آؤٹ آف ٹرن پروموشنز عدالتی فیصلے کیخلاف اپیل کیلیے متاثرہ افسروں کے دباؤ پر سندھ حکومت تذبذب کا شکار

فیصلے پر عمل سے بہت مسائل پیدا ہوجائیں گے جن سے نمٹنا سندھ حکومت کے لیے انتہائی مشکل ہوگا، ایک طبقے کی رائے.


Staff Reporter June 20, 2013
مختلف آپشنز پر غور، گورنر ہائوس میں بھی صلاح مشورہ، چیف سیکریٹری کی زیر صدارت اہم اجلاس پیر کو طلب، اپیل دائر کیے جانے کا امکان ہے، ذرائع، فریق بننے والے افسران میں خوشی کی لہر. فوٹو: وکی پیڈیا

سندھ حکومت آؤٹ آف ٹرن پروموشن ،افسران کے ایک محکمے سے دوسرے محکمے میں انضمام اور براہ راست اسسٹنٹ کمشنرز (ڈی ڈی اوز ) کی بھرتیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے کنفیوژن، تذبذب اور اضطرابی کیفیت کا شکار ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے پر من وعن عمل کرنا ہے یا پھر اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جائے، اس بارے میں سندھ حکومت کے ارباب اختیار میں 2 رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک بہت بڑے طبقے کی رائے ہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد سے مختلف نوعیت کے مسائل پیدا ہوجائیں گے جن سے نمٹنا سندھ حکومت کیلیے انتہائی مشکل امر ہوگا جبکہ جو افسران آؤٹ آف ٹرن پرموشن اور افسران کے انضمام سے متاثر ہوئے ہیں وہ حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اس فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے بجائے اپیل دائر کرے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس بات کا امکان ہے کہ سندھ حکومت اس فیصلے پر جزوی عمل کرکے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردے ۔

سندھ کی بیورو کریسی میں بحرانی کیفیت کو ختم کرنے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کیا جا رہا ہے اور فیصلے پر عملدرآمد کے طریقے کار کو بھی حتمی شکل دینے کے لیے پیر کو چیف سیکریٹری سندھ کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس طلب کرلیا گیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق گبدھ کو گورنر ہاؤس میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے سندھ حکومت کے مختلف محکموں میں آؤٹ آف ٹرن پروموشن ، مختلف محکموں میں افسران کے انضمام اور براہ راست بھرتیوں کے حوالے سے دیے گئے فیصلے پر تفصیلی غور کیا گیا ۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں مختلف قانونی ماہرین نے گورنر سندھ کو صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے خلاف ریویو پٹیشن داخل کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا چونکہ مذکورہ بینچ ہی ریویو پٹیشن سن سکتی ہے جبکہ اگر اپیل دائر کی جائے تو صورت حال میں تبدیلی کا امکان ہوسکتا ہے ۔



ذرائع کے مطابق قانونی ماہرین نے بتایا ہے کہ مذکورہ فیصلے میں جو بھی افسران متاثر ہوئے ہیں انھیں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں ملا ہے، اس لیے تمام متاثرہ افسران ، سندھ حکومت اور سندھ اسمبلی چاہے تو فیصلے خلاف اپیل کرسکتی ہے ۔ ذرائع کے مطابق سندھ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے تیاریاں شروع کردی ہیں جبکہ اپیل دائر کرنے کیلیے بھی قانونی ماہرین کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں ۔ براہ راست اسسٹنٹ کمشنرز بھرتی ہونے والے حکام نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ1985 سے لے کر 2001 ء تک مختلف حکومتوں نے اس طرح کے اقدامات اٹھائے ہیں اور اس سے قبل بھی92 اسسٹنٹ کمشنرز اور 72 ڈی ایس پیز بھرتی کیے جاچکے ہیں لیکن سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ نے ان افسران کی تفصیلات سے سپریم کورٹ کو آگاہ ہی نہیں کیا۔ ماضی میں براہ راست اسسٹنٹ کمشنرز بھرتی ہونے والے تمام افسران کی فہرستیں بھی عدالت میں پیش کی جائیں گی تاکہ سپریم کورٹ کو حقائق سے آگاہ کیا جاسکے ۔

مذکورہ افسران سندھ حکومت کے انتہائی اہم عہدوں پر فائض ہیں لیکن انھیں ملی بھگت کرکے بچا لیا گیا ہے ۔ دوسری جانب 94 سے مختلف محکموں میں ضم ہونے والے افسران اپنے مستقبل کے لیے شدید پریشانی سے دوچار ہیں۔ انھوں نے بھی سپریم کورٹ میں علیحدہ علیحدہ اپیلیں دائر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ متعدد محکمے بند ہونے کی وجہ سے وہ دیگر محکموں میں ضم کیے گئے تھے جبکہ متعدد مختلف محکموں میںضم ہونے کی وجہ سے ان کے اصل محکموں کی اسامیاں یا تو ختم کردی گئیں یا پھر ان پر دیگر افراد کو بھرتی کرلیا گیا ہے اور 19 سال گذرنے کے بعد اگر اپنے محکموں میں جائیں گے تو وہاں ان کی پوزیشن کیا ہوگی؟، اس بارے میںصورت حال واضح نہیں ہے۔ اس لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی کہ کیس ٹو کیس سنا جائے، کیونکہ ہر انضمام کا فیصلہ علیحدہ قوانین کے تحت کیا گیا تھا ۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کے فیصلے میں فریق بننے والے افسران نے آؤٹ آف ٹرن ، انضمام اور براہ راست اسسٹنٹ کمشنرز کی بھرتیوں کے حوالے سے فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں