ہیلتھ انشورنس اور بلٹ ٹرین

ہیلتھ انشورنس کا اگرچہ پروگرام ایک نعمت سےکم نہیں لیکن18کروڑعوام کوہیلتھ انشورنس فراہم کرناکس قدرمہنگا اورناممکن ہے۔


Zaheer Akhter Bedari June 15, 2013
ایسی صورتحال میں ہیلتھ انشورنس کا پروگرام اگرچہ ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ لیکن 18 کروڑ عوام کو ہیلتھ انشورنس فراہم کرنا کس قدر مہنگا اور ناممکن ہے۔

سابقہ حکومتوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے اپنے مسائل حل کرنے میں جو وقت اور توانائیاں لگائیں اس کا جواب عوام نے الیکشن میں انھیں بری طرح مسترد کرکے دیا۔

عوام کے اس مثبت جواب نے سیاست دانوں کو اس بری طرح خوفزدہ کردیا ہے کہ وہ راتوں کو نیند سے اٹھ اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور عوام کے مسائل حل کرنے کے طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ عوام کے مسائل کے حل کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ عوامی مسائل کا دیرپا حل تلاش کیا جائے اور عوام محسوس کریں کہ ان کے مسائل حل ہورہے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ عوامی مسائل کو کاسمیٹک طریقوں سے حل کیا جائے اور اس کا پروپیگنڈہ اس طرح کیا جائے کہ اصل مسائل اس پروپیگنڈے کی دھول میں چھپ جائیں۔ اشرافیائی سیاست میں عموماً دوسرا طریقہ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

ن لیگی حکومت کی طرف سے عوامی مسائل حل کرنے کے سلسلے میں تسلسل کے ساتھ جن پروگراموں کا ذکر کیا جارہا ہے اس سے یہ اندازہ تو ہوتا ہے کہ ن لیگی حکومت سابقہ حکومتوں کے حشر سے خوفزدہ تو ہے لیکن وہ عوام کے مسائل حل کرنے میں عاقلانہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرپارہی ہے۔ اس حوالے سے یہاں ہم حکومت کے ان دو مبینہ پروگراموں کا جائزہ لیں گے جن پر حکومت عمل در آمد کا جائزہ لے رہی ہے۔ ان میں ایک پروگرام ہیلتھ انشورنس پالیسی ہے اور دوسرا بلٹ ٹرین چلانے کا پروگرام ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں پروگرام بڑے جاذب نظر ہیں اور ان کا تعلق عوامی ضرورت سے بھی ہے لیکن لگتا ایسا ہے کہ ان پروگراموں میں سنجیدگی کا عنصر بہت کم ہے اور جذباتیت یا پروپیگنڈے کا عنصر زیادہ ہے۔ اس رجحان کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ حکومت پروپیگنڈہ تکنیک پر زور دے رہی ہے، دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس کے پاس ایسے پالیسی سازوں کا قحط ہے جو مسائل کا واقعی حل چاہتے ہیں اور اس تلخ حقیقت کو ماننے میں کوئی عار محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارے ملک میں عوامی مسائل کے دیر پا حل کے حوالے سے مخلص اور سنجیدہ پالیسی سازوں کا قحط ہے۔

جو لوگ حکمرانوں کو زریں مشورے دیتے نظر آتے ہیں ان کی نظر عموماً اس فائدے پر ہوتی ہے جو ایسے کاسمیٹک پروگراموں پر عمل درآمد سے انھیں حاصل ہوتے ہیں۔ حکومت کی نیک نامی ایسے مشیروں کے نزدیک ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسے ہی مشیر حکومتوں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔

ہمارے ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام طبی سہولتوں سے یکسر محروم ہیں جو اعلیٰ درجے کی طبی سہولتیں مارکیٹ میں موجود ہیں وہ ان کے لیے ایک خواب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتیں۔ ایسی صورتحال میں ہیلتھ انشورنس کا پروگرام اگرچہ ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ لیکن 18 کروڑ عوام کو ہیلتھ انشورنس فراہم کرنا کس قدر مہنگا اور ناممکن ہے۔

اصل مسئلہ سرکاری اسپتالوں کو پرائیویٹ اسپتالوں کے معیار پر لانا اور ان میں عوام کی ضرورت کے مطابق اضافہ کرنا ہے۔ یہ سچ ہے کہ پچھلی حکومتوں کے دوران بھی سرکاری اسپتالوں کو بھاری رقوم دی گئیں لیکن وہ عموماً بیوروکریسی کی جیب میں جاتی رہیں۔ اس بددیانتی کو سختی سے روکنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت سرکاری اسپتالوں میں عوام کشی کا جو کلچر موجود ہے وہ اس محترم پیشے پر ایک کلنک کے علاوہ کچھ نہیں۔ سرکاری اسپتال ضرورت سے بہت کم ہیں، کراچی کی دو کروڑ کی آبادی کے لیے تین بڑے سرکاری اسپتال اونٹ کے منہ میں زیرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام موجودہ سرکاری اسپتالوں کو معروف پرائیویٹ اسپتالوں کے معیار پر لایا جائے۔ اس میں زیادہ دشواری اس لیے نہیں کہ عمارتیں، سازوسامان اور اسٹاف موجود ہے صرف ان کی اپ گریڈیشن اور سخت مانیٹرنگ کی ضرورت ہے۔ دوسرے یہ کہ ضرورت کے مطابق اسپتالوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور بجٹ میں صحت کے شعبے پر کم از کم 6-7 فیصد مختص کیا جائے۔

ن لیگ کے رہنماؤں کی خواہش ہے کہ وہ ملک میں بلٹ ٹرین چلائیں۔ یقیناً یہ ایک ترقی پسندانہ خیال ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بلٹ ٹرین عوام کو تیز ترین سفری سہولتیں فراہم کررہی ہیں۔ لیکن ان ملکوں میں لوکل اور ایکسپریس ٹرینوں کی عوام کو مکمل سہولتیں فراہم کرنے کے بعد بلٹ ٹرین کا آپشن فراہم کیا گیا ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں ٹرینوں کے نظام کا عالم یہ ہے کہ آدھی سے زیادہ ٹرینیں بند ہوچکی ہیں۔ جو موجود ہیں ان کا حال اس قدر برا ہے کہ انجنوں کی کمی کی وجہ سے بیشتر ٹرینیں نہ وقت پر چلتی ہیں نہ وقت پر اپنی منزل مقصود پر پہنچتی ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ ٹرینوں میں نہ پنکھوں کی سہولت ہے نہ واش روم اس قابل ہوتے ہیں کہ کوئی شریف آدمی انھیں استعمال کرسکتا ہے۔ ریلوے اسٹیشنوں پر مسافروں کو قیام وطعام کی معیاری سہولتیں حاصل ہوتی ہیں، نہ ٹرینوں کے اندر مسافروں کو معیاری کھانے میسر ہوتے ہیں، ہر طرف نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک لوٹ مار، کرپشن کا عالم یہ ہے کہ ریلوے اربوں روپوں کے نقصان سے دو چار ہے۔

ایسے ناقص ریلوے نظام کی موجودگی میں بلٹ ٹرین چلانے کی بات کرنا یا تو احمقانہ خیال ہے یا پھر صرف پروپیگنڈہ مہم ہے۔ اس قسم کے منصوبوں سے پتہ چلتاہے کہ حکومت کے پاس اچھے منصوبہ سازوں کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے اور جس حکومت کے پاس متعلقہ شعبوں میں سنجیدہ، مخلص منصوبہ ساز نہیں ہوتے اس کے پروگرام شروع ہونے سے پہلے ہی ٹھپ ہوجاتے ہیں یا شروع ہونے کے بعد ناکامی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

روڈ ٹرانسپورٹ کا عالم یہ ہے کہ کراچی جیسے ترقی یافتہ شہر میں عوام ہجوم کی شکل میں بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر اور بسوں کے دروازوں پر لٹک کر انتہائی خطرناک حالت میں سفر کرتے ہیں۔ یہی حال دوسرے شہروں اور صوبوں کا ہے۔ لاہور میں میٹرو بسوں کا ایک جزوی نظام قائم کرکے اس کا پروپیگنڈہ اس طرح کیا گیا جیسے لاہور میں روڈ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ اگر ن لیگ کی حکومت سنجیدگی سے عوامی مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا چاہتی ہے تو ہیلتھ انشورنس، بلٹ ٹرین اور دانش اسکولوں جیسے پرپیگنڈہ نظاموں کی طرف جانے کے بجائے پہلے ان نظاموں کو درست کرے جو عوام کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں۔ پھر آگے بڑھنے کی کوشش کرے تو یہ دانشمندانہ اپروچ ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں