لیاری تباہ ہورہا ہے

سندھ کی حکومت کو لیاری میں امن و امان کے لیے شفاف پالیسی بنانا ہوگی کیونکہ لیاری کا امن شہر کے امن سے منسلک ہے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan June 15, 2013
سندھ کی حکومت کو لیاری میں امن و امان کے لیے شفاف پالیسی بنانا ہوگی کیونکہ لیاری کا امن شہر کے امن سے منسلک ہے۔

محمد زبیر پھول پتی لائن دبئی چوک میں پیدا ہوا، کراچی کے علاقے لیاری کا یہ علاقہ گنجان آباد علاقہ ہے، محمد زبیر گزشتہ کئی برسوں سے مشکل میں ہے، اس کا علاقہ مسلسل میدان جنگ بنا ہوا ہے۔

گزشتہ ہفتے زبیر کے پڑوس میں دستی بم پھینکا گیا۔ ایک 5 سالہ بچی اس میں جاں بحق ہوئی۔ زبیر اور اس کے دو بچے بال بال بچ گئے۔ لیاری معاشی و سماجی انحطاط کا شکار ہورہا ہے۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی ہدایت پر لیاری میں ویمن بینک کی برانچ قائم ہوئی تھی۔ اب اس برانچ کو لیاری سے 20 کلومیٹر دور بہادرآباد میں منتقل کردیا گیا ہے۔

لیاری میں دو گروہوں کے درمیان جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 50 کے قریب پہنچ رہی ہے۔ لیاری کے مختلف علاقوں سے لوگ ہجرت پر مجبور ہوگئے ہیں۔ روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کے حالات کار خراب تر ہورہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور کالعدم امن کمیٹی سے تعلق رکھنے والے کارکن اور عورتیں ایک طرف لیاری کے لوگوں کے قتل عام پر احتجاج کررہے ہیں تو دوسری طرف کچھی رابطہ کمیٹی (K.R.C) کی خواتین اور بچے بھی کراچی پریس کلب کے سامنے اپنے ساتھیوں کی ہلاکت پر دھرنا دے رہے ہیں۔

کراچی جنوبی جس کی حدود میں لیاری ٹاؤن بھی شامل ہے وہاں کے ڈپٹی کمشنر نے لیاری کی دو برادریوں کے درمیان مصالحت کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تیسری قوت لیاری کا امن برباد کررہی ہے۔ ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی نے کچھی برادری کے افراد کے قتل کی ذمے داری کالعدم امن کمیٹی کے اہلکاروں پرعائد کی ہے اور ان کا یہ موقف ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت لیاری گینگ وار میں ملوث ملزموں کی سرپرستی کررہی ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ ملزموں کی سرپرستی کا الزام مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لیاری پیپلز پارٹی کا قلعہ ہے۔ وہ صوبائی اسمبلی کے اراکین کی دعوت پر لیاری گئے تھے۔ سیاسی مبصرین میں یہ تاثر عام ہے کہ ایم کیو ایم کے صوبائی حکومت میں شمولیت اختیار نہ کرنے میں بلدیاتی انتخابات، وزارتوں کی تقسیم کے علاوہ لیاری کے امن و امان کامسئلہ بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

لیاری 90 کی دہائی سے گینگ وار کا شکار ہوا ہے، اس سے قبل یہ جنگ مختلف جرائم پیشہ گروپوں کے درمیان تھی، جب کہ اس جنگ میں امن کمیٹی کا ایک نیا عنصر 2008 کے بعد شامل ہوا۔ بعدازاں لیاری میں ہونے والی جرائم پیشہ افراد کی لڑائی لیاری میں آباد دو برادریوں کے درمیان ہونے لگی۔ لیاری کی یہ قدیم برادریاں 1967 سے پیپلز پارٹی کے استحکام میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ لیاری کی کچھی برادری سے تعلق رکھنے والے رہنما ڈاکٹر سلیم ہنگورہ، محمد علی ہنگورہ وغیرہ پیپلز پارٹی کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کچھی برادری نمایندگی کرتے رہے ہیں مگر پیپلز پارٹی کی ناقص پالیسی کی بنا پر یہ دونوں برادریاں قتل و خون ریزی کا شکار ہیں۔ لیاری کا نہ صرف کراچی بلکہ ملک کی سیاست میں اہم کردار رہا ہے۔

گزشتہ صدی کی ابتدائی دہائیوں میں لیاری آزادی کی تحریکوں کا مرکز رہا۔ ریشمی رومال تحریک کے بانی مولانا عبیداﷲ سندھی نے مولانا محمد صادق کے کھڈا مدرسہ کو تحریک کا مرکز بنایا تھا۔ پھر آل انڈیا کانگریس نے لیاری میں مقبولیت حاصل کی۔ بعد ازاں محمد علی جناح کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ نے کانگریس کے حامی امیدوار کو شکست دی۔ لیاری کے عوام نے 1964 میں پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کے مخالف امیدوار میر غوث بخش بزنجو کو قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں کامیاب کراکر ایوب خان کی آمریت کے خلاف عوامی تحریک کا راستہ ہموار کیا۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے لیاری میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ لیاری بھٹو حکومت میں بلوچستان میں ہونے والے فوجی آپریشن کے خلاف مزاحمتی تحریک کا اہم مرکز رہا۔

جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف پیپلز پارٹی اور کمیونسٹ تحریک کے کارکنوں نے جمہوریت کی بحالی کے لیے قربانیاں دیں۔ 1983 کی ایم آر ڈی کی تحریک میں عظیم سیاسی رہنما غوث بخش بزنجو نے لیاری کے مرکز چاکیواڑہ میں گرفتاری دی اور لیاری کے عوام اس وقت سڑکوں پر نکل آئے۔ پولیس نے بہیمانہ تشدد کرکے اس مزاحمتی تحریک کو کچلنے کی کوشش کی۔ لیاری سے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری بغیر کسی مزاحمت کے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے مگر 90 کی دہائی میں اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے کے تحت لیاری میں جرائم پیشہ گروہوں کو طاقت ور بننے کا موقع ملا۔ جب نئی صدی کا آغاز ہوا تو بلوچستان میں بدامنی کے ساتھ لیاری میں جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیاں تیز ہوئیں۔ ان لوگوں نے لیاری کے اطراف کے علاقوں میں اپنی سرگرمیاں تیز کرنے کے ساتھ ساتھ لیاری میں سیاسی کارکنوں کو بھی ہراساں کرنا شروع کیا۔ کہا جاتا ہے کہ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد لیاری میں جرائم پیشہ افراد کا آپریشن تیز ہوا۔ اس آپریشن کا نشانہ ترقی پسند کارکن، صحافی، ادیب و شاعر بنے۔ یوں لیاری کے حقیقی کارکن بے اثر ہوتے چلے گئے۔

پیپلز پارٹی لیاری کی وارث ہے، پیپلز پارٹی کی قیادت نے لیاری میں سیاسی کلچر کو بچانے کے بجائے جرائم پیشہ افراد کی حاکمیت کو قبول کیا۔ بعض صحافیوں کا بیان ہے کہ جب بے نظیر بھٹو ستمبر 2007 میں کراچی آئیں تو آصف علی زرداری نے ان افراد کو بے نظیر بھٹو کی حفاظت کا کام سونپا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم میں پیپلز پارٹی کے حال ہی میں شامل ہونے والے لیاری سے تعلق رکھنے والے رہنما نبیل گبول نے 2008 کے انتخابات میں بعض گروہوں سے مفاہمت سے انتخاب میں حصہ لیا۔ 2008 کے انتخابات کے بعد ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور اے این پی کے ساتھ قومی اور صوبائی حکومتوں میں شامل ہوئی مگر اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم اور اے این پی میں کشیدگی پیدا ہوگئی، جس سے شہر میں نئی لسانی جنگ کا آغاز ہوا۔

اس جنگ کے اثرات لیاری تک بھی پہنچے۔ پھر امن کمیٹی کے نام سے کراچی کی سیاست میں ایک نیا عنصر ابھر کر سامنے آیا۔ اس وقت پیپلز پارٹی لیاری کے کئی قائدین اس کمیٹی کے رہنماؤں میں شامل تھے مگر امن کمیٹی کے قیام کے بعد کراچی میں بھتہ، اغوا برائے تاوان وغیرہ کی وارداتیں بڑھیں، اس کے ساتھ ہی یہ الزام بھی لگایا گیا کہ ایم کیو ایم لیاری میں جرائم پیشہ افراد کے ایک گروہ اور کچھی کمیونٹی کی درپردہ حمایت کررہی ہے، پہلی دفعہ اردو بولنے والے افراد اور بلوچی بولنے والوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی۔ بعدازاں رحمن بلوچ کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد سندھ حکومت اور امن کمیٹی میں کشیدگی پیدا ہوئی۔ ایم کیو ایم نے امن کمیٹی کے خلاف مہم چلائی جس کے بعد لیاری میں آپریشن ہوا۔

یہ آپریشن 48 گھنٹے تک جاری رہا۔ اس آپریشن میں کئی بے گناہ افراد جاں بحق ہوئے۔ پولیس کے چاق و چوبند دستے لیاری کے علاقے بکرا پیڑی کے چیل چوک سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ پولیس اپنے دعووں کے باوجود کسی جرائم پیشہ فرد کو گرفتار تک نہیں کرسکی۔ اس آپریشن سے سندھ رینجرز کے دستے پراسرار طور پر غائب رہے۔

پھر پیپلز پارٹی نے مفاہمت کی تحریک چلائی، عام انتخابات میں شاہجہاں بلوچ اور ثانیہ بلوچ جیسے سیاسی کارکنوں کو ٹکٹ دیے گئے۔ شاہجہاں بلوچ نے ابلاغ عامہ میں ایم اے کیا ہوا ہے۔ وہ طالب علمی کے زمانے سے ایک سلجھے اور سنجیدہ سیاسی کارکن کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ شاہجہاں بلوچ 11 مئی کے انتخابات سے پہلے ایک گینگسٹر ارشد پپو کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے، مگر 11 مئی کے انتخابات کے بعد سے لیاری میں امن قائم نہیں ہوا بلکہ لیاری سے متصل علاقوں اور بازاروں میں صورتحال مزید کشیدہ ہوگئی۔ لیاری میں صورتحال اتنی خراب ہے کہ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر جارہے ہیں اور وہاں کی جائیداد کی قیمتیں گررہی ہیں، تعلیمی ادارے اور اسپتال تک بند ہیں۔

بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ لیاری کی صورتحال کا بلوچستان کے حالات سے گہرا تعلق ہے۔ اسٹیبلشمنٹ لیاری میں بلوچ قوم پرستوں اور آزاد بلوچستان کے حامیوں کی جڑیں کاٹنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ اس مقصد کے لیے غیر ریاستی کرداروں کی سرپرستی کی گئی جس کے اثرات واضح ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ لیاری کی صورتحال مزید خراب ہوگی اور اس صورتحال سے کراچی کا امن متاثر ہوگا۔ اس وقت پیپلز پارٹی سندھ کی حکومت کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ لیاری سمیت کراچی بھر میں امن و امان برقرار رکھنے کی ذمے داری اسی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ سندھ کی حکومت کو لیاری میں امن و امان کے لیے شفاف پالیسی بنانا ہوگی کیونکہ لیاری کا امن شہر کے امن سے منسلک ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو اس مقصد کے لیے لیاری میں اسلحہ کی فراہمی کو روکنے کے ساتھ ساتھ ملزموں کو سزا دلوانے کے لیے بھی فول پروف حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔

کئی دنوں سے کچھیوں کا علاقہ نو گو ایریا بنا ہوا ہے۔ لوگ نان شبینہ کو محتاج ہوگئے ہیں، مارکیٹیں دکانیں ،محلوں کے راست اور اسکول بند ہیں ۔ وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو اس حکمت عملی کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ لیاری میں سیاسی مصالحت کے لیے بات چیت ہوسکے۔ اس مصالحتی عمل میں پیپلز پارٹی کے علاوہ بلوچستان کے رہنماؤں میر حاصل بزنجو اور ڈاکٹر عبدالمالک کو بھی شریک کرنا چاہیے۔ لیاری کے حالات کو بہتر بنانے میں رحیم بخش آزاد، ضیا اعوان ، صدیق بلوچ، لطیف بلوچ ، ڈاکٹر جبار خٹک اور یونس شاد جیسے سنجیدہ کارکن اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو 11 مئی کے انتخابات سے سبق لینا چاہیے۔ لیاری سے تحریک انصاف کے نامعلوم امیدوار نے 26000 ووٹ حاصل کیے، ایسا نہ ہو کہ لیاری کے عوام آیندہ کوئی اور فیصلہ دے دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں