ابدی سفر پر جانے والے بے گناہوں کے نام
ایک بہت مشہور موبائل کمپنی کے سیٹ کا اسکرین جب روشن ہوتا ہے تو اس میں پہلے ایک مردکا ہاتھ نمودار ہوتا ہے جس۔۔۔
ایک بہت مشہور موبائل کمپنی کے سیٹ کا اسکرین جب روشن ہوتا ہے تو اس میں پہلے ایک مردکا ہاتھ نمودار ہوتا ہے جس کے فوراً بعد ایک ننھے بچے کا ہاتھ نظر آتا ہے جسے وہ توانا ہاتھ اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ یہ اشارہ ہے کہ بڑے کس طرح بچوں کو اپنی امان میں لیتے ہیں اور ان کی دست گیری کرتے ہیں۔
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب نوزائیدہ یا نو عمر بچوں کی بھینٹ چڑھائی جاتی تھی جس میں جادوگر اور پروہت پیش پیش ہوتے تھے۔ آہستہ آہستہ انسانی شعور کا ارتقا ہوا اور اب سے سیکڑوں برس پہلے کی دنیا اس نتیجے پر پہنچی کہ انسان اگر اپنے مستقبل کو تابناک بنانا چاہتا ہے تو اسے بچوں کی حفاظت کرنی ہوگی۔ انھیں ذمے دار شہری بنانے کے لیے ان کی تعلیم اورصحت کے ساتھ ہی انھیں محبت اور شفقت کا سائبان بھی فراہم کرنا ہوگا۔ ہم اگر اٹھارہویں اورانیسویں صدی کی انگریزی، فرانسیسی اوردوسری یورپی زبانوں کی کہانیوں کا مطالعہ کریں تو اس میں ہمیں آوارہ گرد بچے نظر آتے ہیں جن میں سے کوئی بھوک کی شدت سے مجبور ہوکر نان چراتے ہوئے پکڑا جاتا ہے اورکوئی سر پرگھر کی چھت نہ ہونے کے سبب کوڑے کے ڈھیر سے اپنی بھوک مٹاتا ہے۔ چارلس ڈکنز اور وکٹر ہیوگو جیسے بڑے لکھنے والے ان بچوں کو انصاف فراہم کرنے کی لڑائی لڑتے ہیں۔ یہ شعور آہستہ آہستہ انسانی ضمیر میں جڑ پکڑتا جاتا ہے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ دہائیوں پہلے اقوام متحدہ کی طرف سے بچوں کے حقوق کا منشور مرتب ہوچکا اور اس میں سال بہ سال بہتری آرہی ہے۔
یہی عالم عورتوںکے حقوق کا بھی ہے۔عورتوں نے اپنے انسانی حقوق کو حاصل کرنے کے لیے دو صدی پر پھیلی ہوئی سیاسی اور سماجی لڑائی لڑی ہے۔ اور اس میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بہت سے ملکوں میں عورتوں کے حقوق کا خاص خیال رکھاجاتا ہے۔ عرصۂ دراز سے بچے اور عورتیں کمزور طبقات میںشمار کیے جاتے ہیں۔ دنیا کے بہت سے ملکوں اور سماجوں میں یہ ایک غیر تحریر شدہ قانون ہے کہ کسی بھی زمینی آفت یا آسمانی قہر سے نمٹتے ہوئے سب سے پہلے بچوں اور پھر عورتوں کو آفت زدہ علاقے سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بحری جہاز کسی حادثے کا شکار ہوکر ڈوبنے لگیں تو لائف بوٹس میں بچوں اور عورتوں کو پہلے سوار کرایا جاتا ہے۔
ایک طرف یہ اصول ہیں، دوسری طرف بہت سے ایسے لوگ ہیں جو میدان جنگ میں خود آگے بڑھنے سے پہلے آس پاس سے پکڑے ہوئے بچوں کو ہر اول دستے کے طور پر آگے رکھتے ہیں تاکہ اگر راستے میں بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہوں یا خندقوں کو گھاس پھونس سے چھپا دیا گیا ہوتو آگے چلنے والے بچے ان میں گر جائیں یا ان کے پرخچے اڑ جائیں اس کے بعد ہی فوج کے شیر دل دستے آگے بڑھتے ہیں کیونکہ راستہ اب محفوظ ہوتا ہے۔
ہم نے یہ سب کچھ ایران عراق جنگ میں، سری لنکا میں تامل ٹائیگرز اور افغانستان میں ' جنگجوئوں' کو کرتے دیکھا۔ افریقا جہاں مختلف جنگیں لڑی گئیں وہاں بھی لشکر کشی کرنے والے قبائل نے بچوں کو نہایت سفاکی سے استعمال کیا۔ بعض ملکوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی کم ازکم 2نسلیں خانہ جنگیوں اور علاقائی جنگوں کا نوالہ بن گئیں۔ اسی طرح عراق، ایران، شام، افغانستان، بوسنیا اور خانہ جنگی کی دلدل میں دھنسے ہوئے دوسرے ملکوں کی عورتوںنے جنگ کی بھاری قیمت بے گھری، دربہ دری، اپنے بچوں اور رشتوں سے محرومی اور اپنی عزت سے اداکی۔ ہمارے یہاں عورتیں ایک نرالی افتاد کا شکارہیں۔ انھوں نے یہ سمجھا تھا کہ 1947کے بعد وہ ترقی کے راستے پر سفر کریں گی۔ تعلیم اور ہنر مندی ان کا اثاثہ ہوگا۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزار، ان کی پسپائی اور ان کے حقوق پر ڈاکا روز مرہ کی کہانی ہوا۔
افغانستان کی وہ جنگ جسے فوجی آمرکھینچ کر پاکستان میں لے آئے اور جنہوں نے لوگوں کو جدید اسلحہ اور عسکری تربیت فراہم کی اور ان پر خزانوں کے در کھول دیے۔ ان لوگوں نے سب سے پہلے ہمارے بچوں کو خود کش بمبار بنانے کا بیڑا اٹھایا۔ کسی کو 72 حوروں کا دولہا بننے کا سنہرا خواب دکھایا اور کسی کو ذہن پر قابو پانے والی دوائوں کے ذریعے اپنے زیر اثر کیا۔ وہ بچے جن میں سے اکثر اغوا کیے گئے تھے یا والدین سے 'دین کی خدمت' کے نام پر مستعار لیے گئے تھے، ان میں سے شایدکوئی بھی لوٹ کر گھر کو نہ گیا اور اپنی مائوں کے سینوں کو عمر بھر کے لیے ایسے جہنم میں بدل گیا جس کی آنچ آنسوئوں سے بھی ٹھنڈی نہیں ہوتی۔
افغانستان کی وہ جنگ جو ہماری سرحدوں کے اندر لائی گئی اس کا دوسرا بڑا نشانہ ہماری عورتیں بنیں۔ وہ لڑکیاں جو پڑھنا چاہتی تھیں اورتعلیم سے اپنے ارد گرد کی دنیا کو بدلنا چاہتی تھیں، ان سے ہمارے ملک میں دندناتے ہوئے تمام لشکروں نے وہ دشمنی اختیارکی جس کا کوئی حد و حساب نہ رہا۔ کوئٹہ میں 15 جون کو بہادر خان ویمن یونیورسٹی بس میں جو خود کش دھماکا ہوا، اس میں 14 طالبات جان سے گئیں اور 19 زخمی ہوئیں۔ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش مند ان لڑکیوں سے نفرت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب زخمی لڑکیوں اور ہلاک ہونے والیوں کی لاشیں بولان میڈیکل کالج کے اسپتال پہنچائی جارہی تھیں تو ایمرجنسی وارڈ میں بم دھماکا کیا گیاجو مدد کو پہنچنے والی 4 نرسوں کو ساتھ لے گیا۔ متعدد نرسیں اور ڈاکٹر زخمی ہوئے۔ ڈپٹی کمشنر جان سے گئے۔ اس واقعے کی کوریج کے لیے پہنچنے والے ٹیلی ویژن چینلوں کی گاڑیوں، اخباروںکے رپورٹروںاور فوٹو گرافروں پر بھی حملے ہوئے۔ یہ سب کچھ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا اور اس کے بعد ایک لشکر کی طرف سے فخریہ اعلان کیا گیا کہ یہ ہمارا کارنامہ ہے۔
پاکستان جیسے غریب ملک نے کن مشکلوں سے تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کی، دور دراز علاقوں میں اسکول بنائے، ان میں اساتذہ کا تقرر کیا۔ میلوں دور رہنے والی لڑکیوں نے ان اسکولوں میں داخلے لیے۔ ان کے اندر امید کے جگنو جھلملائے کہ اب ہم بھی کہیں پہنچ سکتے ہیں۔ یہ ان کا خیال تھا کیونکہ پاکستان میں ایک نیابتی جنگ لڑی جارہی تھی۔ عسکریت پسندی کا سیلاب ہمارے پُرامن اور پُرسکون علاقوں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ طوفان ہمارے سرحدی علاقوں کی تمام خوبصورت روایات کو، موسیقی اور رقص کو، سب سے بڑھ کر لڑکیوں کی تعلیم کو بہا لے جانے کے در پے ہوا۔
ملالہ یوسف زئی اس عزم کی ایک تابناک مثال ہے جسے ہلاک کرنے کی خواہش رکھنے والے اس کی جینے کی قوت کے سامنے ہار مان گئے۔ یہ لڑکی جو موت سے لڑ کر زندگی کے ساحل تک آئی ہے، اس نے جہاں پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں کا چہرہ دنیا کو دکھایا ہے، وہیں یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ اس مٹی میں کیسے کیسے جوہر قابل موجود ہیں۔ ضرورت صرف اس کی ہے کہ انھیں وہ مواقعے ملیں جو ان کو نمو پذیر ہونے میں مدد دے سکیں۔
کوئٹہ میں جس مہارت سے دہشت گردی کی گئی اور اس کے بعد بچ جانے والیوں کو طبی امداد سے محروم کرنے اور مزید جانوں کو شکار کرنے کے لیے جس طرح حملہ کیا گیا، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے سینوں میں نفرت کا کیسا جہنم بھڑک رہا ہے۔ یہ کہہ دینا بہت آسان ہے کہ یہ سب کچھ کسی غیر ملکی قوت کے اشارے پر ہورہا ہے۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ایسا ہی ہے تب بھی ہمیں یہ تو ماننا پڑے گا کہ ہمارے اندروہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں جو سفاکی کے ان واقعات کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنے ضمیر پر کسی طرح کا بوجھ محسوس نہیں کرتے۔
ابدی سفر پر روانہ ہوجانے والوں کے خاندانوں سے پرسہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمالک سے دلی ہمدردی کا اظہار ہونا چاہیے۔ وہ ایک نیک نیت انسان ہیں، بلوچستان کے گمبھیر مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے انھیں وقت درکار ہوگا اور اس کے ساتھ ہی وفاقی حکومت اور اس کے زیر نگرانی کام کرنے والی ایجنسیوں کوبھی ڈاکٹر مالک کے ساتھ مکمل تعاون کرنا ہوگا۔ ایک بہت اہم مرحلہ یہ بھی ہے کہ ملک بھر میں پھیلی ہوئی مختلف جگہوں پر رکھی ہوئی چندے کی صندوقچیوں میں نوٹ ڈالنے والوں کو خود سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ ان کی جیب سے صندوقچیوں میں منتقل ہونے والی رقم واقعی مستحقین پرخرچ ہورہی ہے یا بندوقچیوں کے قبضے میں جارہی ہے۔ اس دہشت گردی سے لڑنے کی اصل ذمے داری یقیناً وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ہے لیکن ہمیں بھی سوچنا چاہیے کہ کہیں غیر محسوس طور پر ہم بھی اس عفریت کو دودھ پلانے میں مصروف تو نہیں، جو ہمارے گھروں کا چین اور ہمارے بچوں کی زندگیاں نگل رہا ہے۔