ایسے مواقع بار بار نہیں آتے
عوامی دولت کی کتنے بڑے پیمانے پر چوری کی گئی ہے کہ اربوں کی دولت کو رکھنے کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے
قوموں کی زندگی میں بعض مواقع ایسے آتے ہیں کہ قومیں ان مواقعوں سے فائدہ اٹھالیتی ہیں تو ان کا مستقبل سنور جاتا ہے۔ اگر قومیں یعنی عوام ایسے مواقعوں سے فائدہ نہیںاٹھاتیں تو انھیں صرف پچھتاوے کا سامنا رہتا ہے۔ اب ایک مڈل کلاسر عوام سے مخلص، کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والی جماعت برسر اقتدار آئی ہے اور ملک و عوام کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے، لیکن اول تو اس قیادت کے سامنے یہ مسئلہ ہے کہ معیشت پر بھاری قرضوں نے موجودہ حکومت کو اس قابل ہی نہیں رکھا کہ وہ عوام کے لیے ترقیاتی کام کرسکیں، اس پر سیاسی مخالفین حکومت پر یہ الزام لگارہے ہیں کہ یہ مسائل نئی حکومت کے آنے سے پیدا ہوئے ہیں۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ نئی حکومت ابھی ٹھیک سے کام کرنے کے قابل بھی نہیں ہوئی ہے کہ اسی پر یہ الزامات لگائے جارہے ہیں کہ مہنگائی، بیروزگاری وغیرہ نئی حکومت کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں۔ الزام تراشیوں کیسیاست ہماری اپوزیشن کر رہی ہے، اس نیک کام کے لیے بعض ''متبرک لوگ'' اے پی سی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہم نے قوت کے سرچشمے کا ذکر کیا تھا، ہمارے سیاستدانوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ جب بھی وہ مشکل میں گھرتے رہے ہیں فوری پریس کانفرنسوں اور بیانات کے ذریعے عوام کو بانس پر یہ کہہ کر چڑھاتے ہیں کہ عوام قوت کا سرچشمہ ہیں۔ 1977ء میں بھٹو کے خلاف عوام نے ثابت کیا کہ وہ قوت کا سرچشمہ ہیں، اگرچہ سیاست دانوں نے عوام کو سڑکوں پر لانے کے لیے بھٹو پر یہ غلط الزام لگایا کہ بھٹو نے انتخابات میں دھاندلی کی ہے، حالانکہ بھٹو وہ انتخابات جیت چکے تھے، صرف چند سیٹوں پر کچھ گڑبڑ ہوئی تھی، اس جمہوری ڈرامے کا ڈراپ سین بڑا شرمناک تھا۔ چند سیٹوں پر دھاندلی کے خلاف جمہوریت کا بول بالا کرنے والا سیاسی گروہ جمہوریت کو ایک فوجی آمر کے قدموں میں ڈال دیا۔ یہی نہیں بلکہ خود آمر کی حکومت کا حصہ بن گئے۔
آج عمران حکومت پر دھاندلی کا الزام لگاکر احتجاج کی تیاری کی جاررہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ حکومت عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے، یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ اپنے دور میں قرضہ لینے والے آج وزیراعظم عمران خان پر الزام لگار ہے ہیںکہ وہ آئی ایم ایف کے سامنے جھولی پھیلارہے ہیں۔حالانکہ اپنے دور حکومت میں یہ خود بھی عالمی بینکوں سے قرضہ لیتے رہے'پیپلز پارٹی کی جب مرکز میں حکومت تھی تو اس نے بھی عالمی بینک سے بھاری شرح سود پر قرضے حاصل کیے۔اس کے بعد جب مسلم لیگ ن کی حکومت برسراقتدار آئی تو اس نے بھی آئی ایم ایف کے آگے جھولی پھیلائی۔ آج موجودہ حکومت کو جن مشکلات کا سامنا ہے'یہ ماضی کی حکومتوں کا ہی کیا دھرا ہے۔ کوئی بتائے گا کہ اس سیاسی حکومت میں عالمی مالیاتی اداروں سے کتنا قرض لیا گیا؟ اور آج بے چاری نئی حکومت ان کا کتنا چھوڑا ہوا اندرونی اور بیرونی قرض بھگت رہی ہے۔
حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے دو ماہ ہو رہے ہیں، دو ماہ تو سابق حکومت کا کارگزاریوں کا جائزہ لینے ہی میں گزر جاتے ہیں، ابھی تو وہ بیوروکریسی کے تقررو تبادلوں سے ہی باہر نہیں آئے۔ ضمنی انتخابات کا مرحلہ بھی ابھی ختم ہوا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو جمہوری عمل مکمل ہوئے ابھی ایک دو روز ہی گزرے ہیں۔ لیکن اپوزیشن نے واویلہ شروع کر رکھا ہے۔کرپشن، سرمایہ دارانہ نظام کا لازمہ ہے لیکن اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے، بڑے بڑے فنکاروں نے اتنی مہارت اور فنکاری سے بھاری کرپشن کا ارتکاب کیا ہے کہ تحقیقاتی ادارے بھی چکراکر رہ گئے ہیں۔
عوامی دولت کی کتنے بڑے پیمانے پر چوری کی گئی ہے کہ اربوں کی دولت کو رکھنے کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا، فالودہ بیچنے والوں، سبزی بیچنے والوں، دفاتر میں معمولی ملازمتوں والوں کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے ڈال اور نکال رہی ہے۔ بے چارے غریب لوگ اپنے اکاؤنٹس میں اربوں کی ٹرانزیکشن دیکھ کر حیران ہیں۔یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے 'کیا کرپشن کے خلاف اقدامات کرنا ناجائز بات ہے 'عوام کا تو مطالبہ ہی یہ ہے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے اور جن لوگوں نے ناجائز دولت جمع کی ہے ان سے حساب لیا جائے۔
یہاں سیاسی اشرافیہ کے اربوں کے اکاؤنٹس اور بیرون ملک اربوں کی جائیداد کی نشان دہی ہو رہی ہے اور اس حوالے سے حتمی تحقیقاتی جاری ہے۔ اس تحقیقات کے نتائج کا لٹیروں کو اندازہ ہے، اس سے بچنے کے لیے ہمیشہ کی طرح جمہوریت کا سہارا لیا جا رہا ہے اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے سبق پڑھانے جا رہے ہیں۔ 71 سال سے ملک میں یا تو اشرافیائی آمریت رہی ہے یا فوجی حکومتیں رہی ہیں، وہ نوابین جن کی پیدائش جرنیلوں کے ہاتھوں میں ہوئی ہے، آج جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی باتیں کر رہے ہیں۔ ایسے نازک موقعوں پر اشرافیہ عوامی طاقت کو استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن میڈیا میں کرپشن کی داستانوں کی تشہیر کی وجہ سے عوام اب چوکنے ہو رہے ہیں، عوام کے رویوں سے اشرافیہ سخت مایوسی کا شکار ہے۔
کرپشن کے انجام سے خائف اشرافیہ دو حوالوں سے متحرک ہے، ایک تو حکومت کو بدنام کرنے کے لیے پروپیگنڈا کا طوفان اٹھائے ہوئے ہے، ایک اس غیر معمولی پروپیگنڈے کی دھول میں خود کو چھپایا جا سکے۔ اس سے بڑا مسئلہ ایک مڈل کلاس کے اقتدار میں آنے کا ہے۔ اشرافیہ اس حقیقت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کہ سیاسی فیصلوں کا حق عوام کو حاصل ہے اور عوام نے 25 جولائی 2018ء کو اپنا فیصلہ سنا دیا، لیکن جمہوریت کے علمبردار عوام کو اس فیصلے کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ مودی کی طرح میں نہ مانوں کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ 71 سال سے اقتدار کو اپنی جاگیر سمجھنے والی اشرافیہ کا ''وقار'' اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اقتدار پر مڈل کلاس کی بالادستی کو قبول کریں۔
عوام کی زندگی میں 71 سال سے کوئی تبدیلی نہیں آئی، کیونکہ عوامی مسائل کا حل کبھی اشرافیہ کے ایجنڈے میں رہا ہی نہیں۔ جو اشرافیہ 71 سال میں عوام کی زندگی میں ایک فیصلہ کن تبدیلی نہ لاسکی وہ عمران خان سے توقع کر رہی ہے کہ دو ماہ میں وہ عوام کے مسائل حل کر دے۔
عمران خان نے ماضی کے حکمرانوں کے قرض اتارنے کے لیے سعودی عرب سے بھاری امداد لینے میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور چین سمیت کچھ اور دوستوں سے مزید بھاری امداد لینے کے لیے کوشاں ہے، اگر سابقہ حکومت نئی حکومت کے لیے قرضوں کے انبار نہ چھوڑتی تو نئی حکومت کو امداد لینے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ عمران حکومت کی کوششوں سے ملکی معیشت دوبارہ پٹری پر آگئی ہے، ان کوششوں کی تعریف کرنے کے بجائے طنز کیے جا رہے ہیں۔