انسان بن جاؤ
کرہ ارض پر لاکھوں قسم کی مخلوق موجود ہے، ہمارے جنگل جانوروں درندوں سے بھرے ہوئے ہیں، ڈارون کی تھیوری کے...
کرہ ارض پر لاکھوں قسم کی مخلوق موجود ہے، ہمارے جنگل جانوروں درندوں سے بھرے ہوئے ہیں، ڈارون کی تھیوری کے مطابق انسان ایک تدریجی ارتقاء کے پروسس سے گزر کر جانور سے انسان بنا ہے۔ دنیا میں موجود لاکھوں مخلوق کے سروں میں بھیجہ ہے لیکن وہ سوچ سمجھ نہیں سکتا، ہزاروں جانداروں کے منہ میں زبان ہے لیکن وہ بول نہیں سکتے۔ انسان وہ واحد جاندار ہے جو سوچ سکتا ہے سمجھ سکتا ہے اور بول سکتا ہے، ان ہی خوبیوں کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات کہلایا۔ جنگل کے باسیوں میں گوشت کھانے والے جانوروں کو درندہ کہا جاتا ہے۔
ان درندوں کی یہ مجبوری ہے کہ ان کا نظام ہضم گھاس پات، روٹی چاول کو قبول نہیں کرتا، صرف گوشت کو قبول کرتا ہے، اس مجبوری کی وجہ سے گوشت خور جانور جانوروں کا شکار کرتے ہیں اور انھیں چیرپھاڑ کر کھا جاتے ہیں، اس لیے انھیں درندہ کہا جاتا ہے لیکن یہ درندے صرف اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے جانوروں کو مارتے ہیں اور درندے کہلاتے ہیں۔ جب انسان انسانوں پر جنگل جیسے ظلم کرتا ہے تو اسے درندے کا نام دیا جاتا ہے۔
انسان اشرف المخلوقات ہے، سوچ سکتا ہے سمجھ سکتا ہے محسوس کرسکتا ہے، اچھے برے، صحیح غلط میں تمیز کرسکتا ہے، ان ساری خوبیوں کے باوجود انسان کی پوری تاریخ درندگی سے بھری ہوئی ہے، جنگل کے درندوں اور شہروں کے درندوں میں فرق یہ ہے کہ جنگل کے درندے اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے دوسرے جانوروں کی جان لیتے ہیں، شہروں کے درندوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے نہیں بلکہ اپنے گندے ذہنوں کی بھوک مٹانے کے لیے انسانوں کی جان لیتے ہیں، انسان کی اس درندگی میں انسان کی ترقی کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہا، صلیبی جنگوں، پہلی اور دوسری عالمی جنگوں، 1947 کی بربریت، ویت نام، کوریا کی جنگوں، فلسطین، کشمیر کی خونریزیوں، عراق افغانستان کی جنگوں میں اب تک لاکھوں انسان مارے گئے۔
انسان پتھر کے ہتھیاروں سے لے کر ایٹمی ہتھیاروں تک پہنچ گیا۔ انسان چاند پر ہو آیا ، مریخ پر جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ سائنس ٹیکنالوجی سمیت زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی اس معراج پر کھڑا ہے ماضی میں جس کا تصور بھی ممکن نہ تھا لیکن اس ترقی کے ساتھ اس کی درندگی میں بھی اسی شدت سے اضافہ ہوا ۔
انسانوں کو انسان بنانے کے لیے سیکڑوں فلسفے روشناس کرائے گئے، ہزاروں کتابیں لکھی گئیں، بے شمار نظریات پیش کیے گئے، ادب اور شاعری تخلیق کی گئی، سوا لاکھ پیغمبر انسان کو سدھارنے کے لیے تشریف لائے، آسمانی کتابوں کا نزول ہوا، مسجد، مندر، گرجا، پگوڈے تعمیر ہوئے، مولوی، پنڈت، پجاری، پروہت، پادری، وعظ اور نصیحت کے پھول بکھیرتے رہے، لیکن ان ساری کوششوں کے باوجود انسان حیوان ہی رہا۔ ایسا کیوں؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے سے پہلے آج کی ترقی یافتہ دنیا کے منظر نامے پر ایک نظر!
ہندو مسلمان سے نفرت کرتا ہے، یہودی عربوں سے، عرب یہودیوں سے نفرت کر رہے ہیں، عیسائی، بدھ اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ انسان امریکی ہے، برطانوی ہے، فرانسیسی ہے، جرمن ہے، روسی ہے، چینی ہے، ہندوستانی ہے، پاکستانی ہے، عرب ہے، یہود ہے، بنگلہ دیشی ہے، افغان ہے، ترک ہے، انڈونیشی ہے، فلپائنی ہے، ملائیشیائی ہے، غرض ملک و ملت کے سیکڑوں خانوں میں بٹا ہوا ہے اور اپنی اپنی جغرافیائی سرحدوں میں قید ہے اور اس جغرافیائی سرحد کی حفاظت کے لیے لاکھوں افراد پر مشتمل فوج اور اربوں روپوں کا اسلحہ رکھتا ہے۔ خود علاقائی تنازعات پیدا کرتا ہے اور طاقت کے توازن کے نام پر اربوں روپوں کے ہتھیار خریدتا اور بیچتا ہے۔
چین اور بھارت کے درمیان سرحدوں کا تنازعہ ہے، جاپان اور چین کے درمیان جزیروں پر حق ملکیت کا تنازعہ ہے، شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان سیاست اور طاقت کا تنازعہ ہے، ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر کا تنازعہ سے، عربوں اور اسرائیل کے درمیان فلسطین کا تنازعہ ہے، ایران اور امریکا کے درمیان اسرائیل کا تنازعہ ہے، شام اور امریکا کے درمیان جمہوریت اور آمریت کا تنازعہ ہے، روس اور امریکا کے درمیان اقتصادی مفادات کا تنازعہ ہے، چین اور بھارت کے درمیان ایک اور تنازعہ ایشیاء کی سپر پاوری کا تنازعہ ہے۔ پاکستان کے اندر شیعہ سنی کا تنازعہ ہے زبان، نسل، قومیت اور فقہوں کا تنازعہ ہے، ان تنازعات نے دنیا کو جہنم میں بدل کر رکھ دیا ہے، جنگیں قتل و غارت ہماری دنیا کا طرہ امتیاز ہے۔
فلسطینیوں کی سرزمین یونان نے بہت سارے فلسفی پیدا کیے، افلاطون، ارسطو، سقراط، بقراط سے لے کر مارکس، اینجلز، ہیگل تک سیکڑوں مفکرین اور فلسفیوں نے دنیا کو سنوارنے، انسان کوحیوان سے انسان بنانے کے لیے مختلف فلسفے مختلف نظریات پیش کیے۔ لیکن ہوا یہ کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زمین پر خدا کے اس خلیفہ اور اشرف المخلوقات کی پوری تاریخ جنگوں، قتل و غارت سے کیوں بھری ہوئی ہے؟ پتھر کے دور سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور تک جہل کے دور سے تہذیب وترقی کے اس دور تک انسان انسان کا خون کیوں بہاتا آرہا ہے؟ انسانی تاریخ کی چند بڑی خونریزیوں کا حوالہ تو ہم نے دیا ہے لیکن جنگوں اور انسانوں کے ہاتھوں انسان کے قتل کا ہزاروں سال پر مشتمل ایک دور شخصی حکمرانی یعنی بادشاہتوں کا دور رہا ہے اس دور میں بربریت کے ایسے ایسے مظاہرے کیے گئے کہ اس کے تصور سے انسان کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں، جنگوں میں قتل عام کے شاہی حکم کے نتیجے میں بچوں، بڑوں، عورتوں، مردوں کو جس بربریت کے ساتھ قتل کیا گیا اور انسانی سروں کے مینار بنائے گئے یہ ہماری تاریخ کا وہ کوڑھ ہے جس نے اشرف المخلوقات کے چہرے کو اس قدر بھیانک بنادیا ہے کہ اس کے تصور سے گھن آتی ہے۔
اس دور کے دو کردار ہلاکو اور چنگیز خان ظلم و جبر، قتل و غارت کا استعارہ بن گئے ہیں۔ مہابھارت مہان بھارت کے چہرے کا وہ کلنک ہے جس نے اس قدم کو رسوا کر دیا ہے ہم اگر ان ادوار کو جہل کا نام دے کر درگزر کرنا چاہیں تو بیسویں صدی کی ترقی یافتہ اور مہذب دنیا میں ہونے والی تاریخ کی بدترین جنگوں، پہلی اور دوسری عالمی جنگوں اور عراق اور افغانستان کی جنگوں کو کیا نام دیں جن میں دس لاکھ سے زیادہ بے گناہ انسان قتل کردیے گئے اور دہشت گردی کے اس عفریت کا کیا جواز پیش کریں جو افغانستان سے نکل کر وزیرستان میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہے اور خیبر سے کراچی تک لاشوں کے انبار لگا رہا ہے اور تیزی سے ساری دنیا تک پھیلتا جارہا ہے۔ یہ عفریت مہذب دنیا کے کسی ادارے کو سرے سے تسلیم کرنے کے لیے ہی تیار نہیں، مسجد، مندر، مقبرے تک اس کی ستم رانیوں سے محفوظ نہیں۔
تہذیبی ترقی کا فطری تقاضا تو یہ تھا جہل کی ان یادگاروں کا خاتمہ ہوجاتا لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ پتھر کے دور کے پتھر کے ہتھیار تہذیبی ترقی کے ساتھ ترقی کرکے ٹینک، بحری اور فضائی جنگی جہازوں، راکٹوں، میزائلوں اور ایٹمی ہتھیاروں تک پہنچ گئے ہیں، ایٹمی ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کے اتنے ذخیرے موجود ہیں کہ دنیا کو ہزاروں بار تباہ کرسکتے ہیں، اس بربریت کا جواز مہذب انسان نے طاقت کا توازن پیش کیا ہے۔
انسانی سماج کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ تہذیبی ترقی کے ساتھ ساتھ ایسی دانشورانہ ترقی نہیں ہوئی، ایسی فلسفیانہ ترقی نہیں ہوئی جو انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کے اس بہیمانہ قتل عام کے خلاف دیوار بن جاتی اس قتل و غارت کے بنیادی اسباب تلاش کرکے اس قتل و غارت کے کلچر کے خلاف رائے عامہ بیدار کرتی اور ایسے فکر و فلسفوں سے دنیا کو روشناس کراتی جو اس بدترین حیوانیت سے اشرف المخلوقات کو روکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کی ان وحشتوں کے پیچھے کبھی جہانگیری کا خبط موجود رہا تو کبھی انسانوں کی قوم، ملک، مذہب و ملت، رنگ ونسل، زبان کے حوالے سے تقسیم ان نہ تھمنے والی خونریزیوں کا محرک بنی رہی۔ اس وحشیانہ حیوانی کلچر اور مہذب دنیا کی غیر مہذب روایات کو ختم کرنے کے لیے بڑی بڑی ضخیم کتابوں پر مشتمل بڑے بڑے فلسفوں کی ضرورت نہیں صرف دو لفظوں کے ایک مختصر ترین فلسفے کی ضرورت ہے اور وہ ہے ''انسان بن جاؤ!''