہے۔ سپر اسٹار بننے میں ان اداکاروں کی مہارت کا دخل تو ہوتا ہے لیکن اصل میں انھیں سپر اسٹار لیجنڈ ارب پتی بنانے والے عوام ہوتے ہیں جو ٹکٹ خرید کر ان کی فلمیں دیکھتے ہیں۔ یوں عوام کے پیسے سے اداکار، ہدایت کار اور فلمساز اربوں میں کھیلتے ہیں اور بے چارے عوام کو دو تین گھنٹے کی تفریح اور جھوٹے خواب کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔

مغل اعظم ایک تاریخی فلم تھی عوام کی زندگی عوام کے مسائل سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔ امیتابھ بچن نے ایک قلی کا کردار بڑی مہارت سے ادا کیا معاوضہ لاکھوں میں لیا لیکن قلی کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہ آئی وہ آج بھی لال کپڑے پہنے ریلوے اسٹیشنوں پر بھاری سامان ڈھوتا نظر آتا ہے اور دو وقت کی روٹی سے محتاج ہے۔ ہماری فلموں میں ایک معمولی ڈرائیور پر ایک بڑے سیٹھ، ساہوکار کی بیٹی مر مٹتی ہے اور ہیرو ڈرائیور سیٹھ کا داماد بن جاتا ہے اس قسم کی فلمیں عوام کو خوابوں کی حسین دنیا میں لے جاتی ہیں لیکن حقیقت کی دنیا یہ ہے کہ ہر سیٹھ، ہر ساہوکار، ہر صنعتکار، ہر وڈیرے کی بیٹیاں اپنے ڈرائیوروں کو اپنے پیر کی جوتی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتیں، لیکن غریب خواب خریدتا ہے کیونکہ اس کے پاس ان خوابوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

سرمایہ دارانہ، جاگیردارانہ نظام میں سیاسی انڈسٹری منافع دینے والی سب سے بڑی انڈسٹری ہے اس انڈسٹری میں سرمایہ لگانے والوں کو ایک کے ایک سو ایک واپس ملتے ہیں پاکستان میں یہ انڈسٹری 65 سال سے بڑی کامیابی سے چل رہی ہے اس انڈسٹری میں بھی کواب بنائے خواب بیچے جاتے ہیں اور بھوکے پیاسے بیمار بے روزگار زندگی کے عذابوں سے تنگ آئے ہوئے عوام سیاسی اداکاروں سپر اسٹاروں کے جلسوں جلوسوں میں خوابوں کی تلاش میں لاکھوں کی تعداد میں جاتے ہیں سیاسی اداکار سیاسی سپر اسٹار ان جلسوں میں روٹی کپڑا مکان، روزگار، بھوک، بیماری سے نجات کے خواب بیچتے ہیں اور ان خوابوں کی قیمت کے طور پر ان کے ووٹ خریدتے ہیں۔

خوابوں کے یہ سوداگر خواب بیچنے سے پہلے عوام سے ہاتھ ملاتے ہیں عوام کو گلے لگاتے ہیں عوام کے میلے کچیلے بچوں کو گود میں اٹھاکر پیار کرتے ہیں اور جب عوام کے ووٹ لے کر اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہیں تو عوام سے اتنے دور ہوجاتے ہیں کہ عوام ان کے سرخ و سپید چہرے صرف ٹی وی اسکرین ہی پر دیکھ سکتے ہیں۔

حالیہ الیکشن کی مہم کے دوران سیاسی اداکاروں، سیاسی سپر اسٹاروں کے درمیان خواب بیچنے کے مقابلے ہوتے رہے کوئی اداکار وہی روٹی کپڑے اور مکان کے خواب بیچ رہا تھا کوئی سپر اسٹار عوام کی عذاب زندگی کو جنت میں بدلنے کے خواب بیچ رہا تھا کوئی سپر اسٹار نظام کی تبدیلی کے خواب بیچ رہا تھا کوئی اسٹار اچھل اچھل کر انقلاب کے خواب بیچ رہا تھا کوئی مقدس اداکار نفاذ شریعت کے خواب بیچ رہا تھا کوئی کسانوں، مزدوروں کو پچاس فیصد حصہ دلانے کے خواب بیچ رہا تھا تو کوئی سپر اسٹار نئے پاکستان کے خواب بیچ رہا تھا۔

ان خوابوں کے پیچھے 65 سالوں سے بھاگنے والے سادہ لوح بندے بار بار خوابوں کے ان سوداگروں کے دھوکے کھاتے آرہے ہیں لیکن یہ دھوکے اس لیے کھا رہے ہیں کہ ان کے پاس کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے، پہننے کے لیے کپڑا نہیں ہے، رہنے کے لیے مکان نہیں ہے، بیماری کے لیے علاج نہیں ہے، بے کاری کے عذاب سے باہر آنے کے لیے روزگار نہیں ہے، گھر کو روشن رکھنے کے لیے بجلی نہیں ہے، چولہے کو روشن رکھنے کے لیے گیس نہیں ہے، گھر سے نکلتے ہیں تو زندہ گھر واپس آنے کی ضمانت نہیں ہے۔ گھر کے اندر رہتے ہیں تو چوروں ڈاکوؤں سے بچنے کا یقین نہیں ہے۔ بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں تو ان کی خیریت سے واپسی کی کوئی امید نہیں ہے اس مایوسی میں سیاسی اداکاروں کے دکھائے ہوئے خوابوں کے علاوہ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ کوئی انھیں متبادل بتانے والا نہیں ہے۔کیا اس ملک میں روٹی کی کمی ہے؟ گندم چاول سے مارکیٹیں بھری پڑی ہیں، کیا اس ملک میں سبزی، دال، گھی، تیل، گوشت کی کمی ہے؟ قدم قدم پر دکانیں ان اشیاء سے بھری ہوئی ہیں، کیا اس ملک میں کپڑے کی کمی ہے؟ کپڑا ہماری ضرورت سے بہت زیادہ پیدا ہوتا ہے، ایکسپورٹ کردیا جاتا ہے، کیا اس ملک میں علاج کی کمی ہے؟ اعلیٰ درجے کے پرائیویٹ اسپتال قدم قدم پر سر اٹھائے کھڑے ہیں، کیا اس ملک میں روزگار کی کمی ہے؟ گریڈ 7 سے گریڈ 17 تک کی نوکریاں سیاست کی منڈی میں پانچ لاکھ سے پانچ کروڑ تک بک رہی ہیں، کیا اس ملک میں تعلیم کی کمی ہے؟ اے اور او لیول کے تعلیمی اداروں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔

لیکن یہ ساری ضروریات زندگی غریب عوام کی پہنچ سے اسی طرح دور ہے جس طرح سیاسی اداکار سیاسی سپر اسٹار اقتدار میں آنے کے بعد ان کی پہنچ سے دور ہوجاتے ہیں۔ یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ اے سادہ لوح انسانو! تمہاری نظر اپنے پر اپنی انفرادی اور اجتماعی طاقت پر نہیں پڑتی، ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ سیاسی اداکاروں نے تمہیں پنجابی بنادیا ہے، تمہیں سندھی، مہاجر، پٹھان، بلوچ بنا دیا ہے تمہیں شیعہ ، سنی، اہل حدیث، دیوبندی، بریلوی بنادیا ہے۔ بنایا ہی نہیں تھیں ان حوالوں سے ایک دوسرے سے برسرپیکار کردیا ہے۔ جب تک تم پاکستانی نہیں بنو گے جب تک تم صرف مسلمان نہیں بنو گے جب تک تم انسان نہیں بنوگے جب تک تم اپنی انفرادی اور اجتماعی طاقت کو نہیں پہچانو گے سیاسی اداکار سیاسی سپر اسٹار تمہیں خوبصورت خواب بیچتے رہیں گے اور تم یہ خواب اپنے ووٹ کی قیمت پر خریدتے رہوگے۔ چلبلے ذہن تمہیں جگاتے رہیں گے اب یہ تم پر منحصر ہے کہ تم کب جاگوگے، کب اپنی طاقت کو پہچانوگے، کب اپنی قسمت کے خود مالک بنوگے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں