شمالی کوریا کی امریکا کو مذاکرات کی پیشکش
شمالی کوریا نے اپنے ایٹمی پروگرام اور جزیرہ نما کوریا میں کشیدگی کم کرنے کے لیے امریکا کو اعلیٰ سطح پر مذاکرات کی...
شمالی کوریا نے اپنے ایٹمی پروگرام اور جزیرہ نما کوریا میں کشیدگی کم کرنے کے لیے امریکا کو اعلیٰ سطح پر مذاکرات کی پیش کش کی ہے، یہ پیش کش شمالی کوریا کے نیشنل ڈیفنس کمیشن نے ایک بیان میں کی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا امریکا سے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ ان میں دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کا معاملہ بھی شامل ہے تاہم امریکا پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے وقت اور جگہ کا تعین کرے اور پیشگی شرائط عائد کرنے سے گریز کیا جائے۔
ادھر امریکا نے کہا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے ساتھ اْن کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اس سے پہلے پیانگ یانگ کو اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرار دادوں کی پابندی کرنا ہوگی۔شمالی کوریا نے اپنے رویے میں خاصی لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ امریکا کو بھی اس معاملے میں اپنی پالیسی میں لچک دکھانی چاہیے۔ ایٹمی معاملات پر امریکا اور ایران کے درمیان بھی کشیدگی موجود ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر امریکا کے پالیسی ساز چھوٹے ممالک کے تحفظات پر غور کریں اور ان سے ہمدردانہ طریقے سے مذاکرات کریں تو یہ تنازعات باآسانی طے ہو سکتے ہیں۔
شمالی کوریا نے مذاکرات کی پیش کش کر کے گیند امریکا کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ جزیرہ نما کوریا کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ دو حصوں میں تقسیم ہے۔ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا ایک دوسرے کے خلاف بھی صف آرا رہتے ہیں۔ جنوبی کوریا میں امریکا کے فوجی اڈے بھی موجود ہیں۔ اس صورت حال کے اثرات شمالی کوریا پر پڑتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے نظام میں بھی فرق موجود ہے۔ شمالی کوریا میں سوشلسٹ برسراقتدار ہیں اور جب کہ جنوبی کوریا میں کیپٹلسٹ حکمران ہیں۔ یوں ان دونوں ملکوں کی صورت حال بھی مشرقی اور مغربی جیسی بن چکی ہے۔
مشرقی اور مغربی جرمنی تو ایک ملک بن گئے ہیں لیکن شمالی اور جنوبی کوریا ابھی تک دو آزاد ملکوں کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود ہیں۔ دونوں ملکوں میں ایسے طبقات کی کمی نہیں ہے جو جزیرہ نما شمالی کوریا کو بھی متحدہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی طاقتور اقوام کو اپنی اس پالیسی پر بھی نظرثانی کرنی چاہیے۔ اس وقت امریکا دنیا کی واحد سپر پاور کے درجے پر فائز ہے۔ اس حیثیت میں امریکی پالیسی سازوں کا فرض ہے کہ وہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے مسائل کو حقیقی تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ ایٹمی ٹیکنالوجی پر صرف ترقی یافتہ ممالک کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے۔
ایٹمی ہتھیاروں کا معاملہ البتہ دوسری نوعیت کا ہے۔ چھوٹے ملکوں کو درپیش خطرات میں کمی کر دی جائے اور ان کے مسائل کو حل کر دیا جائے تو شاید دنیا کے چھوٹے ممالک ایٹمی ہتھیار بنانے کا سوچیں بھی نا۔ امریکا کے پالیسی سازوں کو کوریا کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہیے۔ ایسی طرح شمالی کوریا کی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ حالات کو سامنے رکھ کر اپنی پالیسی ترتیب دے اور اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ اسی طرح امریکا کو ایران کے ساتھ بھی معاملہ کرنا چاہیے۔ کسی ملک پر اقتصادی پابندی عائد کرنا یا اس پر جارحیت کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
امریکا کے پالیسی سازوں کو دنیا میں قیام امن کے لیے اپنی ایٹمی حکمت عملی میں بھی تبدیلی لانی چاہیے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے بھی اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں عراق تباہ ہوا ہے۔ افغانستان کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ لیبیا'یمن'صومالیہ اور شام میں ریاستی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ ان ملکوں میں عام آدمی کے وسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس خانہ جنگی کے نتیجے میں دہشت گردی بھی بڑھی ہے۔ یوں جس دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے امریکا نے جنگ کا آغاز کیا 'وہ پوری دنیا میں پھیل رہی ہے۔ یہاں تک کہ امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک میں بھی دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ رہتا ہے۔